سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(113) ازدواجی زندگی میں جائز جھوٹ

  • 23865
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 2074

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے جس شخص سے شادی کی ہے وہ بڑا شکی ہے۔اکثر مجھ سے سوال کرتا رہتا ہے کہ کیا میں اس کے سوا کسی اور سے محبت کرتی ہوں اور ہمیشہ میں اس سے یہی کہتی ہوں کہ مجھے اس کے علاوہ کسی اور سے محبت نہیں ہے اور کسی شخص سے میرے کوئی مراسم نہیں ہیں۔وہ مجھ سے اس بات پر قسم کھانے کو کہتا ہے اور میں قسم کھالیتی ہوں۔اس سے بھی بڑھ کر وہ مجھ سے یہ پوچھتا ہے کہ کیا شادی سے قبل میں کسی اور سے محبت کرتی تھی؟اور اس بات پر وہ اللہ تعالیٰ کی قسم کھانے کو کہتا ہے ۔میں اس سے کہتی ہوں کہ ان سب کی کیا ضرورت ہے؟ کیا تمہارے لیے میرے پیار میں کوئی کمی ہے؟ کیاہماری زندگی ہنسی خوشی نہیں گزر رہی ہے؟ لیکن وہ مصر ہے کہ میں اس بات پر اللہ کا نام لے کر قسم کھاؤں کہ شادی سے قبل میں کسی اور  سے محبت نہیں کرتی تھی۔میں آپ سے کچھ نہیں چھپاؤں گی۔یہ سچ ہے کہ شادی سے قبل ایک دور کے ر شتے دار نوجوان سے محبت ہوگئی تھی لیکن یہ ایسی محبت نہیں تھی کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے لیے پاگل ہوں۔قسمت میں اس کے ساتھ شادی نہیں لکھی تھی،چنانچہ شادی کے بعد میں اس نوجوان کو بھول گئی۔اب اس سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔کیا اگر میں شوہر کو خوش کرنے کے لیے اور اپنے بسے بسائے  گھر کوتباہی سے بچانے کےلیے میں اللہ کی جھوٹی قسم کھالیتی ہوں تو اللہ کو ناراض کروں گی؟اگر قسم نہیں کھاتی ہوں تو اس کا شک بڑھتا جائے گا اور یقین میں تبدیل ہوجائے گا اور یوں میری ازدواجی زندگی تباہ ہوجائے گی میں حیران ہوں کہ کیا کروں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بلاشبہ جھوٹ بولنا اسلام کی نظر میں حرام ہے اور گناہ کبیرہ ہے۔کیوں کہ جھوٹ کے نقصانات لا محدود ہیں اور اس کا بُرا اثر فرد،جماعت اور سوسائٹی سب پر پڑتا ہے۔لیکن اسلام ایک ایسا دین ہے جو انسان کی فطری ضرورتوں اور پریشانیوں سے صرف نظر نہیں کرتا۔اگر اسلام نے سور کے گوشت کو حرام کیا ہے تو بوقت ضرورت اسے حلال بھی کیا ہے۔

اسی طرح جھوٹ بولنا جو کہ ایک حرام کام ہے بعض اضطراری صورتوں میں اسلامی شریعت نے اسے جائز کیا ہے۔درج ذیل حدیث میں ان اضطراری صورتوں کا تذکرہ ہے۔ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا   فرماتی ہیں:

"عن أُمَّ كُلْثُومٍ بِنْتِ عُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ رضي الله عنها ، أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ : ( لَيْسَ الْكَذَّابُ الَّذِي يُصْلِحُ بَيْنَ النَّاسِ وَيَقُولُ خَيْرًا وَيَنْمِي خَيْرًا ) . قَالَ ابْنُ شِهَابٍ : وَلَمْ أَسْمَعْ يُرَخَّصُ فِي شَيْءٍ مِمَّا يَقُولُ النَّاسُ كَذِبٌ إِلَّا فِي ثَلَاثٍ : الْحَرْبُ ، وَالْإِصْلَاحُ بَيْنَ النَّاسِ ، وَحَدِيثُ الرَّجُلِ امْرَأَتَهُ وَحَدِيثُ الْمَرْأَةِ زَوْجَهَا " (مسلم)

’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو کبھی نہیں سنا کہ انہوں نے کچھ بھی جھوٹ بولنے کی چھوٹ دی ہو سوائے تین حالتوں میں۔کوئی شخص جھوٹ بولے اور اس کے ذریعے سے لوگوں کے درمیان صلح صفائی کرنا چاہتا ہو،یا کوئی شخص جنگ کے موقع پر جھوٹ بولے یا شوہر اپنی بیوی سے اور بیوی اپنے شوہر سے جھوٹ بولے۔‘‘

دو آدمیوں کے درمیان صلح کراتے وقت اگر آپ دونوں کی دشمنی بھری باتیں ایک دوسرے کو بتائیں گے تو ظاہر ہے کہ دشمنی اور بڑھے گی۔حکمت کاتقاضا یہ ہے کہ آپ تھوڑا بہت جھوٹ کاسہارا لے کر ان دونوں کے درمیان صلح صفائی کی کوشش کریں۔اسی طرح اگر آپ سچ بولنے کے جنون میں حالت جنگ میں دشمنوں کو اپنے ملک کے بارے میں صحیح صحیح معلومات فراہم کرتے ہیں تو یہ بات آپ کے ملک کے لیے نہایت خطرناک ثابت ہوگی۔حکمت ومصلحت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ دشمنوں کو صحیح معلومات فراہم نہ کریں۔

اسی طرح شوہر اپنی بیوی سے یا بیوی اپنے شوہر سے انتہائی شدید ضرورت کے وقت جھوٹ بول سکتی ہے۔شدید ضرورت یہ ہے کہ سچ بولنے سے گھر کی تباہی یقینی ہویا دونوں کے تعلقات انتہائی خراب ہونے کا امکان ہو۔حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ اپنے شوہر کواپنے ماضی کی داستان ہرگز نہ بتائیں۔کیوں کہ جیسا کہ آپ نے بتایا کہ وہ شکی ہے اور آپ کی زبان سے حقیقت سن کر وہ کچھ بھی کرسکتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ آپ کے شوہر کا قسم کھانے پر اصرار کرنا ہی سرے سے غلط ہے۔اس کی دو وجوہ ہیں:

1۔وہ خواہ مخواہ ایسے ماضی کو کر یدنے کی کوشش کررہا ہے،جس سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ایسا کرکے اسے کیا ملے گا؟اکثر ایسا ہوتا ہے کہ نوجوانی کی عمر میں لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے سے محبت کرنے لگتے ہیں۔لیکن جب کسی اور سے شادی ہوجاتی ہے تو ایک دوسرے کو بھول جاتے ہیں۔اب اس کا کیا فائدہ ہے کہ بھولی بسری باتوں کو پھر سے تازہ کیا جائے۔شادی کے بعد اگر بیوی اپنے شوہر سے خالص محبت کرتی ہے۔اس کی خدمت کرتی ہے اور اس کے سارے حقوق ادا کرتی ہے تو شوہر کے لیے یہ کافی ہے۔اسے کیا ضرورت ہے کہ ماضی کی باتوں کو کریدکر اپنی بنی بنائی زندگی کوتباہ کرلے۔

2۔اللہ کی قسم کھلانے سےشوہر کو کیافائدہ ہوگا؟بیوی اگر دین دار نہیں ہے،اللہ سے نہیں ڈرتی ہے تو اس کے لیے اللہ کی جھوٹی قسم کھانا کیا مشکل ہے۔اس کا قسم کھانا اور نہ کھانا دونوں برابر ہے۔لیکن اگر بیوی دین دار ہے اور خدا سے ڈرتی ہے تو شوہر کے لیے یہ بہت کافی ہے کہ اس کی بیوی ایک صالح خاتون ہے۔اسے سوچنا چاہیے کہ اس کے باربار اصرار کرنے پر اس کی بیوی اللہ کی جھوٹی بھی کھاسکتی ہے اور ایسی حالت میں گناہ بیوی کو نہیں ہوگا بلکہ اس گناہ کا ذمے دار وہ خود ہوگا۔

میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جو صورت حال آپ کودرپیش ہے،ایسی صورت میں آپ کی جھوٹی قسم کھاسکتی ہیں،تاکہ آپ کے شوہر کا شک رفع ہو اور آپ کی ازدواجی زندگی تباہ ہونے سے بچ جائے۔بعد میں آپ خدا سے اس بات کے لیے توبہ واستغفار کرسکتی ہیں۔

اسی طرح کاواقعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی خلافت میں پیش آیا تھا۔ابن ابی عذرۃ الدولی اکثر اپنی بیویوں کو طلاق دے دیاکرتاتھا۔اس کی وجہ سے لوگ اسے ناپسند کرنے لگے تھے۔جب اسے اس بات کا پتہ چلا  تو اپنی بیوی کے پاس آیا اور اس سے مطالبہ کیا کہ اللہ کی قسم کھا کر بتائے کہ وہ اس سے محبت کرتی ہے یانفرت بیوی نے شروع میں قسم کھانے سے اعراض کیا لیکن شوہر کے اصرار پر قسم کھائی اور بتایا کہ وہ اس سے نفرت کرتی ہے۔اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے بیوی کی سرزنش کی اور کہا کہ تمہیں ایسے موقع پر جھوٹ بولنا چاہیے تھا۔یہ سچ تمہارا گھر تباہ کرسکتا ہے۔

بلاشبہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  محض ایک خلیفہ ہی نہیں تھے بلکہ وہ مسلمانوں کے زبردست مربی"معلم او فقیہ تھے۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

عورت اور خاندانی مسائل،جلد:1،صفحہ:264

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ