سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(129) بینک کی نوکری

  • 23881
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1751

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے کامرس میں گریجویشن کی ڈگری لی ہے۔اس ڈگری کی بنیاد پر میں نوکری تلاش کرتا رہا۔کافی تلاش کے بعد مجھے ایک بینک میں نوکری ملی۔میں جاننا چاہتا ہوں کہ بینک میں سودی کاروبار ہوتا ہے لیکن میں اس نوکری کوقبول کرنے پر مجبور ہوں۔کیونکہ یہی میری روزی ر وٹی کاذریعہ ہے ۔کیا میں یہ نوکری چھوڑدوں یا یہ نوکری  میرے لیے جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بلاشبہ اسلام کامعاشی نظام سودی کاروبار کی مکمل نفی کرتا ہے۔اسلام کی نظر میں سود کاشمار گناہ کبیرہ میں ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے سودی کاروبار کرنے والوں کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے۔اللہ فرماتا ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَروا ما بَقِىَ مِنَ الرِّبو‌ٰا۟ إِن كُنتُم مُؤمِنينَ ﴿٢٧٨ فَإِن لَم تَفعَلوا فَأذَنوا بِحَربٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسولِهِ ...﴿٢٧٩﴾... سورة البقرة

’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑ دو، اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو (278) اور اگر ایسا نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے لڑنے کے لئے تیار ہو جاؤ، ‘‘

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

"إِذَا ظَهَرَ الزِّنَا وَالرِّبَا فِي قَرْيَةٍ ، فَقَدْ أَحَلُّوا بِأَنْفُسِهِمْ عَذَابَ اللهِ عذاب الله"(حاکم)

’’جب کسی بستی میں زنا اور سودعام ہوجائے تو وہ اپنے اوپر اللہ کے عذاب کو حلال کرلیتے ہیں‘‘

دین اسلام کا قانون یہ ہے کہ گناہوں اور برائیوں کو بزور قوت روکاجائے۔اگر اس کی استطاعت نہ ہوتو کم از کم یہ ضروری ہے کہ ان گناہوں سے دور رہاجائے اور ان میں کسی قسم کی شرکت نہ ہو۔اسی لیے اسلام نے ہر اس فعل کو حرام قراردیا ہے جو معصیت میں مددگار ثابت ہو۔اسلام کی نظر میں گناہ کرنے والا اورگناہ میں مددگار بننے والا دونوں برابر کے مجرم ہیں۔اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ شراب پینے والا،پلانے والا،بنانے والا،فراہم کرنے والا سب ہی اللہ کی نظر میں ملعون ہیں۔اسی طرح سود کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"عَنْ جَابِرٍ قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا وَمُؤْكِلَهُ وَكَاتِبَهُ وَشَاهِدَيْهِ "(مسلم)

’’حضور( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے سود کھانے والے،کھلانے والے اور اس معاملے میں دونوں گواہوں پر لعنت فرمائی ہے‘‘

اسی مفہوم کی متعدد احادیث حدیث کی کتابوں میں وارد ہیں اور ساری حدیثیں صحیح ہیں۔ان ہی احادیث کی بنا پر دیندار حضرات کا ضمیر بینک میں کام کرنے پر مطمئن نہیں ہوتا۔بینک میں کام کرنے کی وجہ سے ان کاضمیر ہمیشہ عذاب میں مبتلا رہتا ہے۔

تاہم میری رائے میں بینک میں جوسودی نظام رائج ہے اس کاتعلق بینک کے اسٹاف سے نہیں ہوتا ہے ۔یہ سودی نظام تو بینک کے کاروبار کاایک اٹوٹ حصہ ہے۔یہ سودی نظام ہمارے پورے معاشی ڈھانچے کاایسا جزو لاینفک بن چکاہے کہ اس سے فرار ممکن نہیں اسی کی طرف یہ حدیث اشارہ کرتی ہے:

"لَيَأْتِيَنّ علَى النّاسِ زَمَانٌ لاَ يَبْقَى أحَدٌ إلاّ أكَلَ الرّبَا، فَإنْ لَمْ يَأْكُلْهُ أصَابَهُ مِنْ غُبَارِهِ " (ابوداؤد اور ابن ماجه)

’’لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا جب کہ کوئی ایسا نہیں بچے گا جو سود نہ کھاتا ہو۔اگر وہ سود نہیں کھاتا تو اس کی دھول سے نہیں بچ سکتا(یعنی کچھ نہ کچھ سود وہ ضرور کھائے گا)‘‘

یہ ایسی صورت حال ہے کہ بینک کے کسی اسٹاف کے نوکری چھوڑدینے سے اس سودی نظام پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔اس پر اثر اس وقت پڑ سکتا ہے جب پورا معاشرہ مل کر اس کے خلاف کچھ کرے۔یکبارگی تواس نظام کو بدلنا ممکن نہیں۔البتہ دھیرے دھیرے اس نظام کو بدلنے کی پوری کوشش ہونی چاہیے۔اسلام کا قانون بھی یہی کہتا ہے کہ معاشرے میں کسی برائی کی اصلاح دھیرے دھیرے اور بہ تدریج ہو۔چنانچہ اللہ نے جب شراب حرام کی تو یکایک حرام قرار نہیں دیا بلکہ بتدریج اس کی حرمت کا اعلان کیا۔

بہرحال مسلم معاشرے کے ہوشمند افراد کافرض ہے کہ سودی نظام کو اسلامی اقتصادی نظام میں بدلنے کی ہر ممکن کوشش کریں اور یہ کام کوئی ناممکن بھی نہیں ہے۔

اگر ہم مسلمانوں کو بینک کی نوکری سے منع کردیں گے تو صورت حال یہ ہوگی کہ بینک میں یہودی،عیسائیوں اور دوسرے غیرمسلموں کا غلبہ ہوجائے گا۔خصوصاً کسی مسلم ملک کے بینکوں پر غیرمسلموں کا قبضہ ہوجائے تو جو خطرناک نتائج  ہوں گے ان کا اندازہ بخوبی کیا جاسکتا ہے۔

پھر ایسا بھی نہیں ہے کہ بینک میں سارا کا سارا  سودی کاروبارہوتا ہو۔بینک  میں حلال طریقہ سے تجارت بھی ہوتی ہے۔اب تو صورت حال یہ ہے کہ سودی کاروبار کم ہی ہوتا ہے اور بینک کے زیادہ ترکاروبار حلال تجارت پر مشتمل ہوتےہیں۔

اس لیے میری رائے میں بینک کی نوکری کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے خواہ اس کا ضمیر اس پر مطمئن نہ ہو۔البتہ اس بات کا لحاظ رہے کہ بینک میں اپنے  فرائض وہ بخوبی انجام دے ایسا نہ کرے کہ ضمیر کی بے اطمینانی کی وجہ سے اپنی ذمہ داریوں میں کوتاہی کرے۔

آخر میں کہنا چاہوں گا کہ انسان کی زندگی میں ایسے حالات بھی آتے ہیں کہ انسان بہت کچھ کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے اور اسلام نے انسانی مجبوری کی مکمل رعایت کی ہے۔اسی مجبوری کے تحت بسااوقات انسان بینک کی نوکری اختیار کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ایسی حالت میں ہم اسے ایسا کرنے سے منع نہیں کرسکتے۔اللہ کا فرمان ہے"

﴿فَمَنِ اضطُرَّ غَيرَ باغٍ وَلا عادٍ فَلا إِثمَ عَلَيهِ إِنَّ اللَّهَ غَفورٌ رَحيمٌ ﴿١٧٣﴾... سورةالبقرة

’’پس جو شخص مجبورا ہواس کے لیے لیکن نہ اس کی خواہش رکھتاہو اور نہ دوبارہ ایسا کرنا چاہتا ہوتو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے بے شک اللہ غفور ورحیم ہے‘‘

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

اجتماعی معاملات،جلد:1،صفحہ:317

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ