السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اس روزے دار کے لیے کیا حکم ہے جو روزے کی حالت میں غیبت کرتا ہو۔ جھوٹ بولتا ہو یا کسی غیر محرم عورت کی طرف شہوت کی نظر سے دیکھتا ہو؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
روزہ وہی نفع بخش اور باعث اجرو ثواب ہے۔ جو برائیوں سے روکے نیکیوں پر آمادہ کرے اور نفس میں تقوی پیدا کرے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا كُتِبَ عَلَيكُمُ الصِّيامُ كَما كُتِبَ عَلَى الَّذينَ مِن قَبلِكُم لَعَلَّكُم تَتَّقونَ ﴿١٨٣﴾... سورة البقرة
"اے لوگو!جو ایمان لائے ہو تم پر روزے فرض کر دیے گئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے اس توقع سے کہ تم میں تقوی کی صفت پیدا ہو گی ۔‘‘
روزے دار کے لیے ضروری ہے کہ اپنے روزے کو تمام گناہوں کی آلودگی سے پاک رکھے تاکہ ایسا نہ ہو کہ اس کے نصیب میں صرف بھوک اور پیاس ہی آئے اور روزے کے اجرو ثواب سے محروم رہ جائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"رُبَّ صَائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ صِيَامِهِ إِلا الْجُوعُ " (نسائی ابن ماجه، حاکم)
"بعض ایسے روزے دار ہوتے ہیں کہ ان کے روزے میں سے انہیں صرف بھوک ہی نصیب ہوتی ہے۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں ہے:
"مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِهِ فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ" (بخاری احمد اور اصحاب السنن )
جو شخص جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہیں چھوڑتا تو اللہ کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ کھانا اور پینا ترک کردے۔
اسی لیے ابن حزم کا قول ہے کہ جھوٹ بولنے غیبت کرنے اور اس قسم کے دوسرے گناہوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے جس طرح کہ کھانے پینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور سلف صالحین اپنے روزوں کی حفاظت کا خاص اہتمام کرتے تھے۔ جس طرح کھانے پینے سے اپنے آپ کو بچاتے تھے اسی طرح گناہوں کے کاموں سے بھی اپنے آپ کو دور رکھتے تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے:
"لَيْسَ الصِّيَامُ مِنْ الشَّرَابِ وَالطَّعَامِ وَحْدَهُ ; وَلَكِنَّهُ مِنْ الْكَذِبِ , وَالْبَاطِلِ وَاللَّغْوِ "
’’روزہ صرف کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں ہے بلکہ جھوٹ باطل کاموں اور لغویات سے رکنے کا نام بھی ہے۔
میرے نزدیک ارجح رائے یہ ہے کہ ان لغو کاموں سے روزہ تو نہیں ٹوٹتا البتہ روزے کا مقصد فوت ہوجاتا ہے اور روزہ دار روزے کے ثواب سے محروم ہو جاتا ہے کیوں کہ روزہ رکھنا اپنی جگہ ہے اور گناہ کے کام کرنا اپنی جگہ ۔ ایک نیکی ہے اور دوسری برائی۔ اور قیامت کے دن ہر شخص اپنی چھوٹی بڑی نیکی اور برائی دونوں کا حساب و کتاب دے گا۔ اس مفہوم کو واضح کرنے کے لیے ذیل کی حدیث پر غور کیجیے:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں۔(2)کہ ایک صحابی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور فرمایا کہ میرے پاس کچھ غلام ہیں جو میری بات نہیں مانتے اور میری نا فرمانی کرتے ہیں اور میں انہیں گالم گلوچ کرتا ہوں اور مارتا ہوں قیامت کے دن ان کے ساتھ میرا حساب و کتاب کیسا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ان غلاموں نے تمھاری جتنی نافرمانی اور خیانت کی ہوگی اور تم نے انہیں جتنی سزادی ہو گی ان سب کا حساب کیا جائے گا۔ اگر ان کی نا فرمانی کے مقابلے میں تمھاری سزا کم ہوگی تو یہ تمھارے حق میں بہتر ہو گا۔ اگر ان کی نا فرمانی اور تمھاری سزا برابر ہو گی تو حساب کتاب برابر رہے گا۔ لیکن اگر تمھاری سزا ان کی نافرمانی کے مقابلے میں زیادہ ہو گی تو اسی حساب سے تمھاری بھلائی ان غلاموں کو دے دی جائے گی۔ یہ سن کر وہ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ رونے لگے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" کہ قرآن کی اس آیت کو پڑھو۔"
﴿وَنَضَعُ المَوٰزينَ القِسطَ لِيَومِ القِيـٰمَةِ فَلا تُظلَمُ نَفسٌ شَيـًٔا وَإِن كانَ مِثقالَ حَبَّةٍ مِن خَردَلٍ أَتَينا بِها وَكَفىٰ بِنا حـٰسِبينَ ﴿٤٧﴾... سورة الأنبياء
’’قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازوں رکھ دیں گے پھر کسی شخص پر ذرہ برابر ظلم نہ ہو گا۔ جس نے رائی کے دانے برابر بھی کچھ کیا دھرا ہو گا وہ ہم سامنے لے آئیں گے اور حساب لگانے کے لیے ہم کافی ہیں۔‘‘
یہ سن کر صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمام غلام آزاد کردیے۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب