السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں ایک شادی شدہ مرد ہوں۔میری ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہے ۔بیوی کے ساتھ بعض اختلافات کی وجہ سے میں نے اسے طلاق دے دی۔طلاق کے ایک ہفتہ کے بعد پتا چلا کہ میری بیوی حمل سے ہے۔کیا یہ طلاق جائز اورصحیح ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اسلامی شریعت کی نظر میں طلاق ایک تکلیف دہ آپریشن کی مانند ہے ۔یہ تکلیف دہ آپریشن باذاتِ خود کسی تکلیف اور بیماری کو دور کرنے کے لیے اس وقت کیا جاتا ہے جب آپریشن کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہ ہو۔طلاق بھی ایک تکلیف دہ عمل ہے،جس کااستعمال صرف انتہائی مجبوری کے موقع پر کسی تکلیف دہ حالت کودورکرنے کے لیے ہوناچاہیے۔اس لیے حدیث ہے:
"أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى الطَّلَاقُ " (ابوداؤد)
’’اللہ کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ حلال شے طلاق ہے‘‘
اس لیے اسلامی شریعت نے طلاق کے لیے شرطیں رکھی ہیں تاکہ ایسا نہ ہوکہ چھوٹے چھوٹے اسباب کی بنا پر ازدواجی زندگی تباہ ہونے لگے۔ان شرطوں میں سے ایک شرط وقت کی شرط ہے۔شوہر کو چاہیے کہ طلاق کے لیے کسی مناسب وقت کا انتخاب کرے۔چنانچہ طلاق حیض کی حالت میں نہیں دینی چاہیے بلکہ پاکی کی حالت میں دینی چاہیے اور اُس پاکی میں جس میں ابھی اس نے بیوی کے ساتھ مباشرت نہ کی ہو۔ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ درج ذیل آیت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس سے مقصود ایسی پاکی،جس میں مباشرت نہ ہوئی ہو۔آیت۔
﴿يـٰأَيُّهَا النَّبِىُّ إِذا طَلَّقتُمُ النِّساءَ فَطَلِّقوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ...﴿١﴾... سورة الطلاق
’’جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت کے لیے طلاق دیا کرو‘‘
اس میں مصلحت یہ ہے کہ حیض کی حالت نارمل حالت نہیں ہوتی ہے۔ایسی حالت میں شوہر کے لیے مناسب نہیں کہ بیوی کو خود سے جدا کرے اور ایسی پاکی کی حالت میں جس میں اس نے بیوی کے ساتھ مباشرت کی ہو اس میں بھی بیوی کو خود سے جدا کرنا مناسب نہیں ہے کیونکہ عین ممکن ہے کہ اس مباشرت کی وجہ سے بیوی حاملہ ہوجائے اور عین ممکن ہے کہ اس حمل کی وجہ سے شوہر طلاق کے ارادے کو تبدیل کردے۔
لیکن بالفرض اگر کسی نے حیض کی حالت میں یا ایسی پاکی کی حالت میں جس میں اس نے بیوی کے ساتھ مباشرت کی ہو،اس نے طلاق دے دی،تو کیا طلاق واقع ہوگی؟اس سلسلے میں علماء کا اختلاف ہے۔جمہور فقہاء کے نزدیک یہ طلاق واقع ہوجائے گی۔اگرچہ شوہر نے ایسے وقت میں طلاق دے کر ایک گناہ کیا۔کیونکہ ایسے وقت میں طلاق دینا جائز نہیں۔امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہ طلاق تو ہوجائے گی لیکن عدت کے بعد دوبارہ اس بیوی کو اپنی زوجیت میں واپس لینا پڑے گا۔ان کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی بیوی کوحیض کی حالت میں طلاق دے دی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیاکہ وہ اپنی بیوی کو دوبارہ اپنی زوجیت میں واپس لے لیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بیوی کو دوبارہ زوجیت میں واپس لینا واجب ہے۔بعض فقہاء کہتے ہیں کہ چونکہ حیض کی حالت میں طلاق دینا جائز نہیں اس لیے اس حالت میں دی گئی طلاق سرے سے واقع ہی نہیں ہوتی۔
بیوی اگر حاملہ ہو اور طلاق دیتے وقت معلوم ہوکہ وہ حاملہ ہے تو ایسی حالت میں طلاق دینا جائز ہے اور ایسی طلاق واقع ہوجائے گی۔اس کی دلیل ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ حدیث ہے:
"لْيُطَلِّقْهَا طَاهِرًا أَوْ حَامِلًا " (بخاری ،مسلم)
’’اسے طلاق دے پاکی کی حالت میں یاحمل کی حالت میں‘‘
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب