السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرے والد محترم نے میری شادی ایک ایسے مال دار شخص سے کردی جو شراب پینے کا عادی ہے۔اب میرے اس سے بچے بھی ہیں۔میں جب بھی اسے نصیحت کرتی ہوں اور اُسے دین کی طرف راغب کرنا چاہتی ہوں وہ میرا مذاق اُڑاتا ہے اور کبھی گالم گلوچ پر اُتر آتا ہے۔بعض اوقات اسی نشے کی حالت میں طلاق دےڈالتا ہے حالانکہ مجھے یقین ہے کہ طلاق دینا اس کا مقصد ہرگز نہیں ہوتا۔بعض لوگ مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ طلاق تو ہوگئی اگرچہ اس نے نشے کی حالت میں دی ہے اور طلاق دینا اس کا مقصد نہیں تھا۔کیوں کہ نشے کااستعمال اس نے اپنی مرضی سے کیا اور اپنی مرضی سے ہی ہوش وحواس کھوئے اس لیے اس کی سزا یہ ہے کہ طلاق واقع ہوجائے۔ لوگ مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ مجھے اس سے علیحدگی اختیار کرلینی چاہیے کیونکہ میں مطلقہ ہوں۔علیحدگی اختیار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ میرا ساراگھر اور میری ازدواجی زندگی تباہ وبرباد ہوکررہ جائے گی ۔ایسے میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
طلاق کے سلسلے میں شروع سے ہی علماء کے دو گروہ پائے جاتے ہیں۔
1۔پہلا گروہ وہ ہے جن کا فتویٰ طلاق سے متعلق بڑا سخت ہے۔اس میں وہ لوگ ہیں جن کے نزدیک پاگل کی دی ہوئی طلاق بھی واقع ہوجاتی ہے۔زبردستی دی ہوئی طلاق بھی واقع ہوجاتی ہے۔بھول چوک سے طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔خواہ کتنے بھی غصے کی حالت میں طلاق دی گئی ہو طلاق واقع ہوجاتی ہے۔طلاق کااستعمال نہ بھی کیا ہو اور کسی دوسرے لفظ کے ذریعہ سے طلاق دی،جب بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔اس گروہ کے نزدی نشے کی حالت میں دی ہوئی طلاق بھی واقع ہوجاتی ہے۔امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ۔امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ۔اورامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ۔کا یہی قول ہے۔ان کی دلیل درج ذیل ہے۔
الف:نشے کی حالت میں بھی وہ شخص مکلف ہے۔کیونکہ نشے کی حالت میں اگر وہ کسی گناہ یاجرم کاارتکاب کرتا ہے،تو وہ گناہ گار اورمجرم کہلاتاہے اور اس جرم کی اسے سزا ملتی ہے۔نشے میں ہونا اس کے لیے معافی کاسبب نہیں بن سکتا۔اسی طرح نشے میں ہونا اس کے لیے عدم طلاق کا سبب نہیں ہوسکتا۔
ب:اس نے اپنے ارادے اور اختیار سے نشے کا استعمال کیا ہے اس لیے بطور سزا طلاق واقع ہوگئی۔
2۔دوسرا گروہ وہ ہے جس کے نزدیک طلاق اس وقت واقع ہوتی ہے،جب کامل ہوش وحواس کے ساتھ اور سوچ سمجھ کرطلاق دی گئی ہو۔چنانچہ ان کے نزدیک نشے کی حالت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔یہ رائے جمہور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین مثلاً عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ کی ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بھی یہی رائے ہے۔انہوں نے بخاری شریف میں اس سلسلے میں علیحدہ باب باندھا ہے اور احادیث سے ثابت کیا ہے کہ نشے کی حالت میں یا زبردستی دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ذیل میں چند دلیلیں پیش کرتا ہوں۔
الف:حدیث ہے:
"إِنَّمَا الأعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ "
’’یعنی عمل کا دارومدار نیت پر ہوتا ہے‘‘
ظاہر ہے کہ شرابی جب نشے کی حالت میں طلاق دیتا ہے تو طلاق دینا اس کی نیت نہیں ہوتی ہے۔
ب:حضرت ماعز اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جب زنا کاارتکاب ہوا اور پھر اس کااقرار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو حکم دیا کہ ان کا منہ سونگھ کرپتا کریں کہ کہیں وہ نشے کی حالت میں تواقرار نہیں کررہے ہیں۔اس کامطلب یہ ہواکہ نشے کی حالت میں کیا ہوااقرار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک معتبر نہیں ہے۔
ج:اس بات پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ نشے کی حالت نماز نہیں ہوتی کیونکہ اس سلسلے میں اللہ کا صریح حکم موجود ہے۔جس طرح مدہوشی کی وجہ سے یہ نماز نہیں ہوتی۔اسی طرح وہ تصرفات بھی واقع نہیں ہوتے جن میں براہِ راست عقل کا استعمال ہو مثلاً نشے کی حالت میں کی گئی خریدوفروخت کاکوئی اعتبار نہیں ہے۔
د:ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔اورعمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ سےمروی ہے کہ انہوں نے پاگل اور شرابی کی طلاق کو کالعدم قراردیا۔
ان سب دلائل کی روشنی میں یہی بات صحیح تر معلوم ہوتی ہے کہ نشے کی حالت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔اس لیے میں اپنی دینی بہن سے کہنا چاہوں گاکہ وہ مطمئن رہیں کیونکہ ان کے شوہر کے منہ سے نکلاہوا لفظ طلاق دراصل نشے کی حالت میں اور طلاق کے ارادے کے بغیر ہوتاہے اس لیے یہ طلاق سرے سے واقع نہیں ہوتی ہے۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب