سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(126) مزدوروں کی مزدوری کے تعین میں حکومت کی مداخلت

  • 23878
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1391

سوال

(126) مزدوروں کی مزدوری کے تعین میں حکومت کی مداخلت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا کسی اسلامی حکومت کے لیے یہ بات جائز ہے کہ مزدور اور اس کے مالک کے معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے مزدور کی تنخواہ،الاؤنس،چھٹی، ڈیوٹی کے اوقات یا اس جیسے دوسرے معاملات خود حکومت طے کرے۔کیونکہ اس دور میں مزدوروں کے ساتھ عام طور پر بڑی بے انصافی ہوتی ہے اور اکثر ان کو ان کے جائز حقوق نہیں مل پاتے ہیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میں سب سے پہلے ایک اہم شرعی نکتے کی طرف قارئین کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں۔عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی حکومت کا کام محض داخلی امن کو قائم رکھنا،بیرونی خطرات سے ملک کو محفوظ رکھنا ہے اور اقتصادی پالیسیاں طے کرنی ہیں۔حکومت کی یہ ذمے داری نہیں ہے کہ وہ مزدور اور اس کے مالک کےمعاملات میں دخل دے۔یہ ایک غلط  فکر ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اسلامی حکومت کے فرائض اور اس کی ذمے داریاں ان سب سے کہیں وسیع تر ہیں۔اسلامی حکومت کے فرائض میں ہر وہ پالیسی یا اقدام شامل ہے جس کے ذریعے عدل وانصاف قائم ہو،ظلم کی بیخ کنی ہو،لوگوں کو نقصان سے بچایا جائے اور لوگوں کے آپسی تنازعات کوطے کیاجائے تاکہ ایک صالح معاشرہ وجود میں آسکے۔چنانچہ حکومت کی ذمے داریوں میں یہ بھی شامل ہے کہ مزدور اور اس کے مالک کے باہمی معاملات کی نگہداشت کرے اور اگر مزدور کی حق تلفی ہورہی ہو تو اس کا حق دلوانے کے لیے کوئی ٹھوس قدم اُٹھائے۔میں اپنی بات کے لیے مندرجہ ذیل دلیلیں پیش کرتا ہوں:

1۔حدیث شریف ہے:

"كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْؤول عَنْ رَعِيَّتِهِ، الإِمَامُ رَاعٍ وَمَسْؤولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ"(بخاری اور مسلم)

’’تم میں سے ہر شخص ذمے دارہے اور تم میں سے ہر ایک شخص اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔چنانچہ امامِ وقت بھی ذمے دار ہے اور اپنی رعیت کے معاملہ میں جواب دہ ہے۔‘‘

اس حدیث میں امام وقت یا بالالفاظ دیگر حکمران وقت کی ذمہ داریوں کو خاص اور محدود نہیں بلکہ عام اور لامحدود بتایا گیا ہے۔چنانچہ حکمران وقت اپنی رعایا کی تمام باتوں کاذمہ دار ہے۔اس حدیث میں یہ نہیں ہے کہ حکمران وقت صرف فلاں اور فلاں باتوں کا جواب دہ ہے بلکہ وہ اپنی رعایا کے تمام معاملات کا ذمہ دار ہے اور جواب دہ ہے۔اسی لیے حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بن الخطاب فرماتے تھے کہ اگر میرے دادا دریائے فرات کے اس پار بھی قتل کردیے جائیں تو قیامت کے دن اللہ کے سامنے میں اپنے آپ کو اس بارے میں جواب دہ تصور کروں گا۔

2۔لوگوں کی زندگی میں عدل وانصاف قائم کرنا اسلام کے عظیم ترین مقاصد میں سے ایک ہے۔اس عدل وانصاف  کی خاطر رسولوں کی بعثت ہوئی ہے۔اللہ فرماتا ہے:

﴿لَقَد أَرسَلنا رُسُلَنا بِالبَيِّنـٰتِ وَأَنزَلنا مَعَهُمُ الكِتـٰبَ وَالميزانَ لِيَقومَ النّاسُ بِالقِسطِ ...﴿٢٥﴾... سورة الحديد

"ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں"

دوسری آیت ہے:

﴿إِنَّ اللَّهَ يَأمُرُكُم أَن تُؤَدُّوا الأَمـٰنـٰتِ إِلىٰ أَهلِها وَإِذا حَكَمتُم بَينَ النّاسِ أَن تَحكُموا بِالعَدلِ...﴿٥٨﴾... سورة النساء

"اللہ تعالیٰ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو۔اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو"

ان دونوں آیات سے واضح ہے کہ رسولوں کی بعثت کامقصد عدل وانصاف قائم کرنا ہے اور اللہ نے حکم دیا ہے کہ لوگوں کے درمیان ایسافیصلہ کیا جائے جو انصاف پر مبنی ہو اور جس کی امانت ہویا حق ہو وہ اسے لوٹا دیاجائے۔یہ اللہ کا حکم ہے ۔اگر مزدوروں کے حقوق محفوظ نہیں ہیں اور ان کی حق تلفی ہورہی ہو تو یہ عدل وانصاف کے خلاف ہے اور اللہ کےحکم کی نافرمانی ہے۔اس لیے حکمران وقت کافرض ہے کہ اللہ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے مزدوروں اور ان کے مالکوں کے درمیان عدل وانصاف قائم کرے۔

3۔اسلامی شریعت کاقاعدہ ہے کہ نقصان ہونے سے قبل نقصان کو روکنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں اور اگر نقصان واقع ہوجاتا ہے تو اسے دور کرنے کے لیے ہرممکن کوشش کی جائے۔اسی لیے حدیث شریف میں ہے:

"لاَ ضَرَرَ وَلاَ ضِرَارَ "

’’نہ نقصان اٹھاؤ اور نہ کسی کو نقصان پہنچاؤ‘‘

اس حدیث کی بنیاد پر اسلامی شریعت کےمتعدد احکام وقوانین کی عمارت قائم ہے۔چنانچہ اسلامی حکومت کے قوانین میں ایسا قانون ضرور ہونا چاہیے۔جس کے ذریعے سے رعایا کو پہنچنے والے نقصان کو روکا جاسکے یا نقصان کی تلافی کی جاسکے۔

مذکورہ بالا اُصول کی بنیاد پر فقہاءکرام نے چند فروعی قوانین وضع کیے ہیں مثلاً یہ کہ نقصان کی ہر حال میں تلافی کی جائے،کسی نقصان کی تلافی دوسرے نقصان سے نہیں ہوسکتی۔عام لوگوں کے نقصان کو دفع کرنے کے لیے کسی خاص شخص کے نقصان کو برداشت کرنا چاہیے۔بڑے نقصان کو دفع کرنے کے لیے چھوٹے نقصان کوبرداشت کیاجاسکتا ہے،وغیرہ وغیرہ۔

4۔اسلامی شریعت کی رو سے اسلامی حکومت کا دائرہ اختیار بہت وسیع ہے۔ اسلامی حکومت ہر وہ اقدام کرسکتی ہے اور ہروہ پالیسی وضع کرسکتی ہے جو معاشرہ کے مفاد میں ہو،جس سے عدل وانصاف قائم ہو اور معاشرہ میں ظلم وفساد کی بیخ کنی ہو۔شرط یہ ہے کہ کوئی بھی پالیسی قرآن وسنت کے خلاف نہ ہو۔

اس وسیع دائرہ کار اور دائرہ اختیار میں یہ بھی شامل ہے کہ اسلامی حکومت بازار میں اشیاءکی قیمتوں پر کنٹرول کرے۔مکانوں اوردکانوں کے کرایہ پر کنٹرول کرے اور مختلف خدمتوں کے لیے مزدوری یااجرت کی تعین کرے۔مصالح عامہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے قیمتوں،کرایوں اور اجرتوں کے تعین کے لیے اسلامی حکومت کوئی قانون بھی بناسکتی ہے۔

غرض یہ کہ اسلام دنیا کاپہلا مذہب ہے جس نے معاشرہ میں مکمل عدل وانصاف کے قیام کے لیے اور ظلم وفساد کی روک تھام کے لیے واضح ترین اور مکمل ترین پالیسیاں پیش کیں۔مثال کے طور پر ایک حدیث پیش کروں گا:

"أَعْطُوا الْأَجِيرَ أَجْرَهُ قبل أَنْ يَجِفَّ عَرَقُهُ"(ابن ماجہ اور ترمذی)

’’مزدور کو اس کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے قبل ادا کردو۔‘‘

ایک دوسری حدیث بخاری شریف میں موجود ہے ان تین لوگوں کے سلسلے میں جن سے اللہ قیامت کے دن جھگڑا کرے گا۔ان میں سے ایک:

 "وَرَجُلٌ اسْتَأْجَرَ أَجِيرًا فَاسْتَوْفَى مِنْهُ وَلَمْ يُعْطِهِ أَجْرَهُ "

’’وہ شخص(ہے) جس نے کسی مزدور کی خدمت حاصل کی اور اس سے پورا کام لیا لیکن اسے مزدوری نہیں دی‘‘

یہاں ایک اہم بات کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں۔اسلامی حکومت چاہے مزدوروں کے حقوق دلانے کے لیے کوئی قانون وضع کرے یا بازار کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی پالیسی بنائے یامصالح عامہ کی خاطر کوئی اقدام کرے۔عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ اس قانون پر تو عمل کرتے ہیں جو ان کی مرضی اور پسند کے مطابق ہو۔لیکن اگر کوئی قانون ان کی مرضی،پسند یا مفاد کے خلاف ہواتو لوگ اس پر عمل نہیں کرتے اور عمل نہ کرنے کے سو بہانے نکال لیتے ہیں۔حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کا واضح فرمان ہے:

"السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ عَلَى الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ فِيمَا أَحَبَّ وَكَرِهَ مَا لَمْ يُؤْمَرْ بِمَعْصِيَةٍ " (بخاری ومسلم)

’’ذمہ داروں کی بات سننا اور اطاعت کرناہرمسلمان شخص پر واجب ہے۔اپنی پسند اور ناپسند سب میں باشرط یہ کہ اسے گناہ کا حکم نہ دیاجائے۔‘‘

خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی شریعت اس بات کو پسند کرتی ہے کہ حکومت مزدوروں کی مزدوری کے تعین کے سلسلے میں مداخلت کرے۔اگر اس کی ضرورت ہو اور مصالح عامہ کاتقاضا ہو اور اس غرض کے لیے ان ماہرین سے مدد لی جاسکتی ہے،جو عدل پر مبنی قوانین وضع کرسکتے ہوں۔ان قوانین کااطلاق صرف مزدوری اور اجرت پر نہیں ہوگا بلکہ ڈیوٹی کے اوقات،سالانہ اور ہفتہ واری چھٹی اور ان جیسے دوسرے معاملات پر بھی ہوگا۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

اجتماعی معاملات،جلد:1،صفحہ:307

محدث فتویٰ

تبصرے