السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کسی مجبوری کی بنا پر اگر کوشخص تاخیر سے سحری کھا رہا ہو اور اسی دوران فجر کی اذان ہو جائے تو کیا اذان سنتے ہی کھانے سے ہاتھ اٹھا لینا چاہیے یا اذان کے ختم ہونے تک وہ کھا پی سکتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر اسے اس بات کا یقین ہو کہ اذان بالکل صحیح وقت پر ہو رہی ہے تو اذان سنتے ہی اسے سحری کھانا چھوڑ دینا چاہیے ۔ حتی کہ اگر اس کے منہ میں نوالہ ہے تو اسے چاہیے کہ اسے اگل دے تاکہ یقینی طور پر اس کا روزہ صحیح ہو۔ تاہم اگر اسے یقین ہو یا کم از کم شک ہو کہ اذان وقت سے قبل ہو رہی ہے تو اذان سن کر کھانے کا عمل جاری رکھ سکتا ہے اس بات کے یقین کے لیے اذان بالکل صحیح وقت پر ہو رہی ہے مختلف چیزوں سے مدد لی جا سکتی ہے۔ مثلاً کیلنڈر یا گھڑی یا اس قسم کی دوسری چیزیں جو آج کل بآسانی دستیاب ہیں۔
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےکسی نے سوال کیا کہ سحری کھانے کے دوران اگر شک ہو کہ فجر کا وقت ہو گیا تو کیا میں سحری کھانا چھوڑدوں؟ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ جب تک شک ہو کھاتے رہو۔ جب فجر کا یقین ہو جائے تو کھانا چھوڑدو۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک بھی یہی ہے۔
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ شوافع نے شک کی حالت میں کھاتے رہنے کا جواز درج ذیل قرآنی آیت سےاخذ کیا ہے۔
﴿وَكُلوا وَاشرَبوا حَتّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الخَيطُ الأَبيَضُ مِنَ الخَيطِ الأَسوَدِ مِنَ الفَجرِ ... ﴿١٨٧﴾... سورة البقرة
’’اور راتوں کو کھاؤ پیو حتی کہ تم کو سیاہی شب کی دھاری سے سپیدہ صبح کی دھاری نمایاں نظر آجائے۔
اس آیت میں یقین کا لفظ ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جب یقینی طور پر کچھ واضح ہو جائے ۔ یعنی جب شک کی کیفیت نہ ہو بلکہ یقین ہو کہ فجر کا وقت آگیا ہے
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب