السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میری شادی ایک ایسے شخص کے ساتھ ہوئی ہے جو مجھ سےبیس سال بڑا ہے۔لیکن عمر کا یہ فرق میرے لیے کبھی بھی مسئلہ نہیں رہا۔میں اس فرق کو ذرا بھی اہمیت نہیں دیتی اگر اس کامعاملہ میرے ساتھ بہتر ہوتا۔اس نے میرے نان نفقہ میں کبھی کمی نہیں کی بلکہ میرے اوپر خوب پیسے خرچ کرتا ہے اور کبھی میرے ساتھ جھگڑتا نہیں۔لیکن ان کے علاوہ اور چیزیں بھی تو ہیں جن کی مجھے ضرورت ہے ۔دو میٹھے بول کے لیے میرے کان ترس گئے۔شوہر اور بیوی کے درمیان جو جذباتی لگاؤ اور محبت ہوتی ہے وہ جذباتیت اسکے اندر مفقود ہے۔اس کامعاملہ میرے ساتھ نہایت سرد اور ہر طرح کی گرم جوشی سے خالی ہے۔وہ مجھے صرف کھاناپکانے یا بچہ پیدا کرنے کی مشین سمجھتا ہے۔میں نے ایک دفعہ اس سے اس بات کی شکایت کی تو اس نے جواب دیا کہ کیا میں نے تمہارے نان نفقہ میں کبھی کوئی کمی کی؟
میں پوچھتی ہوں کہ کیا اسلامی شریعت کی رو سے میرا حق صرف نان نفقہ تک محدود ہے؟ کیا میرا حق نہیں کہ وہ میرے ساتھ محبت اور گرم جوشی کا مظاہرہ کرے۔مجھ سے میٹھی گفتگو کرے؟اور میری نفسیاتی ضرورتوں کو پورا کرے؟مجھے یقین ہے کہ یہ میرا حق ہے؟کیامیرا یقین صحیح ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ کا خیال سو فی صد درست ہے۔کیوں کہ اسلامی شریعت نے شوہروں پر جہاں یہ واجب کیا ہے کہ بیویوں کی مادی ضروریات معروف طریقے سے پوری کریں وہیں نفسیاتی ضرورتوں کو بھی پورا کرنے کی تاکید کی ہے۔بلکہ قرآن کریم نے تو اس نفسیاتی سکون اور محبت والفت کوعورتوں کی تخلیق کا مقصد بتایا ہے۔قرآن کاارشاد ہے:
﴿وَمِن ءايـٰتِهِ أَن خَلَقَ لَكُم مِن أَنفُسِكُم أَزوٰجًا لِتَسكُنوا إِلَيها وَجَعَلَ بَينَكُم مَوَدَّةً وَرَحمَةً ...﴿٢١﴾... سورة الروم
’’اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تم میں سے ہی تمہارے لیے بیویاں پیداکیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور تمہاے درمیان محبت ورحمت کے بیج بوئے‘‘
اس آیت کے مطابق شادی شدہ زندگی کے اغراض ومقاصد میں یہ بھی شامل ہے کہ دونوں کے درمیان محبت والفت اور نفسیاتی سکون کی فضا قائم ہو۔اگر شادی شدہ زندگی میں یہ نفسیاتی اور جذباتی عنصر مفقود ہوتو یہ وہ شادی نہیں جس کی طرف قرآن نے دعوت دی ہے:
﴿وَعاشِروهُنَّ بِالمَعروفِ...﴿١٩﴾... سورة النساء
’’اور ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی گزارو‘‘
اس آیت کی رو سے وہ شوہر حضرات زبردست غلطی پر ہیں جویہ سمجھتے ہیں کہ بیوی کو نان نفقہ دے کر اس کے کھانے کپڑے کا انتظام کرکے حق زوجیت سے آزاد ہو گئے ۔وہ یہ بھول رہے ہیں کہ بیوی کو کھانے،کپڑے کےعلاوہ بھی کچھ چاہیے۔اس کے لیے جتنا کھانا،کپڑا ضروری ہے اتنا ہی محبت،مسکراہٹ،چھیڑ چھاڑ اور جنسی تعلقات اس کے لیے ضروری ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ اس نفسیاتی اور جذباتی پہلو کا خاص خیال رکھتے تھے۔ذیل میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ سے چند نمونے پیش کرتا ہوں۔
روایتوں میں ہے کہ بسا اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض بیویاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تلخ کلامی کرتی تھیں۔ایسے موقعے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ضبط سے کام لیتے تھے اور اس تلخ کلامی کاجواب محبت سے دیاکرتے تھے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ مذاق بھی فرماتے تھے۔ان کے ساتھ ان کی عقل کے لحاظ سے برتاؤ کرتے تھے۔ان کے ساتھ تفریح بھی کرتے تھے۔روایتوں میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ دوڑ بھی لگائی ہے۔خودحضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ:
"إن الله يبغض الجعظري الجواظ"
’’اللہ ان سے نفرت کرتا ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے نہایت سخت اور اپنے آپ میں متکبر ہوں(شیخی،بگھارتے ہوں)‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال ہمارے لیے سب سے بہترین مثال ہیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام تر پیغمبرانہ اور سیاسی ذمہ داریوں کےباوجود اپنی بیویوں کے حقوق ادا کرنے میں کبھی کوتاہی نہیں کرتے تھے۔انہوں نے ہمیشہ اپنی بیویوں کی جذباتی اور نفسیاتی ضرورتوں کا خیال رکھا۔امام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ اس سلسلے میں لکھتے ہیں:
’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیبیوں کے ساتھ سلوک حسن معاشرت اور حسن خلق پر مبنی ہوتا تھا۔انصار کی لڑکیاں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس کھیلنے کےلیے آیا کرتی تھیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی انہیں ان کے ساتھ کھیلنےسے منع نہیں فرمایا بہ شرطے کہ اس میں کوئی قابل گرفت بات نہ ہو۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا برتن میں جس جگہ پیتیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنا ہونٹ وہاں رکھتے اور پانی پیتے۔عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی گود میں سررکھ کر قرآن پڑھتے۔ان کی گود میں سررکھ کرآرام کرتے۔جب کچھ حبشی مسجد نبوی کے سامنے اپنے کرتب دکھا رہے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو کھیل دکھایا۔وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں کا سہارا لیے ہوئے تھیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے:
"خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ ، وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي"(زاد المعارج 1ص 78۔79)
’’تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنےگھر والوں کے لیے بہتر ہوں‘‘
عصر کی نماز کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام بیویوں کے پاس تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے جاتے اور رات میں اس بیوی کے پاس قیام کرتے جس کی باری ہوتی تھی۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی اس میں غفلت نہیں برتی۔
البتہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کاکچھ خاص خیال رکھتے تھے اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام بیویوں میں وہ سب سے کم سن اور شادی کے وقت کنواری تھیں۔ظاہر ہے کہ بیوہ مطلقہ عورت کے مقابلے میں انہیں زیادہ التفات کی ضرورت تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ کس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی کی مادی ضروریات کے ساتھ ساتھ نفسیاتی اور جذباتی ضروریات کا خیال رکھتے تھے۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلتے تھے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی تمام ترسخت مزاجی کے باوجود فرماتے تھے کہ شوہر کو اپنی بیوی کے ساتھ بچوں کی طرح سلوک کرنا چاہیے۔ان کےساتھ کھیل کود کرنا چاہیے اور ان کے ساتھ محبت کرنی چاہیے۔
ہمارے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی مثال سے بڑھ کرکون سی مثال ہوسکتی ہے؟
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب