السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے آپ کو بار بار کہتے ہوئے سناہے کہ دینی امور سے متعلق سوال کرنے میں کسی قسم کی شرم اورجھجک نہیں ہونی چاہیے۔آج میں آپ کے سامنے ایسا سوال لے کر حاضر ہوں جس کاتعلق ہماری ازدواجی زندگی اور ہمارے درمیان جنسی تعلقات سے ہے۔اکثر ایساہوتا ہے کہ مجھے جنسی تلذذ کی شدید خواہش ہوتی ہے۔میں اپنی بیوی کو اس غرض سے بلاتا ہوں لیکن وہ کسی وجہ سے انکار کردیتی ہے اور اس کام کے لیے راضی نہیں ہوتی ہے۔میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیااسلامی شریعت میں شوہر اور بیوی کےجنسی تعلقات کے بھی کچھ حدود ہیں کہ ان کا لحاظ کرنا ضروری ہے یا یہ معاملہ میاں بیوی کی مرضی پر منحصرہے کہ وہ جیسا چاہیں کریں۔تسلی بخش جواب مطلوب ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس میں کوئی شک نہیں کہ دینی امور سے متعلق سوال کرنے میں کسی قسم کی شرم نہیں ہونی چاہیے۔ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انصار کی بعض عورتوں کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ شرم اور جھنک نے انہیں اس بات سے نہیں روکا کہ وہ دینی معاملات میں تفقہ حاصل کریں۔ان میں سے کوئی حیض اور نفاس کے بارے میں سوال کرتی تھی تو کوئی منی،جنابت اور غسل کے بارے میں۔
جنس یاسیکس اور زوجین کے مابین جنسی تعلق کا مسئلہ ایک اہم موضوع ہے۔انسان کی عملی زندگی میں جس کا بڑا عمل دخل ہے۔اس معاملے سے عدم واقفیت یا غفلت انسان کو بسا اوقات غلط راستے پر ڈال سکتی ہے۔اسلام بے شبہ ایک مکمل ضابطءحیات ہے اس نے اس موضوع کی مکمل وضاحت کی ہے۔تہذیب واخلاق کا لحاظ رکھتے ہوئے ہر اس جنسی موضوع کی تشریح کی ہے جس کی ہمیں ضرورت ہوتی ہے۔
بعض لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ جنس یا سیکس جیسے اہم موضوع سے متعلق اسلام کی کوئی واضح رہ نمائی نہیں ہے۔بعض دوسرے حضرات یہ تصور کرتے ہیں کہ جنس محض ایک فحش موضوع ہے اس لیے اسلام جیسے پاکیزہ مذہب کو اس گندے موضوع پر کلام نہیں کرنا چاہیے۔یہ دونوں تصورات اور حقیقت سے دور ہیں۔
جنس بے شبہ ایک اہم اور حساس موضوع ہے۔اسلامی شریعت نے اس کی طرف سے ہرگز غفلت نہیں برتی ہے۔خود دور حاضر میں جنس کے ماہرین نے اس کی جانب کافی توجہ دی ہے اور اس سلسلے میں ان کے کچھ ارشادات اور کچھ نصیحتیں ہوتی ہیں،جن پر عمل کرنے کا وہ مشورہ دیتے ہیں۔اسلام نے بھی،ہمیں اس معاملے میں کچھ نصیحتیں کی ہیں،کچھ کرنے کو کہا ہے اور کچھ کرنے سے منع کیاہے۔آئیے دیکھتے ہیں جنس سے متعلق اسلام کی کیا رہ نمائیاں ہیں:
1۔اسلام انسانی فطرت میں جنسی شہوت کے وجود کا مکمل اعتراف کرتا ہے۔اس لیے اسلام نے قانون کے دائرے میں اس جنسی شہوت کی تسکین کامکمل بندوبست کیا ہے۔اور ان لوگوں کی سخت سرزنش کی ہے، جو خصی کراکے اس شہوت کو جڑ سے ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا جو شادی اور عورت سےعلیحدہ تجرد کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔
حدیث ہے:
"أنا أعلَمُكم بالله وأخشاكم له، لَكِنِّي أُصَلِّي وَأَنَامُ وَأَصُومُ وَأُفْطِرُ وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي "
’’میں تم سے زیادہ اللہ کوجانتا ہوں اور اس سے ڈرتا ہوں لیکن میں نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں روزہ بھی رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا اور عورتوں سے شادی بھی کرتا ہوں جس نے میری سنت سے منہ،موڑاوہ مجھ سے نہیں ہے‘‘
اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد احادیث میں اپنی امت کو شادی کی ترغیب دی ہے۔اور فرماتے تھے کہ اس دنیا میں سے دو چیزیں مجھے نہایت محبوب ہیں۔عورت اور خوش بو۔
2۔شادی کے بعد اسلام نے شوہر اور بیوی دونوں کو اس بات کا حق دیا ہے کہ وہ اپنی جنسی خواہشوں اور شہوتوں کی تسکین کا انتظام اپنی مرضی کے مطابق کرسکتے ہیں۔اس سے بھی بڑھ کر اسلام نے اس جنسی تسکین کو عبادت اور عمل خیر سے تعبیر کیا ہے۔مسلم شریف کی حدیث ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! شوہر اپنی بیوی کے ساتھ جماع کرتا ہے کیا اس پر اسے اجر ملے گا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیوں نہیں،ذرا سوچو کہ اگر اس نے اپنی بیوی کے علاوہ کسی دوسری عورت کے ساتھ یہی کام کیا ہوتا تو کیا اسے گناہ نہ ہوتا؟چونکہ حلال طریقے سے اس نے اپنی بیوی کے ساتھ یہ کام کیا ہے تو اسے اس کا اجر بھی ملنا چاہیے۔
تاہم اسلام نے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ شوہر چونکہ فطری طور پر اور سماجی عادات واطوار کے لحاظ سے زیادی جری اورBold ہوتا ہے اس لیے وہی اپنی بیوی کو اس جنسی تسکین کی طرف دعوت دیتا ہے۔بیوی اپنی شرم وحیا کی وجہ سے اس بات کی طرف دعوت نہیں دیتی۔اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ عورتوں کے مقابلے میں مردوں کے اندر جنسی شہوت کہیں زیادہ ہوتی ہے اور اس معاملے میں صبر کرنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے جب کہ عورتوں میں صبر کرنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے اور جنسی شہوت مردوں کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔لوگوں کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ عورتوں کے اندر مردوں سے زیادہ جنسی شہوت ہوتی ہے۔
اسی لیے اسلامی شریعت نے بیوی پر یہ واجب کیا ہے کہ شوہر جب اسے اس کام کی طرف دعوت دے تو وہ انکار نہ کرے۔حدیث ہے:
"إِذَا الرَّجُلُ دَعَا زَوْجَتَهُ لِحَاجَتِهِ فَلْتَأْتِهِ وَإِنْ كَانَتْ عَلَى التَّنُّورِ"(ترمذی)
’’جب کوئی شخص اپنی بیوی کو اپنی اس ضرورت کے لیے بلائے تو بیوی کو اس کے پاس جانا چاہیے چاہے وہ چولہے پر کھانا پکارہی ہو‘‘
اور انکار کرنے کی صورت میں فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے:
"إِذَا دَعَا الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ إِلَى فِرَاشِهِ فَأَبَتْ فَبَاتَ غَضْبَانَ عَلَيْهَا لَعَنَتْهَا الْمَلَائِكَةُ حَتَّى تُصْبِحَ" (بخاری ومسلم)
’’جب کوئی شخص اپنی بیوی کو بستر کی طرف بلائے اور بیوی آنے سے انکار کردے اور شوہر اس سے ناراض ہوکر رات گزارے تو صبح تک فرشتے اس بیوی پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں‘‘
الا یہ کہ اس انکار کی واقعی کوئی معقول وجہ ہو۔مثلاً بیماری ہو یا بہت زیادہ تھکاوٹ ہویاکوئی شرعی رکاوٹ ہووغیرہ۔
اس جنسی شہوت کی خاطر اسلام نے بیوی پر یہ فرض کیا ہے کہ وہ نفلی روزہ اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر نہ رکھے۔حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
"لاَ يَحلُّ لامْرَأَةٍ أَنْ تَصُومَ وَزَوْجُهَا شَاهِدٌ إِلا بِإِذْنِهِ" (بخاری ومسلم)
’’عورت کوئی نفلی روزہ نہ رکھے جب کہ اس کا شوہر موجود ہو مگر اس کی اجازت سے۔‘‘
3۔اسلام نے ایک طرف شوہروں کی شہوانی قوت کا خیال کیا ہے اور اس کی تسکین کے وسائل مہیا کیے ہیں تو دوسری طرف عورتوں کی شہوانی قوت کو بھی نظر انداز نہیں کیا ہے اور اس کی تسکین کا سامان کیا ہے۔اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جو کہ عام طور پر دن میں روزہ رکھتے تھے اور راتیں تہجد نوافل میں گزاردیتے تھے،فرمایا:
"إِنَّ لرَبِّكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقّاً"
’’تم پرتمہارے بدن کا بھی حق ہے اور تم پر تمہارے گھر والوں کابھی حق ہے‘‘
اسی لیے علماء کرام نے شوہروں کو ہدایت کی ہے کہ بیویوں کی جنسی تسکین کاپورا خیال رکھیں۔انہیں صرف اپنی جنسی تسکین سے غرض نہ ہو بلکہ اپنی بیوی کی خواہشوں کو بھی مد نظر رکھیں۔امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ شوہر کو چاہیے کہ ہر چوتھی رات اپنی بیوی سے مباشرت کرے۔بیوی کا خیال کرتے ہوئے وہ اس مدت میں کمی بیشی بھی کرسکتا ہے۔
حدیث میں ہے کہ جماع سے قبل بیوی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور بوسے بازی ہونی چاہیے تاکہ عورت کی جنسی شہوت خوب جاگے اور تب جاکر اس کی تسکین ہو۔ایسا نہ ہو کہ ایک دم سے عورت پر ٹوٹ پڑے اور جانوروں کی طرح اپنی خواہش پوری کرکے چلتابنے۔
حدیث ہے:
"لا يَقَعَنَّ أحدُكم على امرأتِه كما تَقَعُ البَهيمةُ وليكنْ بينهما رسولٌ ) قيل : وما الرسولُ ؟ قال : ( القُبْلةُ والكَلامُ)"(مسند الفردوس)
’’تم میں سے کوئی اپنی بیوی پر اس طرح نہ گرپڑے جس طرح جانور گرتے ہیں۔پہلے دونوں کے درمیان پیغام رسانی ہونی چاہیے۔پوچھا گیا کہ پیغام رسانی کا کیا مطلب یا رسول اللہ؟( صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بوسے بازی اور محبت بھری بات چیت‘‘
اسی حدیث میں آگے مرد کی تین کمزوریوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک کمزوری یہ بتائی کہ مرد اپنی بیوی کے پاس جائے اور بات چیت اورالفت ومحبت کے اظہار سے قبل اپنی بیوی سے جما ع کرے۔اپنی ضرورت پوری کرلے اور بیوی کو یونہی چھوڑ کر چلتا بنے۔
قرآن نے بھی دو مقامات پر زوجین کے مابین جنسی تعلقات کا تذکرہ نہایت ہی لطیف اور بلیغ انداز میں کیا ہے۔پہلا تذکرہ سورہ بقرہ میں ہے:
﴿أُحِلَّ لَكُم لَيلَةَ الصِّيامِ الرَّفَثُ إِلىٰ نِسائِكُم هُنَّ لِباسٌ لَكُم وَأَنتُم لِباسٌ لَهُنَّ...﴿١٨٧﴾... سورة البقرة
’’تمہارے لیے روزوں کے زمانے میں راتوں کو اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کردیا گیا ہے۔وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو‘‘
اس آیت میں میاں بیوی کو ایک دوسرے کے لیے لباس قراردیا گیا ہے۔کتنی شان دار اور کیسی مبنی برحقیقت تعبیر ہے یہ۔حقیقت یہ ہے کہ شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے لیے لباس کی مانند ہیں کہ لباس ستر پوشی کا کام بھی دیتا ہے۔سردی گرمی سے بچاتا ہے۔بدن سے چپکا بھی ہوتا ہے اور باعث زینت وزیبائش بھی ہوتا ہے۔
دوسرا تذکرہ سورہ بقرہ میں ہے:
﴿نِساؤُكُم حَرثٌ لَكُم فَأتوا حَرثَكُم أَنّىٰ شِئتُم ...﴿٢٢٣﴾... سورةالبقرة
"تمہاری عورتیں تمہارے لیے کھیتیاں ہیں ۔تمھیں اختیار ہے،جس طرح چاہو اپنی کھیتی میں جاؤ۔‘‘
اس آیت میں بیویوں کو کھیتی سے تعبیر کیا گیا ہے اور شوہروں کو اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ اپنی کھیتی میں اپنی مرضی سے بیج بوسکتے ہیں۔
ذرا غور کریں کہ قرآن نے کس قدر بلیغ انداز میں اور نہایت اختصار کے ساتھ زوجین کے مابین جنسی تعلقات کے مسئلہ کو لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے۔کیا ان آیات کو پڑھنے کے بعد بھی کوئی عقل مند کہہ سکتا ہے کہ جنس یا سیکس سے متعلق اسلام کوئی واضح ہدایت نہیں دیتا؟
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب