سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(85) شب برات کی حقیقت

  • 23837
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 4390

سوال

(85) شب برات کی حقیقت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

شعبان کی پندرہویں تاریخ یعنی شب برات کے موقع پر لوگ مسجدوں میں اکٹھےہو کر نمازوں اور دعاؤں کا اہتمام کرتے ہیں اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا اس سلسلے میں صحیح احادیث موجود ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شب برات کی فضیلت کے سلسلے میں ایک بھی حدیث ایسی نہیں ہے جسے  صحیح قرار دیا جا سکے۔البتہ چند احادیث کے بارے میں علماء حدیث نے کہا ہے کہ یہ صحیح تو نہیں ہیں البتہ حسن درجے میں ہیں۔ لیکن بعض علماء انہیں حسن بھی نہیں قراردیتے۔

ان کے نزدیک شب برات کے سلسلے میں وارد تمام حدیثیں ضعیف ہیں۔

بالفرض اگر ہم ان چند احادیث کو حسن بھی تسلیم کر لیں تب بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  اور سلف صالحین سے یہ روایت نہیں ملتی کہ انھوں نے شب برات کے موقعے پر مسجدوں میں جمع ہو کر نمازوں اور دعاؤں کا اہتمام کیا ہو۔ جو کچھ ان روایتوں میں ہے وہ یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس رات دعا مانگی اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کی۔ کوئی خاص اور متعین قسم کی دعا حضور صلی اللہ علیہ وسلم  سے وارد نہیں ہے۔ لوگ اس رات کچھ خاص دعاؤں کا اہتمام کرتے ہیں ان کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب میں بہت چھوٹا تھا تو لوگوں کی دیکھا دیکھی میں بھی اس رات نمازیں پڑھتا تھا اور دورکعت درازی عمر کی نیت سے دورکعت لوگوں سے بے نیازی کی نیت سے نماز یں پڑھتا تھا۔ سورہ یسین کی قرآءت کا خاص اہتمام کرتا تھا وغیرہ وغیرہ ۔ یہ چیزیں ایسی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کا ان پر عمل منقول نہیں ہے۔عبادت کے معاملے میں یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ ہم اسی چیزیں پر توقف کریں۔جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم  سے منقول ہے۔ اپنی طرف سے کسی نئی چیز کی ایجاد کسی بھی طور پر جائز نہیں ہے۔علماء کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عبادات جنھیں اصطلاحاً امر تعبدی بھی کہتے ہیں ان کے ادا کرنے میں اسی وقت ثواب ہوتا ہےجب یہ عین خدا اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے فرمان کے مطابق ہوں نہ زیادہ نہ کم۔ کیوں کہ عبادت صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہو تی ہے اور یہ حق صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے کہ وہ کس طرح اپنی عبادت کروائے۔ اس نے جس طرح عبادت کا حکم دے دیا ہے ہمیں چاہیے کہ ہم اسی طریقے سے عبادت کریں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے بارے میں ناراضی کا اظہارکرتا ہے۔جو عبادات میں اپنے طرف سے نئی چیزیں ایجاد کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

﴿أَم لَهُم شُرَكـٰؤُا۟ شَرَعوا لَهُم مِنَ الدّينِ ما لَم يَأذَن بِهِ اللَّهُ...﴿٢١﴾... سورة الشورىٰ

’’کیا انھوں نے لوگوں کے لیے دین میں ان چیزوں کو شریعت بنا لیا ہے جس کا حکم اللہ نے نہیں دیا تھا۔‘‘

ہمیں چاہیے کہ اس رات کو ہم صرف اتنا ہی کریں جتنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم  سے مروی ہے اور وہی دعائیں مانگیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم  سے ماثور ہیں۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

تیوہار اور عید،جلد:1،صفحہ:205

محدث فتویٰ

تبصرے