سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(122) حضور ﷺ کی چار سے زائد شادیوں کا مسئلہ

  • 23874
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 5318

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے نوشادیاں کیں جب کہ دوسرے تمام مسلمانوں کے لیے چار سے زائد شادیاں ناجائز ہیں۔اس میں کیا حکمت پوشیدہ ہے؟اکثر اعتراض کرنے والے اس قسم کا سوال کرکے ذہنوں میں شک وشبہ پیدا کرتے ہیں اور اسے مذاق کا موضوع بناتے ہیں۔آپ سے تسلی بخش جواب مطلوب ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

زمانہ جاہلیت میں ایک سےزائد شادیوں پر کوئی پابندی نہیں تھی۔زمانہ قدیم میں تقریباً ہر جگہ یہی حال تھا۔ایک شخص جتنی چاہے شادیاں کرسکتا تھا۔

اسلام نے اس روایت کو ختم کیا اور بیک وقت چار سے زائد شادیوں پر پابندی لگادی۔جن صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے پاس چار سے زائد بیویاں تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سےفرمایا:

"أَمْسِكْ مِنْهُنَّ أَرْبَعًا وَفَارِقْ سَائِرَهُنَّ "

"ان میں سے چار کا انتخاب کرلو اور باقی کو طلاق دے دو"

اور اسلام نے ایک سے زائد شادی کی بھی اجازت اس شرط پر دی ہے کہ تمام بیویوں کے درمیان ایک جیسا اور انصاف پر مبنی سلوک کیاجائے۔قرآن کا ارشاد ہے:

﴿ فَإِن خِفتُم أَلّا تَعدِلوا فَو‌ٰحِدَةً ...﴿٣﴾... سورة النساء

"لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ ان کے ساتھ عدل نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو"

پھر بھی اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کو تمام لوگوں کے مقابلے میں ایک خاص مقام عطا کیااور انہیں اس حکم سےمستثنیٰ رکھاکہ اپنی تمام بیویوں میں سے صرف چارکورکھیں اور باقی کو طلاق دے دیں۔البتہ یہ حکم ضروردیا کہ اب مزید کوئی شادی نہیں کرسکتے خواہ کوئی عورت  کتنی ہی پسند کیوں نہ آجائے۔اللہ تعالیٰ کا یہ حکم قرآن کی اس آیت میں موجود ہے:

﴿لا يَحِلُّ لَكَ النِّساءُ مِن بَعدُ وَلا أَن تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِن أَزو‌ٰجٍ وَلَو أَعجَبَكَ حُسنُهُنَّ...﴿٥٢﴾... سورة الاحزاب

"اس کے بعد تمہارے لیے دوسری عورتیں حلال نہیں ہیں اور نہ اس کی اجازت ہے کہ ان کی جگہ دوسری بیویاں لے آؤ خواہ ان کا حُسن تمھیں کتنا ہی پسند ہو"

اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کو اس حکم سے مستثنیٰ رکھا کہ اپنی تمام بیویوں میں چار کو رکھیں اور باقی کو طلاق دے دیں۔اس میں یہ حکمت پوشیدہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی زوجیت میں آکر ان بیویوں کو معاشرہ میں ایک خاص مقام حاصل ہوگیا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی بیوی ہونے کے باعث انہیں تمام مسلمانوں کی ماں بن جانے کا شرف حاصل ہوا۔اللہ فرماتا ہے:

﴿وَأَزو‌ٰجُهُ أُمَّهـٰتُهُم...﴿٦﴾... سورة الاحزاب

"اور نبی کریم( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بیویاں ان کی مائیں ہیں"

مسلمانوں کی ماں بن جانے کے بعد اس رشتہ کے حوالے سے تمام مسلمانوں کے لیے یہ حرام قرارپایا کہ وہ ان سے شادیاں کریں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿ وَما كانَ لَكُم أَن تُؤذوا رَسولَ اللَّهِ وَلا أَن تَنكِحوا أَزو‌ٰجَهُ مِن بَعدِهِ أَبَدًا ...﴿٥٣﴾... سورة الاحزاب

"تمہارے لیے یہ ہرگز جائز نہیں ہے کہ اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو تکلیف دو اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کے بعد ان کی بیویوں سے نکاح کرو"

ذرا غور کریں اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی بیویوں میں سے چار کو چھوڑ کر بقیہ کو طلاق دے دی ہوتی تو ان مطلقہ بیویوں کے لیے تمام عمر کسی اور سے شادی کرنا حرام ہوتا۔وہ مجبوراً انہیں بغیر کسی شوہر کے عمر بھر طلاق شدہ زندگی گزارنی ہوتی۔اس سے بڑھ کر یہ کہ شادی کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے گھر سے جو انہیں انتساب حاصل ہوا تھا۔طلاق کے بعد یہ انتساب ختم ہوجاتا۔اس کامطلب یہ ہواکہ بغیر کسی جرم کے انہیں اتنی بڑی سزا اور محرومی کا شکار ہونا پڑتا۔

پھرذرا یہ غور کریں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کو اس بات کا حکم دیا ہوتا کہ اپنی تمام بیویوں میں سے چار کورکھو اور باقی کو طلاق دو تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے لیے  یہ فیصلہ کرناکس قدر دشوار ہوتا کہ نوبیویوں میں سے کن چار کر رکھیں اور کن پانچ کو طلاق دے دیں۔تمام بیویاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی نظر میں برابر تھیں مسئلہ صرف طلاق دینے کا نہیں تھا کہ اس طلاق کی وجہ سے باقی پانچ بیویاں اس عظیم شرف سے محروم ہوجائیں گی کہ وہ مسلمانوں کی مائیں کہلائیں اور یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے اہل خانہ کی طرف انتساب کا شرف حاصل ہو۔

اس لیے حکمت اور مصلحت کاتقاضا یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی ساری بیویاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی زوجیت میں باقی رہیں۔البتہ اس کے بعد مزید کسی اور شادی سے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو منع کردیا جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے۔

ایک بات اور واضح کرتا چلوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے جو نوشادیاں کیں ان میں سے ایک شادی بھی ایسی نہ تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے کسی کو خوبصورتی پر فدا ہوکریا کسی جنسی جذبہ کے تحت شادی کی ہو۔جیسا کہ مستشرقین حضرات حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

ذرا سوچئے تو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی پہلی شادی 25 سال کی عمر میں کی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  بالکل نوجوان تھے اور شادی ایک ایسی خاتون یعنی حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے کی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے 15 سال عمر میں بڑی تھیں۔صرف بڑی ہی نہیں تھیں بلکہ بیوہ بھی تھیں۔وہ دو دفع شادی کرچکی تھیں اور ان شوہروں سے بچے بھی تھے۔اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے شادی کی اور ان کے ساتھ نہایت شاندار زندگی گزاری۔حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کے انتقال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ہمیشہ ان کا تذکرہ خیر کرتے اور اپنی محبت کا اظہار کرتے۔

خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بقیہ تمام بیویوں سے شادی کی۔53 سال کی عمر میں سو وہ بت زمعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے شادی کی تاکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی بچیوں کی دیکھ بھال کرسکیں اور امور خانہ داری سنبھال سکیں۔اس کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے اپنے تعلق کو مزید مستحکم کرنے کے لیے ان سے رشتہ داری قائم کی اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   بنت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے شادی کی۔اس تعلق کی مضبوطی کی خاطر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے اپنی بیٹیوں کی شادی کی۔ذرا سوچئے تو کہ کیا یہ محض اتفاق تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے بعد یکے  بعد دیگرے یہ چاروں اشخاص خلافت کے منصب پر فائز ہوئے۔

حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   بھی بیوہ تھیں اور اتنی بھی خوبصورت نہ تھیں کہ انہیں قبول صورت کہا جائے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے شادی کی توحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کی عمر اتنی کم تھی کہ ان کے ساتھ کسی جنسی تعلق کی استواری کے بارے میں مشکل ہی سے سوچا جاسکتا تھا۔

اس طرح حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی شادی جن حالات میں ہوئی وہ سب کو معلوم ہے۔ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   جب بیوہ ہوگئیں اور نہایت خوش اسلوبی سے اپنی بیوگی پر صبر کیا تب اللہ تعالیٰ نے انہیں اس صبر کابہترین انعام اس صورت میں عطا کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی ان سے شادی کرادی۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے جویریہ بنت الحارث رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے اس لیے شادی کی تاکہ رشتہ قائم ہونے کے بعد ان کی قوم اسلام قبول کرلے۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ابوسفیان  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی بیٹی ام حبیبیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے شادی کی کیونکہ حبشہ کی طرف ہجرت کے بعد ان کے شوہر مرتد ہوگئے تھے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس تکلیف دہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے ان سے شادی کرلی۔اس شادی کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ ابوسفیان کی اسلام دشمنی کچھ کم ہو۔

اس تفصیل کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے جس سے بھی شادی کی اس شادی کے پیچھے ایک عظیم مقصد تھا۔یہ شادی کسی کی خوبصورتی ،مال ودولت یا جنسی جذبہ کے تحت نہیں تھی۔اور یہ ساری شادیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس قانون کے آنے سے قبل کیں کہ بیک وقت چار سے زائد شادیاں جائز نہیں ہے۔اس قانون کے آنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک شادی بھی نہیں کی۔البتہ جو عورتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی زوجیت میں تھیں وہ سب کی سب اس زوجیت پر برقراررہیں اور اس کی حکمت میں پہلے ہی بیان کرچکا ہوں۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے جو متعدد شادیاں کیں تو اس کا ایک مقصد یہ تھا جیسا کہ میں پہلے بیان کرچکا ہوں کہ ان شادیوں سے اسلام کی نشرواشاعت میں مدد لی جاسکے۔اس کا ایک بڑا مقصد یہ بھی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی بیویاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی حیات طیبہ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بتائیں۔بلاشبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی زندگی تمام مسلمانوں کے لیےمشعلِ راہ ہے۔ اور زیادہ سے زیادہ قابل ِ تقلید ہے۔اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بیویاں اپنے شوہروں کے جس قدر قریب ہوتی ہیں کوئی اور نہیں ہوتا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے زیادہ سے زیادہ عورتوں سے شادی کرکے ان کے سامنے اپنی عملی زندگی کے نمونے پیش کیے تاکہ وہ لوگوں کو بتائیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم  فرماتے تھے:

"وَحَدِّثُوا عَنِّي"

"میرے بارے میں لوگوں کو بتاؤ"

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے پوری طرح کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی زندگی کے بارے میں لوگوں کو بتایا حتیٰ کہ ان پہلوؤں کوبھی راز میں نہیں رکھا جن کا تعلق شوہر بیوی کے خصوصی معاملات سے ہوتا ہے۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

عورت اور خاندانی مسائل،جلد:1،صفحہ:290

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ