السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بعض مسلمان متعدد بار اور بعض ہر سال حج کرتے ہیں۔ حج کے موقعے پر کتنی بھیڑ بھاڑ ہوتی ہے اس سے کوئی بے خبر نہیں ہے۔ اس بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے ہر سال کئی جانیں جاتی ہیں۔ کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ نفلی حج پر خرچ کرنے کے بجائے یہی پیسے غریبوں اور محتاجوں کو دے دیے جائیں یا اسلامی مدارس و مراکز کو روانہ کیے جائیں کیونکہ ان مدارس یا مراکز کو ہمیشہ پیسوں کی قلت کا سامنا ہوتا ہے؟ یا ان صدقات کے مقابلے میں نفلی حج ادا کرنا زیادہ افضل ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ بندہ مومن سب سے پہلے دینی فرائض وواجبات کو ادا کرنے کا مکلف ہے۔رہیں نفلی عبادتیں تو ان کے ذریعے زیادہ سے زیادہ اللہ کا قرب حاصل کیا جا سکتا ہے۔ حدیث قدسی ہے۔
"وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ ...." (بخاری)
’’فرض کاموں سے زیادہ کوئی چیز میرے بندے کو مجھ سے قریب نہیں کرتی اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے مسلسل مجھے سے قریب ہوتا رہتا ہے حتی کہ وہ میرا محبوب ہو جا تا ہے ۔جب وہ میرا محبوب ہو جاتا ہے تو میں اس کاکان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے۔الخ۔‘‘
اس تمہید کے بعد چند شرعی اصول پیش کرتا ہوں۔
1۔ اللہ تعالیٰ اس وقت تک نفل عبادت قبول نہیں کرتا جب تک فرض ادا نہ کیا جائے۔ اس قاعدے کی بنا پر ہر وہ شخص جو سال بہ سال حج اور عمرے ادا کرتا ہے لیکن زکوۃ و صدقات کی ادائی میں بخل سے کام لیتا ہے اس کے حج اور عمرے بے کار ہیں۔ اسے نفلی حج کرنے کے بجائے پہلے زکوۃ صدقات کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اسی طرح وہ تاجر جو قرضوں میں پھنسا ہوا ہو۔ اسے قرض اتارنے کی فکر کرنی چاہیے۔
2۔اللہ تعالیٰ اس نفل کو قبول نہیں کرتا جو کسی غلط کام کا سبب بن جائے کیوں کہ نفل کام کرنے سے زیادہ اہم ہے غلط کام سےمحفوظ رہنا۔ چنانچہ اگر نفل حج کرنے والوں کی کثرت کی وجہ سے ایام حج میں اتنی بھیڑ ہو جاتی ہو کہ لوگوں کی جانیں خطرہ میں پڑجائیں تو ایسی صورت میں نفلی حج کرنے کے مقابلےمیں بھیڑ کم کرنا زیادہ اہم اور ضروری ہے۔
3۔منفعت حاصل کرنے کے مقابلے میں فساد اور خرابی دور کرنا زیادہ ضروری ہے۔ نفل حج کرنے میں اگرچہ ثواب ہے لیکن ساتھ ہی یہ خرابی ہے کہ بھیڑ کی زیادتی کی وجہ سے حاجیوں کو تکلیف پہنچتی ہے اس لیے ثواب حاصل کرنے کے مقابلے میں یہ خرابی دور کرنا زیادہ اہم اور ضروری ہے۔
4۔ثواب کمانے اور اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے نفل کاموں کی تعدادبے شمار ہے کوئی ضروی نہیں۔ آدمی نفل حج کر کے ہی ثواب کمائے۔ خاص کر ایسی صورت میں کہ اس نفل کی وجہ سے دوسروں کو تکلیف پہنچتی ہو۔ ثواب کمانے کے لیے وہ ان پیسوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کر سکتا ہے۔ محتاجوں کی مدد کر سکتا ہے۔ غریبوں کا پیٹ بھر سکتا ہے۔ بسااوقات یہ صدقہ کرنا واجب ہوتا ہے جیسا کہ اس حدیث میں ہے:
"ليس المؤمن الكامل بالذي يشبع وجاره جائع إلى جنبه"(حاتم طبرانی)
’’وہ شخص مومن نہیں ہے جو خود تو شکم سیر رہے اور اس کے بغل میں اس کا پڑوسی بھوکا ہو۔‘‘
یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ دینی مدارس اور مراکز ہمیشہ پیسوں کی قلت کا شکار رہتے ہیں۔ کتنے دینی مراکز صرف اسی وجہ سے بند ہو جاتے ہیں کہ کوئی ان کی مالی معاونت نہیں کرتا۔ اس لیے نفل حج کرنے والوں سے میری گزارش ہے کہ وہ ایک حج ہی پر اکتفا کریں اور اللہ نے انہیں جو مال عطا کیا اسے دوسرے خیر کے کاموں میں صرف کریں جن کی کوئی کمی نہیں ہے۔اگر دوبارہ حج کرنے کی بہت خواہش ہو تو کم از کم پانچ سال کا وقفہ ضرور رکھیں۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب