سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(83) کس پتھر سے تبرک حاصل کرنا شرک ہے؟

  • 23835
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1267

سوال

(83) کس پتھر سے تبرک حاصل کرنا شرک ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مصر میں طنطا شہر میں ایک ایسا پتھر ہے جس میں لوگوں کے کہنے کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے قدموں کے نشان ہیں لوگ یہاں آتے ہیں اسے چھوتے ہیں چومتے اور تبرک  حاصل کرتے  ہیں اور اپنی ضروریات مانگتے ہیں۔ کیا واقعی اس پتھر میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے نشان ہیں؟ کیا اس سے تبرک حاصل کرنا جائز ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسلمانوں کو جس چیز نے تباہ برباد کر ڈالا وہ ان کاافراط و تفریط میں مبتلا ہونا ہے۔ بعض افراط کا شکار ہیں اور ان کا عقیدہ اس قدر کمزور ہوتا ہے کہ خرافات پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔ پتھروں اور آثار قدیمہ سے تبرک حاصل کرتے ہیں جس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اور بعض مسلمان تفریط کا شکار ہیں کہ عقیدہ اور غیب سے متعلق بھی شک و شبہ میں مبتلا ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلام افراط و تفریط کے درمیان ایک دین وسط ہے۔ اسلام نے تمام قسم کے پتھروں سے تبرک حاصل کرنے کو باطل قراردیا ہے ۔ صرف حجراسود اس حکوم سے مستثنیٰ ہے۔ چنانچہ وہ پتھر کی کوئی تاریخی حیثیت نہیں ہے۔ اس بات کی کوئی سند اور دلیل نہیں ہے کہ اس پتھر پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے قدم پڑے تھے اور یہ ان کے قدموں کے نشان ہیں۔

اگر فرض بھی کر لیں کہ اس پر واقعی حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے قدموں کے نشان ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے کبھی اپنی امت کو اس بات کا حکم نہیں دیا کہ وہ ان کے قدموں کے نشان کو لمس کریں۔ انہیں مقدس سمجھ کر ان سے تبرک حاصل کریں۔ اس کے برعکس آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس فعل سے منع فرمایا ہے۔ جس میں تعظیم و تکریم میں   غلو اور تقدس کا پہلو نمایاں ہونے لگے ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا حکم ہے کہ:

"لَا تَتَّخِذُوا قَبْرِي عِيدًا"

’’میری قبر کو تم جشن کی جگہ مت بناؤ‘‘

دوسری حدیث ہے:

"لا تتخذوا قبري وثناً يعبد"

’’میری قبر کو بت کی مانند نہ بناؤ جس کی پوجا کی جائے۔‘‘

صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بھی اسی سنت پر ہمیشہ عمل کیا۔چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے رضوان کے اس مشہور درخت کو کٹوا ڈالا تھا جس کے نیچے مسلمانوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہاتھوں پر بیعت کی تھی۔اس لیے کہ انھوں نے دیکھا کہ لوگ اس درخت کے پاس تبرک حاصل کرنے کے لیے جانے لگے ہیں۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

حج اور عمرہ،جلد:1،صفحہ:202

محدث فتویٰ

تبصرے