سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(75) صدقہ الفطر کی مقدار

  • 23827
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 841

سوال

(75) صدقہ الفطر کی مقدار

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

صدقہ الفطر کی مقدار کیا ہر سال تبدیل ہوتی رہتی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صدقہ الفطر کی مقدار سال بہ سال تبدیل نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک محدود اور متعین مقدار ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے مقرر کیا ہے۔یہ مقدار ایک صاع یعنی تقریباً دو کلو گرام اناج ہے۔ میرے خیال میں صدقہ الفطر کو اناج کی صورت میں مقرر کرنے میں دو حکمتیں پوشیدہ  ہیں۔

1۔پہلی حکمت یہ ہے کہ اس زمانے میں عربوں خاص کر دیہات میں رہنے والوں کے پاس دینار درہم (پیسوں )کے مقابلے میں اناج اور غلہ زیادہ موجود ہوتا تھا۔ بہت سارے ایسے لوگ تھے جن کے پاس غلہ اور اناج تو ہوتا تھا لیکن نقد رقم کی صورت میں ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا تھا۔(5) صدقہ الفطر کو پیسوں کی صورت میں ادا کرنا ہوتا تو شاید بہت سارے لوگ پریشانیوں میں مبتلا ہو جاتے ۔

2۔دوسری حکمت یہ ہے کہ پیسوں کی قوت خرید ہمیشہ تبدیل ہوتی رہتی ہے۔آج اگر پانچ روپے کا ایک کلو چاول مل رہا ہے تو کل اس ایک کلو چاول کی قیمت دس روپے بھی ہو سکتی ہے اسی لیے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے صدقہ الفطرکو اناج اور غلے کی صورت میں مقرر کر دیا تاکہ مقرر شدہ اناج کی پوری مقدار غریبوں تک پہنچتی رہے۔

احناف کے نزدیک اس مقرر شدہ اناج کی قیمت بھی ادا کی جا سکتی ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے صدقہ الفطر کے لیے اناج کی محض چند قسموں کا تذکرہ کیا ہے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان قسموں کے علاوہ دوسری قسموں کو بطور صدقہ الفطر ادا نہیں کیا جا سکتا۔ علمائے کرام کہتے ہیں کہ جس جگہ صدقہ الفطر ادا کیا جا رہا ہے وہاں اناج کی جتنی قسمیں مستعمل ہیں ان میں سے کسی بھی قسم سے صدقہ الفطرنکالا جا سکتا ہے۔ چاہے گہیوں ہو یا چاول یا کھجور یا مکئی یا اس کے علاوہ دوسری کوئی چیز۔

اگر آدمی صاحب حیثیت ہے تو اسے چاہیے کہ اس مقرر شدہ اناج کے علاوہ کچھ رقم ادا کرے کیونکہ اس دور میں کھانا فقط چاول یا روٹی پر مشتمل نہیں ہو تا بلکہ اس کے ساتھ سالن کی صورت میں دوسرے لوازمات بھی ضروری ہوتے ہیں۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

روزہ اور صدقہ الفطر،جلد:1،صفحہ:188

محدث فتویٰ

تبصرے