سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(110) غیر مسلم لڑکیوں سے شادی کرنا

  • 23862
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1251

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک اہم مسئلہ ہمارے معاشرے کو درپیش ہے۔یہ مسئلہ غیر مسلم عورتوں خصوصاً اہل کتاب کی عورتوں سے شادی کرنے کا ہے۔اسلام کی نظر میں اہل کتاب کی عورتوں سے شادی کرنا جائز ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح کی شادیاں مسلم معاشرے کے لیے نقصان دہ ہیں۔کیوں کہ اہل کتاب عورتیں اپنے بچوں کی تربیت اسلامی انداز پر نہ کرتے ہوئے بالکل مغربی انداز پر کرتی ہیں۔سمجھ میں نہیں آتا کہ اسلام نے ایک ایسی چیز کوکیسے حلال کیا ہے جو بہرصورت مسلم معاشرے کے لیے نقصان دہ ہے؟امید ہے کہ تسلی بخش جواب دیں  گے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مجھے یورپ اور امریکا جانے کا اکثر اتفاق ہوتا رہتا ہے۔وہاں بہت سارے مسلم بھائیوں سے میری ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں۔ان میں سے چند بغرض ملازمت وہاں مقیم ہیں،چند تعلیم کی خاطر اورچند نے شہریت لے کر وہاں مستقل سکونت اختیار کرلی ہے۔وہاں پر مسلم لڑکوں کامسیحی یا یہودی(اہل کتاب) لڑکیوں سے شادی کرنے کی طرف بھی کافی میلان ہے۔اس لیے بہت سارے لوگوں نے مجھ سے اس قسم کی شادی کے بارے میں دریافت کیا ہے کہ شرع کی نظر میں اس کا کیا حکم ہے؟

اس سلسلے میں اسلامی شریعت کا حکم بیان کرنے کے لیے ضروری ہوگا کہ میں غیر مسلم عورتوں کی ہر قسم کاحکم علیحدہ علیحدہ بیان کروں۔کیونکہ غیر مسلم عورت بہت پرست بھی ہوسکتی ہے،مشرک وملد بھی ہوسکتی ہے۔مرتد بھی ہوسکتی ہے اورکتابیہ بھی۔

اسلامی شریعت کے مطابق ہر اس عورت سے شادی حرام ہے جو شرک اور کفر کی مرتکب ہو۔اللہ کا ارشاد ہے:

﴿وَلا تَنكِحُوا المُشرِكـٰتِ حَتّىٰ يُؤمِنَّ وَلَأَمَةٌ مُؤمِنَةٌ خَيرٌ مِن مُشرِكَةٍ وَلَو أَعجَبَتكُم...﴿٢٢١﴾... سورة البقرة

’’تم مشرک عورتوں سے ہرگز نکاح نہ کرنا جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں۔ایک مؤمن لونڈی مشرک شریف زادی سے بہتر ہے۔خواہ وہ(مشرکہ) تمہیں بہت ہی پسند ہو‘‘

دوسری آیت ہے:

﴿ وَلا تُمسِكوا بِعِصَمِ الكَوافِرِ ...﴿١٠﴾... سورة الممتحنة

’’اور تم خود بھی کافر عورتوں کواپنے نکاح میں نہ روکے رہو‘‘

ان آیات کی رو سے ہروہ عورت جو بت پرستی،کفر یا شرک میں مبتلا ہو اس سے شادی کرنا حرام ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ توحید اور شرک دو الگ الگ راہیں ہیں۔شادی دوذہنوں اور دو دلوں کاملاپ ہے۔لیکن جب دونوں الگ اور مختلف عقائد کے حامل ہوں تو ان کے ذہنی ملاپ کی کوئی صورت نہیں۔اس کی طرف اللہ اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:

﴿أُولـٰئِكَ يَدعونَ إِلَى النّارِ وَاللَّهُ يَدعوا إِلَى الجَنَّةِ وَالمَغفِرَةِ بِإِذنِهِ ... ﴿٢٢١﴾... سورة البقرة

’’یہ لوگ تمہیں آگ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ اپنے اذن سے تم کو جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے۔‘‘

کافر ومشرک عورتوں کے ضمن میں وہ عورتیں بھی آئیں گی جو ملحد ہیں یعنی سرے سے جن کا کوئی دین ہی نہ ہو۔مثلاً کمیونسٹ عورتیں۔الحاد شرک سے بھی بدترین گناہ ہے کیوں کہ مشرک خدا کومانتا ہے اگرچہ اس کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتا ہے جب کہ ملحد سرے سے کسی خدا کو نہیں مانتا۔‘‘

اسی طرح ان عورتوں سے بھی شادی حرام ہے،جو مرتد ہیں۔یعنی پہلے وہ مسلمان تھیں لیکن اب وہ اسلام سے نکل کر شرک یا مسیحت یایہودیت کی طرف چلی گئیں۔اسلام کسی کو زبردستی اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کرتا ،لیکن جب کوئی شخص اپنی رضا اور خوشی سے اسلام قبول کرتا ہے تو پھر اس کے لیے اسلام سے خارج ہونا کسی طور پر جائز نہیں ہے۔اسی لیے مرتد کی سزا قتل ہے۔

اسی طرح بہائی عورتوں سے شادی کرنا جائز نہیں کیوں کہ ان کاشمار تو مشرک عورتوں میں ہوگا یامرتد عورتوں میں۔

اب رہا مسئلہ ان عورتوں کاجو اہل کتاب کہلاتی ہیں یعنی ایک ایسے دین کی حامل ہیں جو آسمانی ہے یعنی مسیحت یا یہودیت۔

جمہور علماء وفقہاء کے نزدیک اہل کتاب عورتوں سے شادی کرنا مباح ہے۔ان کی دلیل یہ ہے کہ اللہ نے قرآن میں ان کے ذبیحے اور ان کی عورتوں سے شادی کو جائز قراردیا ہے۔

﴿اليَومَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبـٰتُ وَطَعامُ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ حِلٌّ لَكُم وَطَعامُكُم حِلٌّ لَهُم وَالمُحصَنـٰتُ مِنَ المُؤمِنـٰتِ وَالمُحصَنـٰتُ مِنَ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ مِن قَبلِكُم إِذا ءاتَيتُموهُنَّ أُجورَهُنَّ مُحصِنينَ غَيرَ مُسـٰفِحينَ وَلا مُتَّخِذى أَخدانٍ وَمَن يَكفُر بِالإيمـٰنِ فَقَد حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِى الءاخِرَةِ مِنَ الخـٰسِرينَ ﴿٥﴾... سورة المائدة

’’کل پاکیزه چیزیں آج تمہارے لئے حلال کی گئیں اور اہل کتاب کا ذبیحہ تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا ذبیحہ ان کے لئے حلال ہے، اور پاک دامن مسلمان عورتیں اور جو لوگ تم سے پہلے کتاب دیئے گئے ہیں ان کی پاک دامن عورتیں بھی حلال ہیں جب کہ تم ان کے مہر ادا کرو، اس طرح کہ تم ان سے باقاعده نکاح کرو یہ نہیں کہ علانیہ زنا کرو یا پوشیده بدکاری کرو، منکرین ایمان کے اعمال ضائع اور اکارت ہیں اور آخرت میں وه ہارنے والوں میں سے ہیں‘‘

عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے نزدیک اہل کتاب عورتوں سے شادی جائز نہیں ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جب ان سے مسیحی یا یہودی لڑکی سے شادی کے متعلق سوال کیا جاتا تو وہ فرماتے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنین کے لیے مشرک عورتوں سے شادی کو حرام قراردیا ہے اور اس سے بڑھ کر شرک اور کیا ہوسکتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام  کو خدا تسلیم کیا جائے۔حالانکہ وہ اللہ کے بندے ہیں۔

بعض شیعہ حضرات بھی ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی طرح اہل کتاب عورتوں سے شادی کو ناجائز قراردیتے ہیں۔ان کی دلیل بھی وہی ہے جو ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی ہے۔

لیکن میری نظر میں راجح رائے وہی ہے جو جمہور علماء کی ہے۔کیونکہ سورہ مائدہ کی متذکرہ آیت اس امر میں بالکل واضح ہے کہ کتابیات سے شادی جائز ہے۔رہی سورہ بقرہ کی آیت تو وہ ایک عام حکم ہے کہ تمام مشرک عورتوں سے شادی جائز نہیں۔اس عام حکم سے ہٹ کر کتابیات کے لیے ایک خاص حکم ہے۔جس کا تذکرہ سورہ مائدہ کی آیت میں ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ قرآن میں اہل کتاب کے لیے مشرک کا لفظ کہیں بھی استعمال نہیں ہواہے۔جہاں بھی مشرک کا لفظ ہے،اس سے مراد عرب کے وہ مشرکین ہیں جو دیوی دیوتاؤں کی پوجا کرتے تھے۔اسی لیے متعدد آیات میں اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے ساتھ مشرکین کا الگ سے تذکرہ کیا ہے۔یا پھرمشرکین کے بعد اہل کتاب کا الگ سے تذکرہ کیا ہے:

مثلاً:۔

﴿إِنَّ الَّذينَ كَفَروا مِن أَهلِ الكِتـٰبِ وَالمُشرِكينَ فى نارِ جَهَنَّمَ ... ﴿٦﴾... سورةالبينة

’’بلا شبہ وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اہل کتاب میں سے ہیں اور مشرکین جہنم کی آگ میں ہوں گے۔‘‘

دوسری آیت ہے:

﴿إِنَّ الَّذينَ ءامَنوا وَالَّذينَ هادوا وَالصّـٰبِـٔينَ وَالنَّصـٰرىٰ وَالمَجوسَ وَالَّذينَ أَشرَكوا إِنَّ اللَّهَ يَفصِلُ بَينَهُم يَومَ القِيـٰمَةِ ... ﴿١٧﴾... سورة الحج

’’جو لوگ ایمان لائے اور جو یہودی ہوئے اور صائبی اور نصاری اور مجوس اور جن لوگوں نے شرک کیا ان سب کے درمیان قیامت کے روز اللہ فیصلہ کرے گا‘‘

اس لیے راجح قول یہی ہے کہ کتابیات سے شادی جائز ہے۔لیکن یہ جواز بھی چند شرطوں کے ساتھ ہے۔ذیل میں ان  شرطوں کا تذکرہ کرتا ہوں:

1۔پہلی شرط یہ ہے کہ وہ عورت کسی ایک آسمانی دین پر یقین کامل رکھتی ہو اور فی الجملہ وہ عورت اللہ،رسالت اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو۔

آج کل مغربی معاشرہ کچھ ایسا ہے کہ مسیحی گھر میں نشو ونما پانے والی ہر لڑکی کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ مسیحی ہوگی۔وہ مسیحی بھی ہوسکتی ہے اور کمیونسٹ بھی اور ملحد بھی۔

2۔دوسری شرط یہ ہے کہ پاک دامن اور شریف عورت ہو۔اس شرط کا تذکرہ خود اس سورہ مائدہ والی آیت میں بھی ہے اس لیے کہ اللہ نے"محصنات" کے ساتھ شادی کو جائز قراردیا ہے اور محصنات کامطلب ہے پاک دامن اور شریف عورتیں۔

آج کل مغربی معاشرے میں عورتوں نے جو وضع قطع اختیار کررکھی ہے یا اجنبی مردوں کے ساتھ ان کا جس قدر آزادانہ میل ملاپ ہے وہ سب پر عیاں ہے۔اس کی پاک دامنی کی گواہی مشکل ہی سے دی جاسکتی ہے۔درحقیقت ہم جس پاک دامنی اور شرافت کی بات کرتے ہیں اور اہمیت دیتے ہیں مغربی عورت کے نزدیک اس کی سرے سے کوئی قدروقیمت ہی نہیں ہے۔

امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ  سے کسی نے دریافت کیا کہ کس کتابیہ سے شادی کی جاسکتی ہے؟انہوں نے جواب دیا کہ کیاکتابیہ سے شادی کرناضروری ہے؟کیا مسلمان عورتوں کی کمی ہے؟تاہم اگر ان سے شادی کرنا ضروری ہو تو ایسی لڑکی ہوجو پاک دامن ہو اور"مسافحتہ"نہ ہو۔پوچھا گیا کہ مسافحہ کون ہوتی ہے؟انہوں نے جواب دیا کہ مسافحہ وہ عورت ہے جو کسی اجنبی شخص کے ایک اشارہ پر اس کے پیچھے کھینچی چلی آتی ہے۔

3۔تیسری شرط یہ ہے کہ کتابیات نہ خوداسلام اور مسلمانوں کی دشمن ہوں اور نہ کسی ایسی تنظیم یا جماعت سے وابستہ ہوں جو اسلام اور مسلم دشمن ہو۔کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے متعدد آیات میں مسلمانوں کو ان لوگوں کے موالات سے منع فرمایا ہے جو اسلام ومسلم دشمن ہوں۔اس سے بڑھ کر موالات اور کیا ہوسکتی ہے کہ ان کے ساتھ رشتے داری قائم کی جائے۔مسلم دشمن جماعت یامعاشرہ کی کسی عورت کو مسلم خاندان کا ایک فرد بنایا جائے۔اس صورت میں اس بات کا زبردست امکان ہے کہ شادی کی آڑ لے کر مسلم دشمن عورتیں مسلم معاشرے میں جاسوسی کرتی پھریں اور یوں مسلمانوں کی تباہی  کاسبب بنیں۔

اسی بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ جب تک اسرائیل اور ہمارے درمیان جنگ کی صورت قائم ہے کسی یہودی عورت سے شادی جائز نہیں ہے۔

4۔چوتھی شرط یہ ہے کہ کتابیہ سے شادی کرنے سے کسی قسم کے نقصان اور فتنے کا اندیشہ نہ ہو۔یہ نقصان مختلف صورتوں میں ظاہر ہوسکتا ہے۔نقصان اور فتنے کی ایک صورت یہ ہے کہ شادی کے بعد کتابیہ اپنے بچوں کو تربیت اپنے دین ومذہب کے مطابق کرے گی اور وہ بچوں کو اسلام سے دور کردے گی۔ایسے گھرانوں میں جہاں عورتیں حکمرانی کرتی ہیں اورمرد حضرات ان کے سامنے بھیگی بلی بنے رہتے ہیں اس بات کا امکان اور بھی زیادہ ہے۔

یا اس بات کا اندیشہ ہوکہ اس طرح کی شادی مسلم معاشرے میں رواج کی صورت اختیار کرلے۔پھر تو یہ ہوگا کہ لوگ جس قدر کتابیات سے شادی کریں گے مسلم لڑکیاں اسی قدر شادی سےمحروم رہ جائیں گی۔اسی اندیشے کے پیش نظر عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بن الیمان کی جنھوں نے مدائن میں ایک یہودی لڑکی سے شادی کرلی تھی،خط لکھا کہ میراخط ملتے ہی تم اس یہودیہ کو طلاق دے دو کیوں کہ مجھے اندیشہ ہے کہ وہاں کےمسلمان تمہاری دیکھا دیکھی ذمی عورتوں سے ان کی خوبصورتی کی بنا پر شادی کرنے لگیں گے اور مسلمان عورتیں بیٹھی رہ جائیں گی۔

اس صورت حال کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ بعض لڑکے تعلیم یانوکری کی  غرض سے امریکا یو یورپ جاتے ہیں۔چندسالوں کے بعد وہ وہاں کسی امریکی یایورپی لڑکی سے شادی کرلیتے ہیں۔پھر دونوں مل کر جو گھر آباد کرتے ہیں تو اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اس پر مغربی تہذیب کانقش گہرا ہوتا ہے۔ان لڑکوں کے والدین جب اپنے بیٹوں اور بہوؤں سے ملنے کے لیے ان کے گھر جاتے ہیں تو وہاں ایک عجیب وغریب قسم کی اجنبیت کا احساس ہوتا ہے۔وہ جب تک اس گھر میں رہتے ہیں اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتے ہیں۔انہیں محسوس ہونے لگتا ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو کھودیا ہے۔

آخر میں میں ایک اہم بات کی طرف دھیان دلانا چاہتا ہوں۔اسلام نے اگر کتابیہ سے شادی کی اجازت دی ہے تو دو باتوں کا خیال کرتے ہوئے:

1۔یہ کتابیہ چونکہ خودایک آسمانی دین پر ایمان رکھتی ہے اس لیے کسی بھی مسلم کی طرح وہ خود بھی اللہ،اس کی رسالت،یوم آخرت اور اعلیٰ اور عمدہ اخلاق پر ایمان ویقین رکھتی ہے۔اس لیے کسی بھی دوسری مشرک عورت کے مقابلے میں وہ اسلام سے زیادہ قریب ہے۔

2۔یہ بھی خیال رہے کہ یہ کتابیہ جب شادی کرکے کسی مسلم گھرانے میں آئے گی تو اس کا رول اثر انداز ہونے والا نہ ہو۔بلکہ اثر قبول کرنے والاہو۔یعنی ایسا نہ ہوکہ وہ اپنی تہذیب اور مغربی اخلاق اور روایات کے ساتھ اس مسلم گھرانے پر اثر انداز ہونے لگے بلکہ ایسا ہو کہ ایک مسلم گھرانے میں رہتے ہوئے وہ اسلامی تہذیب اوراسلامی افکار واخلاق کا اثر قبول کرے۔کتابیہ سے شادی کی اجازت دراصل اسی بنیاد پر ہے کہ مسلم معاشرے میں آکر یہ کتابیہ اسلام اور مسلمانوں سے متاثر ہوکر ایک نہ ایک دن اسلام قبول کرلے گی۔یہی وجہ ہے کہ کسی مسلم عورت کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ غیرمسلم کے ساتھ شادی کرے۔

اللہ تعالیٰ نے کتابیہ سے شادی کی جو اجازت دی ہے اس میں یہی حکمت پوشیدہ ہے کہ اس کتاب کو مسلم گھرانے میں لاکر زیادہ سے زیادہ اسلام سے قریب کیا جائے مسلمانوں اور اہل کتاب کے درمیان جو خلیج ہے اسے کم کیاجائے اور دونوں کے درمیان محبت وموانست اور حسن معاشرت کو پروان چڑھایا جائے۔اگر غور کریں تو اس اجازت کافائدہ درحقیقت اسلام اور مسلمانوں کوپہنچنا چاہیے۔لیکن اگر صورت حال یہ ہوکہ اس اجازت سے فائدہ کے بجائے اسلام اور مسلمانوں کو الٹا نقصان ہورہا ہوتو یہ اجازت وہیں ختم ہوجانی چاہیے۔

اس صورت میں میں کہہ سکتا ہوں کہ اس دور میں چونکہ مسلم معاشرے میں اسلامی اقدار نہایت کمزور ہیں۔مرد حضرات اپنی بیویوں پر اثر انداز  ہونے کی بجائے ان سے متاثر ہیں  اس لیے کتابیات سے شادی کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔الا یہ کہ اس بات کی نہایت شدید ضرورت ہو۔

یہاں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ کتابیات سے شادی لاکھ جائز سہی لیکن مسلم لڑکی سے شادی ہرحال میں افضل اور بہتر ہے۔اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اسلام نے صرف مسلم لڑکی سے شادی کی ترغیب نہیں دی ہے بلکہ اس بات کی ترغیب دی ہے کہ دین دار لڑکی سے شادی کی جائے کیوں کہ دین دار لڑکی اللہ کو زیادہ خوش رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے شوہر کا حق بھی ادا کرسکتی ہےاور اپنے گھر اور اپنی اولاد کی تربیت اسلامی انداز میں کرسکتی ہے اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:

"فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ"

’’دین دار لڑکی کو حاصل کرو(یعنی اس سے شادی کرو) تمہارا بھلا ہو‘‘

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

عورت اور خاندانی مسائل،جلد:1،صفحہ:247

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ