سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(127) تجارت اسلام کی نظر میں

  • 23879
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1780

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا یہ صحیح ہے کہ دین اسلام تجارت کو ناپسند کرتا ہے؟ کیا کوئی ایسی  حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  ہے کہ  تاجر حضرات قیامت کے دن فاجر وفاسق کی صورت میں اُٹھائے جائیں گے؟کیا یہ حدیث ان تاجروں پر بھی منطبق ہوتی ہے جو حلال چیزوں کی تجارت کرتے ہیں اورحلال رزق کماتے ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دین اسلام تجارت کو ناپسند نہیں کرتا کیوں کہ تجارت حلال رزق کمانے کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے جس کاتذکرہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں تعریفی انداز میں کیا ہے اور فضل الٰہی سے تعبیر کیا ہے۔اللہ فرماتا ہے"

﴿فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلو‌ٰةُ فَانتَشِروا فِى الأَرضِ وَابتَغوا مِن فَضلِ اللَّهِ...﴿١٠﴾... سورةالجمعة

"پھر جب نماز پوری ہوجائے توزمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو(یعنی رزق تلاش کرو)‘‘

اور اللہ کا ارشاد ہے:

﴿لَيسَ عَلَيكُم جُناحٌ أَن تَبتَغوا فَضلًا مِن رَبِّكُم...﴿١٩٨﴾... سورة البقرة

’’اور اگرحج کے ساتھ تم اپنے رب کا فضل بھی تلاش کروتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے‘‘

ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے تجارت کے ذریعے سے رزق حاصل کرنے کو فضل اللہ سے موسوم کیا ہے۔

صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  میں ایک اچھی خاصی تعداد ان لوگوں کی تھی جو تجارت پیشہ تھے۔مثلاً حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ  جب مدینہ ہجرت کرکے آئے تو کچھ بھی ان کے پاس نہیں تھا۔پھر انہوں نے تجارت شروع کی اور جلد ہی بڑے مالدار ہوگئے۔!اور سبھی جانتے ہیں کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ان دس خوش نصیبوں میں ہیں جنہیں دنیا ہی میں جنت کی بشارت دے دی گئی تھی۔اگرتجارت مکروہ چیز ہوتی تو انہیں ہرگزیہ مقام حاصل نہیں ہوتا۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کہا کرتے تھے کہ میدانِ جہاد کے علاوہ اگر کوئی دوسری جگہ مجھے مرنے کے لیے سب سے زیادہ محبوب ہے تو وہ بازار ہے جہاں میں اپنے گھر والوں کے لیے کچھ خریدوفروخت کرتارہوں۔ان دلائل کی روشنی میں معلوم ہوا کہ تجارت اسلام کی نظر میں ناپسندیدہ نہیں بلکہ پسندیدہ ہے۔

البتہ ضرورت ہے کہ تجارت شریعت کے بتائے ہوئے اُصول کے مطابق ہو۔ورنہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ تجارت میں غلط صحیح کی تمیز نہیں کی جاتی اور تاجر اللہ کی نظرمیں گناہگار ہوجاتا ہے۔اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ:

"إِنَّ التُجَّارَ يُبعَثُونَ يَومَ القِيَامَةِ فُجَّارًا ، إِلَّا مَن اتَّقَى اللَّهَ وَبَرَّ وَصَدَقَ" (ترمذی)

’’بلاشبہ تاجرحضرات قیامت کے دن فاجروں کی صورت میں اُٹھائے جائیں گے سوائے ان کے جنہوں نے اللہ کاڈر رکھا۔نیکی کی اور سچ بات کہی۔‘‘

اس حدیث سے معلوم ہواکہ جہنم کی آگ سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ تاجر تجارتی معاملات  میں نیکی اور سچائی سے کام لے اور غلط کام پر خدا سے ڈرے ۔اسی لیے دوسری حدیث ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ تین لوگوں کی طرف اللہ قیامت کے دن نہیں دیکھے گا۔ان میں سےایک وہ ہے:

"وَالْمُنْفِقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلِفِ الْكَاذِبِ"(مسلم اور اصحاب السنن)

’’جھوٹی قسم کے ذریعے سے مال تجارت کو بڑھا چڑھا کربتانے والا‘‘

ایک حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے تاجروں کے بارے میں فرمایا:

"وَلِكِنَّهُم يُحَدِّثُونَ فَيَكذِبُونَ ، وَيَحلِفُونَ فَيَأثَمُونَ"(مسند احمد اور حاکم)

’’و کچھ بتاتے ہیں تو جھوٹ بولتے ہیں اور قسم کھاتے ہیں توگناہ کرتے ہیں‘‘

ایسے ہی تاجر حضرات ہیں جن کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ قیامت کے دن فاجروں کی طرح اُٹھائے جائیں گے۔وہ تجارت جسے اللہ تعالیٰ نے فضل الٰہی سے تعبیر کیاہے ان میں مندرجہ ذیل شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے:

1۔سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ حلال اورمباح چیزوں کی تجارت کی جائے۔اسلام کی نظر میں جوچیزیں حرام ہیں ان کی تجارت نہ کی جائےمثلاً شراب،خنزیر کا گوشت وغیرہ۔حدیث میں ہے کہ اگر کسی نے انگور کوروکے رکھاتاکہ کسی یہودی یا عیسائی کوشراب بنانے کی غرض سے فروخت کرےتو اس نے جان بوجھ کر جہنم کی آگ خریدی(1)

2۔دوسری شرط یہ ہے کہ تجارت میں دھوکہ نہ دے مثلاً یہ کہ خراب مال کو اچھا مال بتاکر فروخت کردیا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کا  فرمان ہے:

"مَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا" (مسلم)

’’جس نے دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘

3۔تیسری شرط یہ ہے کہ زیادہ منافع کی غرض سے ذخیرہ اندوزی نہ کرے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

" لَا يَحْتَكِرُ إِلَّا خَاطِئٌ " (مسلم،ابوداؤد)

’’ذخیرہ اندوزی ہو کرتا ہے جوگناہ گار ہوتا ہے‘‘

4۔چوتھی شرط یہ ہے کہ مال فروخت کرتے وقت سچی جھوٹی قسمیں نہ کھائے۔

5۔پانچویں شرط یہ ہے کہ سامان بہت مہنگانہ بیچے۔مثلاً یہ کہ حکومت نے قیمت متعین کردی ہو اور تاجر زیادہ نفع کی لالچ میں اس قیمت سے زیادہ قیمت میں سامان فروخت کرے۔حدیث ہے:

"من دخل في شيء من أسعار المسلمين ليغليه عليهم كان حقًا على الله أن يعقده بِعُظْم من النار يوم القيامة"(مسند احمد،طبرانی،حاکم)

’’جس نےقیمتوں میں کسی قسم کی دخل اندازی کی تاکہ مسلمانوں پر اسے مہنگا کردے تو اللہ پرواجب ہے کہ اسے قیامت کے دن آگ پر بٹھائے۔‘‘

6۔چھٹی شرط یہ ہے کہ اپنے مال کی زکوٰۃ نکالے۔

7۔ساتویں شرط یہ ہے کہ تجارت تاجر کو دینی فرائض مثلاً نماز،روزہ،حج یا صلہ رحمی وغیرہ سے غافل نہ کردے۔اکثر دیکھا جاتاہے کہ تاجر حضرات اپنی تجارت میں اس قدر محو رہتے ہیں کہ دین ودنیا سے غافل ہوکر بس جوڑ گھٹاؤ میں مصروف رہتے ہیں۔نہ نماز کا ہوش ہوتا ہے نہ انہیں اہل خانہ کی فکر ہوتی ہے اور نہ رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی کا کوئی خیال ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کی تعریف کرتے ہوئے فرماتاہے:

﴿رِجالٌ لا تُلهيهِم تِجـٰرَةٌ وَلا بَيعٌ عَن ذِكرِ اللَّهِ وَإِقامِ الصَّلو‌ٰةِ وَإيتاءِ الزَّكو‌ٰةِ ...﴿٣٧﴾... سورةالنور

’’ان میں سے ایسے لوگ صبح وشام اس کی تسبیح کرتے ہیں جنہیں تجارت اور خرید وفروخت اللہ کی یاد سے اور نماز کی ادائیگی اور ادائے زکوٰۃ سے غافل نہیں کردیتی۔‘‘

یہ ہیں وہ شرطیں جن کا ہر مسلمان تاجر کو پاس ولحاظ کرنا چاہیے۔کیونکہ اگر اس نے ان شرائط کے مطابق تجارت کی تو اس کے لیے ایک خوش خبری ہے۔جیسا کہ حدیث میں ہے:

"التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الأَمِينُ مَعَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ"(ترمذی)

’’ایماندار اور سچا تاجر قیامت کے دن انبیاء علیہ السلام ،نیکوکاروں اورشہیدوں کے ساتھ ہوگا‘‘

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

اجتماعی معاملات،جلد:1،صفحہ:311

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ