سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(116) کسی کمیونسٹ کا اپنے والدین کی وراثت میں حقدار ہونا

  • 23868
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 964

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اولاد اللہ تعالیٰ کی نعمت ہوتی ہے۔لیکن جب یہی اولاد سرکش،نافرمان اور بے دین ہوجائے تو والدین کے لیے عذاب بھی بن جاتی ہے۔میں بھی ان بدنصیب والدین میں سے ہوں،میں نے ا پنے بڑے لڑکے کو تعلیم کی خاطر ملک سے باہر بھیجا۔اس نے وہاں جاکر تعلیم حاصل کی اور ساتھ ہی ساتھ اس نے وہاں کے مذہب یعنی کیمونزم کو اختیار کرلیا۔اب وہ کسی مذہب کو نہیں مانتا۔خدا کو نہیں مانتا۔اسلام کی تعلیمات کا مذاق اُڑاتا ہے۔میں یا میرے دوسرے بچے جب اس سے بحث کرتے ہیں اور اسے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ دین اسلام کی شان میں گستاخیاں کرتا ہے۔اس لیے اب ہم نے اس سے کچھ کہنا چھوڑدیا ہے۔میں،میرے آباءواجداد دین دار تھے اور میں خود بھی بحمداللہ دین دار ہوں لیکن میرا یہ بیٹا بد دین ہوکر میرے لیے ناسور بن گیا ہے ۔میرا سوال یہ ہے کہ کیا وہ میری جائیداد میں وارث ہوگا۔اس کی لامذہبیت اور سرکشی کے ہم والدین کس حدتک ذمہ دار ہیں؟کیا اللہ کے حضور اس بارے میں ہم جواب دہ ہوں گے؟اور ہمیں اس کی سزا ملے گی؟مجھے تسلی بخش جواب مطلوب ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ کے سوال سے مشابہ ہی اس عورت کا سوال تھا جس نے کسی کیمونسٹ مرد سے شادی کے جواز کی بابت سوال کیاتھا۔اسے میں نے یہ جواب دیا تھا کہ کسی مسلمان عورت کی شادی کسی کمیونسٹ مرد سے کسی حال میں جائز نہیں ہے۔کیونکہ محض اسلامی نام رکھ لینے سے کوئی شخص مسلمان نہیں ہوتا۔جب تک وہ دین  اسلام پر یقین کامل نہ رکھتا ہو اسے مسلمانوں میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔کمیونزم وہ تصور ہے جو کسی مذہب کو نہیں مانتا۔کسی خدا کو تسلیم نہیں کرتا اور مذہب کی باتوں کوخرافات تصور کرتا ہے۔کمیونزم تو شرک سے بھی بدتر گناہ ہے۔کیونکہ مشرک شخص کم از کم خدا پر ایمان رکھتا ہے۔بعض مشرکین آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں اور مذہب کی بہت ساری باتوں کو تسلیم کرتے ہیں۔لیکن کمیونزم نہ خدا کو تسلیم کرتا ہے اور نہ کسی مذہب بات کو۔

ان اسباب کی بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ جو اولاد کمیونزم پر مصر ہو اور اس سے توبہ کرنے پر آمادہ نہ ہوتو ایسی اولاد اپنے مسلم والدین کی  جائیداد کی وارث نہیں ہوسکتی۔کیوں کہ وارث کی اولین شرط ہے وحدتِ دین۔جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:

"لاَ يَرِثُ الْمُسْلِمُ الْكَافِرَ وَلاَ الْكَافِرُ الْمُسْلِمَ" (صحاح سته)

’’نہ مسلمان کسی کافر کا وارث ہوسکتا ہے اور نہ کوئی کافر کسی مسلمان کا وارث ہوسکتا ہے‘‘

بلکہ ایسی اولاد جو دین اسلام کوتسلیم نہیں کرتی ہے وہ مسلم گھرانے کافردشمار نہیں ہوسکتی۔یہی وجہ ہےکہ جب نوح  علیہ السلام  نے اپنے کافربیٹے کی خاطر دعا کرتے ہوئے کہا تھا:

"رَبِّ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي"

’’خدایا! میرا بیٹا میرے اہل میں سے ہے‘‘

اس پر تعالیٰ نے ان کی سرزنش کی اور فرمایا:

﴿قالَ يـٰنوحُ إِنَّهُ لَيسَ مِن أَهلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيرُ صـٰلِحٍ ...﴿٤٦﴾... سورة هود

’’اے نوح(علیہ السلام)وہ تیرے گھرانے والوں میں سے نہیں ہے وہ تو ایک بگڑا ہواکام ہے‘‘

اس آیت سے ثابت ہوا کہ کفر کی وجہ سے باپ،اور بیٹے کے درمیان رشتہ ختم ہوجاتا ہے۔اسی طرح فقہاء کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ مرتد شخص بھی اپنے مسلم رشتہ داروں کی جائیداد کاوارث نہیں ہوسکتا۔

البتہ مسلم شخص اپنے کافر رشتہ داروں کا وارث ہوسکتا ہے یانہیں؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے۔بعض فقہاء کے نزدیک مسلم شخص کافر رشتہ داروں کا وارث ہوسکتا ہے کیوں کہ حدیث ہے:

" الإِسْلامُ يَعْلُو وَلا يُعْلَى " (ابوداؤد،حاکم)

’’اسلام غالب ہونے کے لیے ہے مغلوب ہونے کے لیے نہیں‘‘

دلیل کے طور پر انہوں نے اس واقعے کو بھی نقل کیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے مسودا العجلی کو جب اس کے مرتد ہونے پر قتل کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کی جائیداد اس کے مسلمان وارثوں میں تقسیم کی بعض فقہاء کے نزدیک صرف مرتد شخص کا وارث ہواجاسکتا ہے۔انہوں نے دلیل کے طور پر اس واقعے کو نقل کیا ہے۔

بہرحال اس بات پر تمام فقہاء کااتفاق ہے کہ کافر اور مرتد شخص اپنے مسلمان رشتے داروں کا وارث نہیں ہوسکتا۔

رہی یہ بات  کہ والدین اپنے بچے کی لادینیت کے کس حد تک ذمہ دار ہیں اور عنداللہ اس کے جواب دہ ہیں یا نہیں۔اس کاجواب مختصراً حاضر ہے۔

والدین نے اگراپنی اولاد کی تعلیم وتربیت کی طرف بچپن ہی سے کوئی دھیان نہ دیا ہویا اس میں کوتاہی برتی ہو۔انہیں اسلامی ماحول فراہم نہ کیاہو۔انہیں اچھی اچھی باتیں نہ سکھائی ہوں اور سختی کے وقت ان پر سختی نہ کی ہو تو بلاشبہ ایسےوالدین اولاد کے بگڑنے کے ذمے دار ہیں اگراولاد بگڑ جاتی ہے۔والدین کی ذمے داری محض کھانا کپڑا فراہم کرنا نہیں ہے۔حدیث ہے:

"كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْؤول عَنْ رَعِيَّتِهِ، الإِمَامُ رَاعٍ وَمَسْؤولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ"(بخاری اور مسلم)

’’تم میں سے ہر شخص ذمے دارہے اور اپنی رعیت کے سلسلہ میں جواب دہ ہے۔مرد اپنے  گھر والوں کا ذمہ دار ہے اور وہ اپنے  گھر والوں کے سلسلہ میں جواب دہ ہے‘‘

اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا قوا أَنفُسَكُم وَأَهليكُم نارًا...﴿٦﴾... سورة التحريم

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو آگ سے۔ ‘‘

اس کے برعکس اگر والدین نے اپنے بچے کی تعلیم وتربیت کی طرف پوری توجہ دی ہو اور اس کی مناسب اور اسلامی ماحول بھی فراہم کیا ہو اور اس کے باجود بچہ بگڑف جائے تو والدین اس کے بگڑنے کے ذمے دار نہیں ہیں۔وہ اللہ کے نزدیک اس بارے میں جواب وہ نہیں ہیں۔آپ نے دیکھا نہیں کہ نوح علیہ السلام  نے اپنے کی تربیت پور پوری توجہ صرف کی اور پھر بھی وہ کافر رہا۔ابراہیم علیہ السلام  نے اپنے باپ کو ہرممکن طریقے سے اسلام کی طرف راغب کیا،لیکن وہ کافر ہی مرا۔لوط علیہ السلام  نے اپنی بیوی کو لاکھ سمجھایا لیکن اس نے کفر کا راستہ ترک نہیں کیا۔حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی بھی شخص کو اس کی استطاعت سے زیادہ مکلف نہیں کرتا۔انسان کی ذمے داری راہ صداقت کی طرف بلانا ہے،ہدایت دینا نہیں۔ہدایت دینا تو صرف اللہ تعالیٰ کے بس میں ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿إِنَّكَ لا تَهدى مَن أَحبَبتَ وَلـٰكِنَّ اللَّهَ يَهدى مَن يَشاءُ...﴿٥٦﴾... سورةالقصص

’’اے نبی کریم! تم جسے چاہو ہدایت نہیں دے سکتے۔مگر اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے‘‘

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

عورت اور خاندانی مسائل،جلد:1،صفحہ:274

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ