السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں ایک امیر شخص کی بیوی ہوں۔میرے شوہر کا بینک بیلنس بھی کافی مضبوط ہے۔لیکن بدقسمتی سے وہ انتہائی بخیل ہے۔میرے اوپر میرے بچوں کے نان نفقہ میں انتہائی بخل سے کام لیتا ہے۔خرچ کے لیے بہت تھوڑی رقم دیتا ہے جو کہ ایک دولت مند شخص کی بیوی کے لیے ہرگز کافی نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہم سے کم تردولت والوں کی حالت بھی ہم سے بہت اچھی ہے۔ایسی حالت میں کیا میرے لیے جائز ہوگا کہ میں اپنی ضرورتوں کے لیے اپنے شوہر کے پیسے بغیر انہیں بتائے لے لیا کروں اور اپنی ضرورتوں پر انہیں خرچ کروں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نہایت افسوس کی بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایک طرف کچھ شوہر تو ایسے ہیں جو اپنی بیوی پر انتہائی فیاضی کامظاہرہ کرتے ہیں ان کی ہرجائز وناجائز خواہشات پوری کرتے ہیں اور ان پر اپنا سب کچھ لٹادیتے ہیں اور دوسری طرف کچھ ایسے شوہر بھی ہیں،جو انتہائی بخیل ہیں اپنی بیوی اور مال بچوں کے نان نفقے میں حد درجہ کنجوسی سے کام لیتے ہیں۔
یہ دونوں صورتیں غلط ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہر بات میں میانہ روی اور اعتدال کا حکم دیا ہے ۔پیسہ خرچ کرنے کے معاملہ میں بھی اللہ نے اسی اعتدال کا حکم دیا ہے۔وہ فرماتا ہے:
﴿وَلا تَجعَل يَدَكَ مَغلولَةً إِلىٰ عُنُقِكَ وَلا تَبسُطها كُلَّ البَسطِ فَتَقعُدَ مَلومًا مَحسورًا ﴿٢٩﴾... سورة الإسراء
"نہ تو اپناہاتھ گردن سے باندھ رکھ اور نہ اسے بالکل ہی کھلا چھوڑدو(یعنی نہ فضول خرچی کرو اور نہ کنجوسی کرو) کہ ملامت زدہ اور عاجز بن کر رہ جاؤ"
اور اپنے نیک بندوں کی تعریف کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَالَّذينَ إِذا أَنفَقوا لَم يُسرِفوا وَلَم يَقتُروا وَكانَ بَينَ ذٰلِكَ قَوامًا ﴿٦٧﴾... سورة الفرقان
"جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل،بلکہ ان کاخرچ دونوں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے"
بیوی اور بال بچوں کے نان نفقے میں میانہ روی کی کیا صورت ہوگی،شریعت نے اس کی کوئی حد تو مقرر نہیں کی ہے البتہ قرآن وحدیث کی رو سے میانہ روی یہ ہے کہ ان کی ضرورتوں کو معروف طریقہ سے پورا کیاجائے۔معروف طریقے سے ضرورتوں کو پورا کرنے کامطلب یہ ہے کہ بیوی کی جائز ضروریات اور مناسب خواہشوں کو مد نظررکھا جائے۔بیوی نے جن حالات میں نشوونماپائی ہے ان کا خیال کیا جائے۔شوہر خود کس قدر صاحب حیثیت ہے اس کونظر میں رکھا جائے شوہر اگر مال دار ہے تو اسے اپنی اچھی پوزیشن کے مطابق اپنے اہل خانہ پر خرچ کرنا چاہیے اوراگر تنگ دست ہے تو اپنی بساط بھر اپنے گھروالوں پر خرچ کرے۔قرآن نے اس طرف اشارہ کیا ہے:
﴿لِيُنفِق ذو سَعَةٍ مِن سَعَتِهِ وَمَن قُدِرَ عَلَيهِ رِزقُهُ فَليُنفِق مِمّا ءاتىٰهُ اللَّهُ...﴿٧﴾... سورة الطلاق
"خوش حال آدمی اپنی خوش حالی کے مطابق نفقہ دے اور جس کو رزق کم دیا گیاہو وہ اسی مال میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے"
دوسری آیت ہے:
﴿وَمَتِّعوهُنَّ عَلَى الموسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى المُقتِرِ قَدَرُهُ مَتـٰعًا بِالمَعروفِ ...﴿٢٣٦﴾... سورة البقرة
"اس صورت میں انہیں کچھ نہ کچھ دینا چاہیے خوش حال آدمی اپنی مقدرت کے مطابق اور غریب آدمی اپنی مقدرت کے مطابق معروف طریقہ سے دے"
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الاحیاء میں لکھا ہے کہ شوہر اپنی بیوی پر نہ کنجوسی کرے اور نہ فضول خرچی کرے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:
﴿كُلوا وَاشرَبوا وَلا تُسرِفوا ...﴿٣١﴾... سورةالاعراف
"یعنی کھاؤ پیو لیکن فضول خرچی نہ کرو"
اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:
"خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ" (ترمذی)
"یعنی تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھروالوں کے لیے بہتر ہے"
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک پیسہ وہ جو اللہ کی راہ میں خرچ کیاجاتا ہے اور ایک وہ ہے جو غلام آزاد کرنے کے لیے خرچ کیاجاتا ہے۔ایک وہ ہے جو غریبوں پر خرچ کیاجاتا ہے اور ایک وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے نان نفقے پر خرچ کیا جاتا ہے۔ان میں سب سے زیادہ باعث اجر وثواب وہ پیسہ ہے جو اپنے گھر والوں کے نان نفقے پر خرچ کیا جاتا ہے۔
ابوسفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی ہند کو بھی یہ شکایت تھی کہ ان کے شوہر ان کے نان نفقے میں بخل سے کام لیتے ہیں۔ہند نے اپنا معاملہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"خُذِي مَا يَكْفِيكِ وَوَلَدَكِ بِالْمَعْرُوفِ"(بخاری اور مسلم)
"تم اتنا لے لیا کرو جو تمہارے اور تمہارے بچوں کے لیے معروف طریقے سے کافی ہو"
اس حدیث کی رو سے آپ بھی اپنے شوہر کے مال میں سے اس کی اجازت کے بغیر اتنا کچھ لے سکتی ہیں جو معروف طریقے سے آپ کی اور آپ کے بال بچوں کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کافی ہو اور کافی سے زیادہ لیناکسی طرح درست نہیں ہے۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب