سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(128) بینک کا سود حلال ہے یا حرام

  • 23880
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2022

سوال

(128) بینک کا سود حلال ہے یا حرام

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نوکری کرتا ہوں اور میری تنخواہ بھی معقول ہے۔اس تنخواہ کاایک حصہ میں ہر مہینے بینک میں جمع کردیتا ہوں اور اس پر سود(Interest) لیتا ہوں۔ کیا اس کالینا میرےلیے جائز ہے؟مرحوم شیخ شلوت نے اس کے جوازکافتویٰ دیاہے۔میں نے متعدد علماء سے اس بارے میں سوال کیا۔بعض نے اسے جائز قراردیااور بعض نے حرام۔واضح رہے کہ میں بینک میں اکٹھے کیے ہوئے روپیوں کی زکوٰۃ بھی نکالتا ہوں۔اگر اس سود کالینا جائز نہیں ہے تو پھر میں ان پیسوں کا کیاکروں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بینک میں جمع کیے ہوئے پیسے پر سود لینا حرام ہے۔کیونکہ یہ سود ہے جسے اللہ نے حرام قراردیاہے۔سود کی تعریف یہ رہے کہ اصل مال پر جواز زائد رقم بغیر محنت یاتجارت لے لی جائے وہ سود ہے۔اسی لیے اللہ کا فرمان ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَروا ما بَقِىَ مِنَ الرِّبو‌ٰا۟ إِن كُنتُم مُؤمِنينَ ﴿٢٧٨ فَإِن لَم تَفعَلوا فَأذَنوا بِحَربٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسولِهِ وَإِن تُبتُم فَلَكُم رُءوسُ أَمو‌ٰلِكُم لا تَظلِمونَ وَلا تُظلَمونَ ﴿٢٧٩﴾... سورةالبقرة

"اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑ دو، اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو (278) اور اگر ایسا نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے لڑنے کے لئے تیار ہو جاؤ، ہاں اگر توبہ کرلو تو تمہارا اصل مال تمہارا ہی ہے، نہ تم ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے گا"

اس آیت کے مطابق سود سے توبہ کرنے کا مطلب ہے کہ انسان اپنا اصل مال لے لے اور اس سے جو زائد رقم ہے،اسے چھوڑدے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اصل مال سے جو زائد رقم ہے وہی سود ہے۔

جہاں تک میں جانتاہوں شیخ شلوت نے بینک کے سود کو صرف مجبوری کی حالت میں جائز قراردیاہے۔عام حالات میں بینک کا سودا ن کے یہاں بھی جائز نہیں ہے۔

دین اسلام اس بات کو جائز نہیں تصور کرتا کہ انسان اپنا مال کسی جگہ جمع کرے اور بغیر کسی محنت یاتجارت کے اس پر ایک متعین فائدہ لیتا رہے۔اگر وہ واقعی بینک میں اپنا مال بحیثیت شریک یا ساجھےدار کے جمع کررہاہے تو اسے نفع ونقصان دونوں میں شریک ہونا چاہیے۔اور نفع کومتعین کرنے کی بجائے اتنا ہی نفع لے جتنا نفع بینک نے کمایاہے۔چاہے یہ نفع  تھوڑا ہو یا زیادہ۔لیکن عملاً ہوتا یہ ہے کہ بینک میں پیسہ جمع کرنے والا صرف نفع میں شریک ہوتا ہے نقصان میں نہیں۔اور نفع کی بھی مقدار متعین ہوتی ہے۔چنانچہ نفع کی ایک قلیل مقدار اس کے حصے میں آتی ہے حالانکہ بینک کامنافع بسااوقات 80 یا90 فیصد سے بھی زائد ہوتا ہے لیکن بینک میں پیسے رکھنے والے صرف 5 یا6 فیصد نفع لیتے ہیں۔

رہا سوال کہ اس حرام(Interest) کا کیا کیا  جائے؟

بعض علماء کہتے ہیں کہ چونکہ یہ حرام ہے اس لیے اس کا لینا جائز نہیں ہے اوراگر لے لیا تو اس کا صدقہ کرنا صحیح نہیں ہے اس لیے اس سمندر میں پھینک دینا چاہیے۔لیکن میری رائے میں سمندر میں پھینکنا صحیح نہیں ہے کیونکہ اس طرح مال کاضیاع ہے جس سے اللہ نے منع کیا ہے۔

بہترین شکل یہ ہوگی کہ اس غریبوں اور مسکینوں پر تقسیم کردے یا کسی رفاہی کام میں خرچ کردے یاکسی ایسے کام میں خرچ کردے جس میں اسلام اورامت مسلمہ کافائدہ ہو۔

یہ بات کافی نہیں ہے کہ آپ اس کی زکوٰۃ ادا کردیں۔کیونکہ زکوٰۃ ادا کردینے سے حرام مال حلال نہیں ہوجاتا۔صحیح یہ ہے کہ اس حرام مال کو استعمال نہ کیا جائے۔

Interest کی رقم کو بینک میں چھوڑ دینا بھی صحیح نہیں ہے۔کیونکہ یہ رقم بینک میں چھوڑ کر آپ اس بینک کے ہاتھ مضبوط کریں گے جو سودی کاروبار کررہاہے۔

بعض لوگ یہ اعتراض کرسکتے ہیں کہ ہمارے جمع کیے ہوئے پیسے سے بینک تجارت کرتا ہے اور نفع کماتاہے تو ہمیں بھی اس نفع میں سے کچھ ملنا چاہیے۔

میں کہتا ہوں کہ آپ اس نفع میں بخوشی شریک ہوسکتے ہیں باشرط یہ کہ پیسہ جمع کرتے وقت آپ بینک والوں کو یہ بتادیں کہ آپ بینک کی تجارت میں ساجھے دار کی حیثیت سے پیسہ جمع کررہے ہیں اور یہ کہ آپ نفع ونقصان دونوں میں برابر کے شریک رہیں گے۔اگر بینک آپ کی اس شرط پر راضی ہوجائے تو بلاشبہ آپ اس نفع میں شریک ہوسکتےہیں۔

لیکن عملاً یہ ہوتاہےکہ لوگ بینک کے نفع میں تو شریک ہونا چاہتے ہیں۔تاہم بینک کا خسارہ ہوجائے یا بینک دیوالیہ ہوجائے تو لوگ اس نقصان میں شریک نہیں ہوتے اور اپنا مال مع سود کے واپس لینے کی جدوجہد میں مصروف ہوجاتے ہیں۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

اجتماعی معاملات،جلد:1،صفحہ:315

محدث فتویٰ

تبصرے