السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک کتابچہ ہمارے سامنے ہے جس میں صاحب مقالہ نے حجراسود کے سلسلہ میں کلام کیا ہے۔ صاحب مقالہ نے ان تمام احادیث کو ماننے سے انکار کر دیا۔ جو حجراسود کو بوسہ دینے اور اسے لمس کرنے کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں۔ محض اس بنیاد پر کہ حجراسود کو بوسہ دینا عقیدہ توحید کے خلاف ہے اور اس میں پتھروں کو پوجنے سے مشابہت ہے۔ اس سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس عہد میں ہمارے بعض اہل علم کا سطحی مطالعہ ایک بڑی مصیبت ہے۔ علم اور تجربے میں پختہ ہونے سے قبل اور کسی جید عالم کی طرف رجوع کیے بغیر فتوے بازی اسی سطحی مطالعے کی دین ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ دین کے معاملے میں شک پیدا کرنے والے یا تو جاہل لوگ ہیں یا ایسے اہل علم لوگ جن کے اذہان میں کچھ خاص باتیں بیٹھ جاتی ہیں حجراسود کو بوسہ دینا اور اس جیسے دوسرے مسائل میں شک و شبہ پیدا کرنا اور اس سلسلہ میں وارد احادیث کو جھٹلانا واضح گمراہی اور علم حدیث سے ناواقفیت ہے۔
علم حدیث کے چند قواعد اور اصول ہیں علماء حدیث نے یہ اصول اسی لیے وضع کیے ہیں تاکہ صحیح اور ضعیف کے درمیان تمیز کی جا سکے ۔ گھڑی ہوئی حدیثوں کی نشاندہی کی جا سکے ۔ اس راہ میں علماء حدیث نے جو قابل قدر کارنامے انجام دئیے ہیں اور جتنی محنت کی ہے اس سے کوئی بے خبر نہیں ہے۔
ذیل میں ،میں حجراسود کو بوسہ لینے کے سلسلے میں چند صحیح احادیث کا تذکرہ کرتا ہوں۔
بخاری شریف کی حدیث ہے کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حجراسود کو بوسہ لینے کے بارے میں دریافت کیا گیا ۔ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے لمس کرتے اور بوسہ لیتے ہوئے دیکھا ہے۔
بخاری اور مسلم کی حدیث ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حجراسود کو بوسہ دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ میں جانتا ہوں کہ تو محض ایک پتھر ہے۔ نفع و نقصان تیرے بس میں نہیں۔ اگر میں آنحضرت کو تجھے بوسہ لیتے نہ دیکھتا تو میں تجھے بوسہ نہ لیتا ۔
امام طبری کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایسا اس لیے کہا تھا کہ لوگ ابھی ابھی جہالت اور پتھروں کو پوجنے کے دور سے نکلے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ کہہ کر لوگوں پر واضح کر دیا کہ حجراسود کو بوسہ دینا صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع میں ہے۔ پتھروں کی تعظیم و تکریم کی خاطر نہیں۔
یہ وہ احادیث ہیں جن کے صحیح ہونے پر تمام علماء امت کا اتفاق و اجماع ہے۔مزید برآں حجراسود کو بوسہ دینا ایک ایسی سنت جس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے آج تک ہر دور میں عمل ہوتا آیا ہے اور آج تک کسی نے بھی اس سلسلے میں کسی شک و شبہ کا اظہار نہیں کیاگویا تمام امت مسلمہ کا اس پر اجماع و اتفاق ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ میری امت کسی گمراہی پر متفق نہیں ہو سکتی ہے۔ گویا پوری امت کا کسی بات پر متفق ہونا ہی اس بات کے صحیح ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
اس مسئلے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اسلام میں بہت سارے اعمال ایسے ہیں جن کا تعلق ایمان بالغیب سے ہے۔جنھیں ہم"امر تعبدی "بھی کہتے ہیں یعنی وہ عبادات یا عمل جسے ہم محض اس لیے ادا کرتے ہیں۔کہ اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے خواہ اس کی حکمت ہماری سمجھ میں آئے نہ آئے۔ ان تعبدی عبادات اور اعمال کی ایک بڑی حکمت یہ ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے اپنے بندوں کو آزماتا ہے کہ کون اللہ کے احکام کا تابع ہے اور کون اپنی عقل کے تابع ہے حجراسود کا بوسہ لینا بھی امر تعبدی ہے۔
ذرا غور کریں حجراسود کو بوسہ لینا کیوں کر پتھروں کو پوجنے کے مشابہ ہو سکتا ہے جب کہ حج کے دوران ہم جو کچھ کرتے ہیں اور جہاں جہاں جاتے ہیں وہاں ابراہیم علیہ السلام کا نام اور ان کی یادوابستہ ہوتی ہے۔ اور یہ ابراہیم کون تھے؟یہ وہ تھے جنھوں نے ایک کلہاڑی سے پتھروں کی تمام مورتیوں کو مسمار کر ڈالا تھا۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب