السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں ایک لڑکے سے محبت کرتی ہوں اور ہم دونوں نے اللہ کو حاضر ناظر جان کر شادی کا عہد وپیمان بھی کرلیا ہے۔اس کے بعد اس لڑکے نے میرے گھر والوں سے میرا رشتہ مانگا تو میرے گھر والوں نے انکار کردیا۔کیوں کہ وہ میری شادی کسی اور سے کرانا چاہتے ہیں۔تو کیا اس عہد وپیمان کے بعد میرا کسی اور سے شادی کرناجائز ہوگا؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اسلامی شریعت کے مطابق شادی ایک ایسا بندھن ہے جسے درج ذیل متعلقین کی باہمی رضا مندی کے بعد ہی عمل میں آنا چاہیے:
1۔اسلام نے حکم دیا ہے کہ لڑکی کی رائے ضرور معلوم کرنی چاہیے۔اس پر کسی قسم کی زبردستی نہ ہو۔اس کی شادی زبردستی اس شخص سے نہ کرائی جائے،جسے وہ ناپسند کرتی ہو۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی نکاح کوناسخ قراردیا جس میں لڑکی کی شادی ایسے شخص کے ساتھ کرادی گئی جسے وہ ناپسند کرتی تھی۔ایک دوسری حدیث ہے کہ ایک لڑکی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور بیان کیا کہ میرے والد میری شادی ایسے شخص سے کرانا چاہتے ہیں جسے میں سخت ناپسند کرتی ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ تم شادی کرلو،جیسا تمہارے والد چاہتے ہیں۔اس نے کہا کہ میں اس شخص کو ناپسند کرتی ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ اپنے والد کی بات مان لو۔لڑکی نے بار بار انکار کیا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار اسے اپنے والد کی بات مان لینے پر اصرار کیا۔اس لڑکی کے معصم انکار کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں اس بات کا پورا حق ہے کہ تم اس شادی سے انکار کردو اور اس کے والد کو حکم دیا کہ اسکی پسند سے شادی کرائی جائے۔اس پر لڑکی نے کہاکہ اب میں اپنے والد کی پسند سے شادی کرتی ہوں۔میں تو صرف لوگوں کو یہ بتانا چاہ رہی تھی کہ ا پنی لڑکیوں پر اس قسم کی زبردستی جائز نہیں ہے۔
2۔اس طرح لڑکی کے ولی کی رضا مندی بھی ضروری ہے۔حدیث ہے:
"أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهَا، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ»، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ"
’’جس عورت نے بغیر اپنے ولی کی اجازت کے خود سے اپنی شادی کرلی،اس کا نکاح باطل ہے،باطل ہے،باطل ہے‘‘
شریف لڑکی کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ اپنا رشتہ خود تلاش کرے اور خود سے اپنی شادی کرلے۔آج کل اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لڑکے بھولی بھالی لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر گھر سے بھگالےجاتے ہیں اور کسی اور جگہ جا کر شادی کرلیتے ہیں۔اس میں لڑکے کے گھر والوں کی رضا مندی شامل نہیں ہوتی ہے۔لڑکی کو ہوش اس وقت آتا ہے ،جب اسے یہ پتا چلتا ہے کہ اس کے ساتھ زبردست دھوکاہواہے۔لیکن اب وہ دھوکے بازوں کے دام میں اس طرح پھنس چکی ہوتی ہے۔وہ کچھ بھی نہیں کرسکتی۔حقیقت یہ ہے کہ شریعت نے ولی کی رضا مندی کو ضروری قراردے کرلڑکی کی عزت وشرافت کی حفاظت کا بندوبست کیاہے۔
3۔اسی طرح لڑکی کی ماں سے مشورہ کرنا بھی ضروری ہے۔حدیث ہے:
"آمِرُوا النِّسَاءَ فِي بَنَاتِهِنَّ" (مسند احمد)
’’عورتوں سے ان کی بیٹیوں کے سلسلے میں مشورہ کرو‘‘
اس حدیث کی رو سےلڑکیوں کی شادی سے متعلق ان کی ماؤں سے مشورہ کرنا بھی ضروری ہے۔کیوں کہ مائیں باپوں کے مقابلے میں اپنی بیٹیوں کی طبیعت،ان کی پسند وناپسند اور ان کے میلان ورجحان کو زیادہ بہتر طور پر جانتی ہیں۔
جب یہ تینوں متعلقین کسی رشتے لیے لیے باہم رضا مند ہوں تب ایسی شادی عمل میں آتی ہے جسے ہم واقعی خانہ آبادی سے تعبیر کرسکتے ہیں اور جسے اللہ تعالیٰ سے سورہ نساء میں مودت ورحمت اورسکون کاذریعہ قراردیا ہے۔
جہاں تک آپ کے سوال کے جواب کا تعلق ہے تو میں یہ کہوں گا کہ آپ کا بغیر اپنے ولی کی اجازت کے کسی لڑکے کے ساتھ شادی کاعہد وپیمان کرلینا صحیح نہیں ہے کیوں کہ جیسا کہ میں نے بتایا ولی کی رضا مندی کسی بھی شادی کے لیے ضروری ہے۔اور آپ کامعاملہ یہ ہے کہ ولی کی رضا مندی تو دور کی بات ہے ولی کو اس رشتے کا علم نہیں ہے۔بہتر یہ ہے کہ آپ اس عہد وپیمان کو ٹوٹنے دیں۔اور سچی بات تو یہ ہے کہ اس عہد وپیمان کی کوئی قیمت بھی نہیں ہے اس لیے کہ آپ کے ولی کی رضامندی اس میں شامل نہیں ہے۔اس عہد کے ٹوٹنے کا خوف آپ کو نہیں ہونا چاہیے۔ساتھ ہی میں ولیوں سےگزارش کروں گا کہ وہ اپنی بیٹیوں کی پسند وناپسند کاضرور خیال کریں اس لیے کہ شادی کوکامیاب بنانے میں اس پسند وناپسند کا بڑا دخل ہے۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب