السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اس صدی میں سائنس ترقیوں نے سینکڑوں ایسے محیر العقول کارنامے انجام دیے ہیں جن پر انسانیت بجا طور پر فخر کرسکتی ہے۔طب کے میدان میں بھی سائنس نے کچھ ایسے امکانات پیدا کردیے ہیں۔جن کے بارے میں آج سے قبل سوچنا بھی ممکن نہ تھا۔تاہم ان میں سے کچھ ایسے مکانات ہیں جن پر عملدرآمد کرنا بحیثیت مسلمان ہمارے لیے شرعاً جائز ہے یا نہیں؟یہ جان لینا بہت ضروری ہے ۔ذیل میں میں مثال کے طور پر تین ایجادات کی طرف آپ کا ذہن مبذول کراناچاہتا ہوں اور ان کے بارے میں شریعت کا حکم سننا چاہتا ہوں۔
1۔سائنس کی رو سے بچے کی پیدائش میں تین چیزیں اہم رول ادا کرتی ہیں۔مرد کی منی،عورت کی منی اور رحم مادر،مرد اور عورت کی منی ایک ساتھ مل کر رحم مادرمیں پہنچتی ہے اور وہاں جا کر بچے کی پیدائش کا عمل شروع ہوتا ہے۔کچھ ایسے مرد ہیں جو اپنی منی رحم مادر میں پہنچانے سے قاصر ہیں۔ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعے ان کی منی رحم مادر میں پہنچا کر بچے کی پیدائش کاتجربہ کامیاب ہوچکا ہے۔تاہم وہ عورت جس کے پیٹ میں رحم سرے سے موجود ہی نہ ہو،اس کے بچے کی پیدائش کس طرح ہو؟اس کا حل سائنس نے یہ نکالا کہ شوہر اور بیوی کی منی کو لے کر کسی دوسری عورت کے رحم میں ڈال دیاجاتا ہے جہاں بچے کی پیدائش کاعمل پروان چڑھتا ہے۔یہ دوسری عورت جب نومہینے کے تکلیف دہ دور سے گزر کربچے کو جنم دیتی ہے تو بچہ اس کا نہیں کہلاتا ہے بلکہ ان شوہر اور بیوی کا کہلاتا ہے جن کی منی سے یہ بچہ پیدا ہوا۔کیا شریعت کی رو سے اس طریقے سے بچے کی پیدائش جائز ہے؟
2۔مرد کی منی دو قسم کے جراثیم پرمشتمل ہوتی ہے۔سائنس کی اصطلاح میں پہلی قسم کو X سے تعبیر کیاجاتا ہے اور دوسری قسم کوYسے۔اور یہ دونوں قسم کے جراثیم بیک وقت وافر مقدار میں مرد کی منی میں موجود ہوتے ہیں۔جب کہ عورت کی منی صرف X قسم کے جراثیم پر مشتمل ہوتی ہے۔مباشرت کے وقت اگر مرد کی منی کےX جراثیم پر غالب ہوکرعورت کی منی سے مل جاتے ہیں تو نتیجہXX ہوتاہے اور لڑکے کی پیدائش ہوتی ہے۔
اس نظریے کی بنیاد پر طبی ماہرین اس بات کا تجربہ کرنے میں مصروف ہیں کہ کسی طرح سائنسی عمل کے تحت اپنی پسند کے جراثیم کو غالب کیا جائے تاکہ نتیجہ اپنی پسند کے مطابق لڑکے یالڑکی کی صورت میں برآمد ہو۔جانوروں میں اس قسم کا تجربہ کامیاب ہوچکا ہے۔انسانوں پر یہ تجربہ ابھی باقی ہے ۔کیا شریعت کی رو سے لڑکی یالڑکے کایوں انتخاب کرنا جائزہوگا؟
3۔قدیم زمانے سے انسان نے اپنے دماغ اور اعصاب کو پُرسکون رکھنے کے لیے متعدد طریقے اپنائے ہیں۔انہیں وسائل میں ان مہلک اشیاء کا شمار بھی کیا جاسکتا ہے،جنہیں ہم شراب،افیون،چرس اور ہیروئن کے نام سے جانتے ہیں۔
سائنسی تجربات کے ذریعے سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ انسان میں غصہ،غم،تشنج،اختلاج بہت زیادہ حساس ہونا یاکسی قسم کے احساس سےعاری ہونا یہ ساری کیفیات دراصل دوران خون میں بعض کیمیائی اجزا میں تبدیلیوں کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ان تجربات کی روشنی میں ایسے انجکشن ایجاد ہوئے،جو کیمیائی تبدیلیوں کو اپنی مرضی کے مطابق رکھتےہیں اور ان سے ان مریضوں کا علاج ہوتا ہے،جو اعصابی طور پر یا دماغی طور پر صحت مند نہیں ہیں۔
ان کامیابیوں کی بنیادپر مستقبل میں ایسے انجکشن کی ایجاد کی پیشن گوئی کی جاتی ہے جس کاتجربہ مریض پر نہیں بلکہ صحت مند انسان پر ہوگا۔اس تجربہکا مقصد یہ ہوگاکس طرح ایک صحت مندانسان اپنی مرضی کے مطابق اعصابی یادماغی کیفیت اپنے اوپر طاری کرلے۔دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ انجکشن کے ذریعہ سے ہم کسی انسان کومستقل طور پر غصہ وربناسکتے ہیں یابالکل ٹھنڈے مزاج کا کسی کو بہت زیادہ حساس بنا سکتےہیں اور کسی کو بالکل بے حس اوربے شرم ،گویا ہرشخص اپنی مرضی کے مطابق اپنے مزاج کو ڈھال سکتا ہے کیاشریعت کی رو سے اس قسم کاعمل جائز ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بلاشبہ یہ مسائل غایت درجہ اہمیت کے حامل ہیں اورضروری ہے کہ ان مسائل میں شریعت کے احکام کو واضح کیا جائے۔ان مسائل کی اہمیت یوں بھی بڑھ جاتی ہے کہ ان پر تجربات جاری ہیں اور توقع ہے کہ مستقبل قریب میں ان تجربات میں کامیابی حاصل ہوجائے اور جو چیزیں آج محض نظریہ کی حیثیت رکھتی ہیں کل ایک حقیقت بن جائیں۔اس لیے ضروری ہے کہ علماء وفقہاء ان مسائل میں شریعت کا حکم واضح کریں۔اگرچہ سلف صالحین کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ وہ ان سوالوں کا جواب نہیں دیتے تھے جو ہنوزنظریہ کے مرحلہ میں ہوں یہاں تک کہ حقیقت کا روپ اختیار کرلیں۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ان لوگوں کے سوال کو سخت ناپسند کرتے تھے جو اس قسم کا سوال کرتے تھے کہ"بالفرض اگر ایسا ہوجائے تو اس کا کیاحکم ہوگا؟"اورکہتے تھے کہ کسی چیز کے بارے میں اس وقت تک سوال نہ کرو جب تک وہ چیز واقع نہ ہوجائے۔
آپ نے جو مسائل پیش کیے ہیں وہ بھی ہنوز نظریہ اور تجربہ کے مرحلہ میں ہیں لیکن غالب گمان ہے کہ مستقبل قریب میں یہ چیزیں حقیقت بننے والی ہیں اس لیے ان سوالوں کاجواب دے رہا ہوں۔
1۔بڑے غور وفکر کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس طریقہ سے بچے کی پیدائش دینی نقطہء نظر سے جائز نہیں ہوسکتی اور اسلامی شریعت اس قسم کے عمل کو خوش آمدید نہیں کہہ سکتی۔کیونکہ اس عمل سے جو نتائج مرتب ہوں گے وہ اسلام کے لیے ناقابل قبول ہیں۔
ان میں سب سے بھیانک نتیجہ یہ ہے کہ اس طرح بچے کی پیدائش کے عمل میں ماں کے عظیم مرتبہ اور اعلیٰ مقام کی زبردست پامالی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ دین اسلام ہویا دوسرے مذاہب ومکاتب فکر ان سب کے نزدیک ماں کی حیثیت ومنزلت نہایت اعلیٰ وارفع ہیں۔اور دنیامیں اس سے بڑھ کرکوئی نعمت نہیں ہے۔کبھی غور کیا کہ ماں کو یہ حیثیت کیوں حاصل ہے؟ماں وہ ہوتی ہے جس کی کوکھ میں مادہ منویہ کی نشونما کا عمل شروع ہوتا ہے۔نومہینہ تک مسلسل اور مادہ کو اپنے خون سے سینچتی رہتی ہے۔اپنی غذا اسے کھلاتی رہتی ہے۔نومہینے پر محیط یہ طویل مدت کتنی مصیبتوں اور آزمائشوں پر مشتمل ہوتی ہے اس کا بخوبی اندازہ ایک ماں کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں کرسکتا۔مگر ایک ماں ہی ہے جو ان تکلیفوں کوجھیل ہرممکن طریقہ سے اپنی کوکھ میں اس مادہ کی حفاظت کرتی ہے یہاں تک کہ وہ مادہ ایک انسانی صورت اختیار کرلیتا ہے۔اس کے اس سے کٹھن مرحلہ آتا ہے جب بچے کی پیدائش کا مرحلہ آتا ہے۔بچے کی پیدائش کے وقت جو شدید تکلیف ہوتی ہے اس کا صحیح اندازہ کیا کوئی کرسکتا ہے؟یہ مصیبتیں اور پریشانیاں یہیں نہیں ختم ہوجاتیں۔بلکہ بچے کی پیدائش کے بعد مصیبتوں کا ایک نیادور شروع ہوتا ہے۔اسے دودھ پلانے کا،اسے پالنے کا اور اپنا سارا سکھ دکھ چین قربان کرکے اس کی تربیت کرنے کا۔اور یہ ماں ہوتی ہے جو اولاد کی محبت میں سب کچھ ہنسی خوشی جھیل جاتی ہے۔اتنی آزمائشوں اور امتحانوں کے بعد اسے ماں کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔وہ ماں جس کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے قدموں تلے جنت ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اپنی عبادت کے بعد فوراً ماں باپ کی فرمانبرداری کا حکم دیا ہے۔اللہ کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے تین بار زور دے کر ماں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید فرمائی ہے۔
آپ ماں کی اس تصویر کو سامنے رکھیے اور یہ بتائیے کہ کیا وہ عورت ماں کہلانے کے لائق ہے جو اپنا مادہ منویہ دوسری عورت کی کوکھ میں رکھ کر مطمئن ہوجاتی ہے؟اس کی کوکھ میں نہ بچے کی نشوونماہوتی ہے اور نہ حمل اور پیدائش کی ہی طویل اور صبرآزمامصیبتوں سے گزرتی ہے۔کیا صرف اپنے مادہ منویہ کے بل بوتے پر ماں کے عظیم مرتبہ کی مستحق ہوسکتی ہے؟
خود"والدہ" کا لفظ جو کہ عربی زبان کالفظ ہے اس طرف اشارہ کررہا ہے کہ حقیقتاً ماں وہ ہوتی ہے جو بچے کو جنم دیتی ہے۔اس لیے قرآن کا ارشاد ہے:
﴿ما هُنَّ أُمَّهـٰتِهِم إِن أُمَّهـٰتُهُم إِلَّا الّـٰـٔى وَلَدنَهُم ...﴿٢﴾... سورة المجادلة
’’ان کی بیویاں ان کی مائیں نہیں ہیں،ان کی مائیں تو وہی ہیں جنھوں نے ان کو جنا ہے‘‘
قرآن نے خود واضح کردیا کہ ماں وہی ہے،جو بچے کو جنم دیتی ہے۔محض اپنا مادہ منویہ کسی دوسری عورت کی کوکھ میں رکھ دینے سے عورت ماں نہیں ہوتی۔وہ عورت ماں کے عظیم مرتبے کی حقدار کیسے ہوسکتی ہے جونہ حمل کی تکلیف سہہ سکتی ہے اور نہ جننے کے مراحل سے گزرتی ہے۔
میں اس موقع پر یہ سوال کرنا چاہوں گا کہ اس بات کی کوشش کیوں کی جاتی ہے کہ ایک عورت کا مادہ منویہ دوسری عورت کی کوکھ میں رکھ کر بچے کی پیدائش کے عمل کو کامیاب بنایا جائے۔سائنس دانوں کا جواب یہی ہوگا کہ اس طریقہ سے وہ عورت،جو کوکھ سے محروم ہے ،اولاد کی نعمت حاصل کرسکتی ہے اور اس طرح اس کی محرومی کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ان کے اس جواب پر میں کہوں گا کہ اسلامی شریعت کے دو اُصول ہیں۔پہلا یہ کہ نقص دورکرنے کی کوشش صرف مقدور بھر ہونی چاہیے اور دوسرا یہ کہ کسی شخص کا نقصان دور کرنے کے لیے کسی دوسرے شخص کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے۔
حقیقت یہ ہے کہ نقصان دور کرنے کی کوشش صرف مقدور بھر ہونی چاہیے۔سائنس کتنی بھی ترقی کرجائے انسان کی ساری پریشانیوں کا حل پیش نہیں کرسکتا۔آخر اس عورت کی پریشانی کا کیا حل ہوسکتا ہے جس کے پاس سرے سے مادہ منویہ ہی نہ ہو۔دوسری بات یہ کہ آپ اس پریشانی کا جو حل پیش کررہے ہیں اس سے کسی دوسرے کو پریشانی لاحق ہورہی ہے یعنی خواہ مخواہ وہ عورت مسائل میں گرفتار ہورہی ہے جو اپنی کوکھ میں اس مادہ منویہ کو رکھ کر بچے کوجنم دے گی۔کسی پریشانی کا حل ایسا نہ ہوکہ کسی دوسرے کو اس سے پریشانی ہو۔
آخر میں میں یہ کہنا چاہوں گا کہ آپ نے اس مسئلے کا جو حل پیش کیا ہے کوئی ضروری نہیں کہ یہی سب سے بہتر حل ہو۔اس کا ایک بہترین حل یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوکھ سے محروم عورت کے پیٹ میں کوکھ بنانے کی کوشش کی جائے اور میں بتاؤں کہ اس سمت میں بھی تجربات شروع ہوچکے ہیں۔
آپ نے جو حل پیش کیا ہے اس سے مختلف فتنوں کا دروازہ کھل سکتا ہے۔اگریہ چیزجائز ہوگئی تو صرف کوکھ سےمحروم عورت ہی نہیں بلکہ وہ عورتیں جو مال دار ہیں فیشن پرست ہیں اور بچے کو جن کر اپنے جسم کومتاثر کرنانہیں چاہتیں کرایہ پر ایسی عورتوں کی خدمت حاصل کرلیں گی جو ان کے مادہ منویہ کو اپنی کوکھ میں رکھ کر ان کے بچے کو جنم دیں۔اور اگر ایسا ہوگیا تو ایک عورت سال میں صرف ایک دو نہیں سودوسو بچوں کو بھی پیدا کرواسکتی ہے اور جتنے بچوں کی چاہے ماں بن سکتی ہے۔آپ کے خیال میں کیا یہ صورت حال معاشرے کے لیے قابل ِقبول ہوگی؟
2۔بچے کی پیدائش سے قبل لڑکے یالڑکی کاانتخاب کرنا اسلامی شریعت کے عین منافی ہے۔اس کے دو اسباب ہیں:
1۔رحم مادر میں نشو ونما پانے والے جنین اور اس کے مستقبل کا علم ان پانچ علموں میں سے ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے خاص کررکھا ہے۔درج ذیل آیت میں ان پانچ چیزوں کاتذکرہ ہے:
﴿إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلمُ السّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الغَيثَ وَيَعلَمُ ما فِى الأَرحامِ وَما تَدرى نَفسٌ ماذا تَكسِبُ غَدًا وَما تَدرى نَفسٌ بِأَىِّ أَرضٍ تَموتُ إِنَّ اللَّهَ عَليمٌ خَبيرٌ ﴿٣٤﴾... سورة لقمان
’’بے شک اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے وہی بارش نازل فرماتا ہے اور ماں کے پیٹ میں جو ہے اسے جانتا ہے۔ کوئی (بھی) نہیں جانتا کہ کل کیا (کچھ) کرے گا؟ نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ کس زمین میں مرے گا۔ (یاد رکھو) اللہ تعالیٰ ہی پورے علم والا اور صحیح خبروں والا ہے‘‘
جب جنین کاعلم اللہ کے ساتھ خاص ہے تو کوئی فرد بشر اس بات کا دعویٰ کیسے کرسکتا ہے کہ اسے اس جنین کے جنس(SEX) کاعلم ہے۔اور وہ اس میں اپنی مرضی کےمطابق دخل اندازی کرسکتا ہے؟
2۔دوسری وجہ یہ ہے کہ ایسا کرنا سراسر اللہ کی مشیت میں دخل اندازی ہے۔اللہ اپنی مرضی کے مطابق اور کسی عظیم مصلحت وحکمت کی بنا پر متعین مقدار میں لڑکے اور متعین مقدار میں لڑکیاں پیدا کرتا ہے۔مرد وعورت کی تعداد میں توازن اللہ کی حکمت اور علم کے مطابق ہے۔اس معاملے میں ہم بندوں کی مداخلت مختلف فتنوں کادروازہ کھول سکتی ہے۔ذرا غور کریں کہ اگر اس بات کی اجازت دے دی جائے تو اس دور میں لڑکوں کی پیدائش کی زیادہ خواہش کو مدنظر رکھتے ہوئے ہرکوئی یہ چاہے گا کہ اس کے یہاں لڑکی کے بجائے لڑکے کی ولادت ہو۔چنانچہ چند دہائی گزرنے کے بعد نتیجہ یہ ہوگا کہ روئے زمین پر نوے فیصد مرد ہوں گے اور دس فیصد عورتیں۔ایک کم عقل شخص بھی اس امر کی تباہیوں کو محسوس کرسکتا ہے۔اسی لیے اللہ تعالیٰ کاارشادہے:
﴿لِلَّهِ مُلكُ السَّمـٰوٰتِ وَالأَرضِ يَخلُقُ ما يَشاءُ يَهَبُ لِمَن يَشاءُ إِنـٰثًا وَيَهَبُ لِمَن يَشاءُ الذُّكورَ ﴿٤٩﴾... سورة الشورىٰ
’’اللہ ہی کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے۔جوچاہتا ہے تخلیق کرتا ہے۔جسے چاہتاہے لڑکی دیتا ہے۔اور جسے چاہتا ہے لڑکا عطا کرتا ہے‘‘
دوسری آیت ہے:
﴿وَرَبُّكَ يَخلُقُ ما يَشاءُ وَيَختارُ... ﴿٦٨﴾... سورة القصص
’’اور تیرا رب جوچاہتا ہے تخلیق کرتاہے اور اس تخلیق میں اختیار کرتا ہے(کہ کیا چیز اسے تخلیق کرنی ہے)‘‘
درحقیقت جنین کےSEX کے انتخاب کا حق صرف اللہ کو حاصل ہے۔اور شریعت کی رو سے اللہ کے حق میں بندے کا تصرف کرناکسی طور جائز نہیں ہے۔
البتہ انتہائی مجبوری کی صورت میں اس چیز کو جائز قراردیا جاسکتا ہے۔لیکن بہتر یہی ہوگا کہ اس معاملے کو اللہ ہی پر چھوڑ دیاجائے کہ اللہ کی مرضی ہی میں ہماری مصلحت پوشیدہ ہے۔
3۔رہی بات انجکشن کے ذریعے انسان کے مزاج،دماغ اور اعصاب کو اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کرنے کی تو بلاشبہ یہ بات اسلامی شریعت کے منافی ہے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اسے تمام راستے دکھائے ہیں اور اب انسان کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ کون ساراستہ اختیار کرتا ہے۔انسان کے اختیار کو اور اس کی آزادی کو دواؤں اور انجکشن کے ذریعے سلب کرلینا اللہ کی مرضی اور اس کے تخلیق کے بالکل خلاف ہے۔شراب یانشہ آور چیزوں کا استعمال اس لیے حرام ہے کہ یہ چیزیں انسانی دماغ کی آزادی اور اختیار کرسلب کرکے اسے معطل کردیتی ہیں اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان نشہ آورچیزوں کے زیر اثر انسان اپنی مرضی کے بغیر ایسے کام کرڈالتا ہے،جو اسے نہیں کرنا چاہیے۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی تخلیق اس بنیاد پر کی ہے کہ انہیں آزادی اور اختیار عطا ہو۔اللہ کی اس تخلیق میں بندوں کی دخل اندازی اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی کی کوشش اللہ کو سخت ناپسند ہے۔اللہ فرماتا ہے:
﴿ فِطرَتَ اللَّهِ الَّتى فَطَرَ النّاسَ عَلَيها لا تَبديلَ لِخَلقِ اللَّهِ... ﴿٣٠﴾... سورة الروم
’’یہ اللہ کی فطرت ہے جس پر لوگوں کو پیدا کیا ہے۔اللہ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں ہے‘‘
اس لیے اللہ کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ان مردوں پر لعنت فرمائی ہے جو اپنی خلقت کو تبدیل کرکے عورت بننے کی کوشش کرتے ہیں یا وہ عورتیں جومرد بننے کی کوشش کرتی ہیں۔اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اس شخص پر لعنت فرمائی ہے جو جسمانی طور پر اللہ تعالیٰ کی خلقت میں کسی قسم کی تبدیلی کر بیٹھتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی ایسے ہی انجکشن کے ذریعے اگر کسی شخص کے مزاج میں تبدیلی پیدا کی جائے اور اس کے دماغ کو کسی خاص نہج پر موڑدیاجائے تو کیا وہ شخص اپنے اعمال کا جواب دہ ہوگا یا نہیں؟
بلاشبہ وہ شخص اپنے تمام اعمال کا جواب دہ ہوگا جب تک اس کے ہوش وحواس کام کررہے ہوں اور وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔البتہ اگر یہ صلاحیت مفقود ہوجاتی ہے تو پھر وہ اپنے اعمال کا جواب دہ نہیں ہے الا یہ کہ اس نے اپنی یہ صلاحیت خود اپنی مرضی سے کھوئی ہو۔
میری سمجھ سے اس قسم کے انجکشن خواہ کتنے ہی موثر ہوں لیکن ان کی تاثیر موروثی مزاج وعادات سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔کوئی شخص اپنے باپ دادا سے مزاج ہی میں سختی اور تیزی پاتا ہے اور کوئی انتہائی نرم مزاج پاتا ہے۔لیکن اس کے باوجود یہ نہیں کہاجاسکتا؟چونکہ اس نے یہ مزاج موروثی طور پر حاصل کیا ہے اس لیے وہ اپنے اعمال کا جواب دہ نہیں ہے۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب