سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(69) تراویح کی نماز جلدی جلدی ادا کرنا

  • 23821
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-05
  • مشاہدات : 1375

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا تراویح کی نماز جلدی جلدی اور تیز پڑھی جا سکتی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بخاری ومسلم کی حدیث ہے:

"مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ "

’’جس نے رمضان میں قیام ا للیل(تراویح ) کا اہتمام ایمان و احتساب کے ساتھ کیا اس کے پچھلے گناہ بخش دیے گئے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے رمضان میں دن کے وقت ہم پر روزے فرض کیے اور رات کے وقت نفل نمازوں یعنی تراویح کے اہتمام کی تاکید کی تاکہ یہ عبادتیں ہمارے گناہوں کی معافی کا سبب بن سکیں۔ لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ وہ کون سی نمازیں ہیں جن سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ یہ وہ نمازیں ہیں جن میں نماز کے ارکان و شرائط اور اس کے آداب کا پورا خیال رکھا گیا ہو۔یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ اطمینان اور سکون کے ساتھ نماز کی ادائیگی بھی نماز کے ارکان میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس شخص کو جس نے جلدی جلدی نماز ادا کی تھی فرمایا:

"ارْجِعْ فَصَلِّ , فَإِنَّك لَمْ تُصَلِّ"

’’واپس جاؤ پھر نماز پڑھو کیونکہ تمھاری نمازنہیں ہوئی۔‘‘

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے نماز پڑھنی سکھائی کہ کس طرح ٹھہر ٹھہر کر اطمینان کے ساتھ نماز ادا کی جاتی ہے۔(3) اللہ کا فرمان ہے:

﴿قَد أَفلَحَ المُؤمِنونَ ﴿١ الَّذينَ هُم فى صَلاتِهِم خـٰشِعونَ ﴿٢﴾... سورة المؤمنون

’’کامیاب ہوئے وہ جو ایمان لائے۔ جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرتے ہیں۔‘‘

معلوم ہوا کہ وہ نماز کا میابی کی ضامن ہے جو خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کی جائے۔ خشوع کی دو قسمیں ہیں یک تو دل کا خشوع یعنی اس بات کا پوری طرح احساس ہو کہ نماز کے دوران ہم کس ہستی کے ساتھ ہم کلام ہیں اور یہ کہ وہ ہماری تمام حرکتیں دیکھ رہا ہے۔ دل کا خشوع یہ بھی ہے کہ ہم جو کچھ پڑھیں سمجھ کر پڑھیں ایسا نہ ہو کہ زبان پر تو اللہ کا کلام ہو اور دل کہیں اور غائب ۔

خشوع کی دوسری قسم بدن کا خشوع ہے اور وہ یہ ہے کہ نماز میں احترام و ادب کا خاص خیال ہو۔ نماز کے دوران ادھر اُدھر دیکھنا کھٹا کھٹ رکوع و سجدہ کرنا باربار کھجلانا یا کپڑوں سے کھیلنایہ سب احترام وآداب کے خلاف ہے۔

تمام مسلمان بھائیوں کے لیے میری یہ نصیحت ہے کہ جب ہم نماز پڑھیں تو یہ خیال کر لیں کہ ہم کس ہستی کے سامنے کھڑے ہیں اور کس سے ہم کلام ہیں ہمیں احساس ہو کہ وہ ہستی ہمیں دیکھ رہی ہے۔ نمازیوں ادا کرنا کہ گویا ایک مشکل مرحلہ تھا جو سر ہو گیا یا بھاری بوجھ تھا جسے منزل مقصود تک پہنچادیا نماز کی حکمت و غایت کے عین منافی ہے۔ بہت سارے لوگ رمضان میں بیس رکعت تراویح چند منٹوں میں ختم کر لیتے ہیں قرآن جلدی جلدی اور تیز تیز پڑھتے ہیں تاکہ کم سے کم وقت میں نماز ختم ہو جائے ۔ نہ اطمینان سے رکوع کرتے ہیں اور نہ سجدہ اور نہ خشوع وخضوع ہی کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ تو ایسی نماز ہوئی جس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"تعرج إلى السماء وهي سوداء مظلمة تقول لصاحبها : ضيعك الله كما ضيعتني"

یہ نماز آسمان کی طرف جاتی ہے اس حالت میں کہ کالی اور تاریک ہوتی ہے۔ نماز پڑھنے والے سے کہتی ہے کہ اللہ تمھیں ضائع کرے جس طرح تم نے مجھے ضائع کر دیا۔

خشوع اور اطمینان کے ساتھ تراویح پڑھنے والوں کے لیے میری یہ نصیحت ہے کہ خشوع اور اطمینان کے ساتھ ادا کی گئی آٹھ رکعتیں جلدی ادا کی گئی بیس رکعتوں سے بہتر اور افضل ہیں۔ اگر بیس رکعات پڑھنا مشکل ہو تو آٹھ رکعت ہی پر اکتفا کریں لیکن اطمینان اور خشوع و خضوع کا ضرور خیال کریں۔ اللہ تعالیٰ یہ نہیں دیکھے گا کہ کتنی رکعتیں پڑھیں بلکہ اس کے نزدیک خضوع و خشوع کی اہمیت ہے اور یہی خشوع دراصل باعث مغفرت و رحمت ہے۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

روزہ اور صدقہ الفطر،جلد:1،صفحہ:179

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ