سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(96) قسم کی قسمیں

  • 23848
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 3096

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے اور میری پڑوسن کے درمیان لڑائی ہوگئی۔میں نے اللہ کی قسم کھائی کہ اس عورت کو کبھی اپنے گھر آنے نہیں دوں گی۔اپنے گھر والوں کو بھی میں نے تاکید کردی کہ اس سے بات چیت نہ کریں۔ایک دن وہ عورت معذرت کرتی ہوئی اور سلام کرتی ہوئی میرے گھر میں داخل ہوگئی۔کیا اس طرح میری قسم ٹوٹ گئی اور مجھے کفارہ ادا کرنا ہوگا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شریعت میں قسم کی تین قسمیں ہیں:

1۔جھوٹی قسم:یعنی جان بوجھ کر کسی جھوٹی بات پر قسم کھانا۔ایسا شخص دنیا وآخرت دونوں جگہ عذاب کامستحق ہے۔

2۔لغوقسم:یعنی وہ قسم جو انسان یوں ہی بلامقصد بات بات میں کھاتا ہے۔مثلاً یہ کہناکہ بہ خدا آج بہت گرمی ہے یا واللہ آج تو میرے گھر پر دعوت پر آنا پڑے گا۔وغیرہ۔

اس طرح کی قسموں کا مقصد قسم کھانا نہیں ہوتا اس لیے اللہ کےنزدیک یہ قابل گرفت نہیں ہیں۔

اللہ ان قسموں کے بارے میں فرماتا ہے:

﴿لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغوِ فى أَيمـٰنِكُم وَلـٰكِن يُؤاخِذُكُم بِما كَسَبَت قُلوبُكُم ...﴿٢٢٥﴾... سورة البقرة

’’جو بے معنی قسمیں تم بے ارادہ کھا لیا کرتے ہو ان پر اللہ گرفت نہیں کرتا۔مگر جو قسم تم سچے دل سے کھاتے ہو ان کی باز پرس وہ ضرور کرے گا‘‘

3۔تیسری قسم وہ ہے جو کسی مستقبل کی کسی بات پر کھائی جاتی ہے اور قسم کھانے کی غرض سے یہ قسم کھائی جاتی ہے ۔مثلاً بہ خدا اب کبھی سگریٹ نہیں پیوں گا وغیرہ۔یہ قسم چونکہ قسم کھانے کی غرض سے کھائی جاتی ہے اس لیے قسم کھانے والا اس بات کا ذمہ دار ہے کہ اپنی قسم کی حفاظت کرے۔اگر حفاظت نہیں کرسکا اور قسم ٹوٹ گئی تو اسے قسم کا کفارہ ادا کرناہوگا۔

اس طرح کی قسمیں عموماً دو چیزوں کے لیے کھائی جاتی ہیں۔ان چیزوں کے لیے جو شرعاً جائز اور نیک کام ہیں یا ان چیزوں کے لیے جو شرعاً ناجائز اور غلط کام ہیں۔جائز اورنیک کاموں کے لیے قسم کھانے کی مثال یہ ہے کہ مثلاً کوئی یہ کہے کہ بہ خدا میں اب کبھی سگریٹ نہ پیوں گا۔برے کاموں کے لیے قسم کھانے کی مثال یہ ہے کہ مثلاً کوئی کہے کہ خدا کی قسم میں فلاں رشتے دار سے قطع تعلق کرلوں گا۔رشتے دار سے قطع تعلق کرنا ناجائز ہے اور ناجائز کام پر قائم رہنا باعث گناہ ہے اس لیے ضروری ہے کہ اس ناجائز کام کو پہلی فرصت میں ترک کیا جائے اور قسم ٹوٹنے کی وجہ سے قسم کاکفارہ ادا کیا جائے۔

آپ نے چونکہ ایک غلط اور شرعاً جائز کام کی قسم کھائی تھی اور اس عورت نے آپ کے گھر میں آکر آپ کی قسم توڑ بھی دی اس لیے آپ پر قسم کاکفارہ واجب ہے۔قسم کا کفارہ ہے دس مسکینوں کو پیٹ بھر کھانا کھلانا یا ایک غلام آزاد کرنا۔یہ نہیں کرسکتا تو تین دن روزے رکھنا۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

قسموں اور منتوں کے مسائل،جلد:1،صفحہ:223

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ