السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا بیوی یا دوسرے وہ رشتہ دار جن کا نان و نفقہ اس پر واجب ہے ان کو زکوۃ رقم دی جاسکتی ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
فقہاء کا اتفاق ہے کہ بیوی کو زکوۃ کی رقم نہیں دی جا سکتی ۔ کیونکہ بیوی دراصل شوہر کا ایک حصہ اور جزو ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
﴿وَمِن ءايـٰتِهِ أَن خَلَقَ لَكُم مِن أَنفُسِكُم أَزوٰجًا... ﴿٢١﴾... سورةالروم
’’اوراس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمھارے لیے تم ہی سے بیویاں بنائیں۔‘‘
اس آیت سے معلوم ہوا کہ بیوی دراصل شوہر کا ایک جزو ہے۔ اس لیے بیوی کو زکوۃ دینا گویا اپنے کو زکوۃ دینا ہے اور اپنے آپ کو زکوۃ دینا کسی طور جائز نہیں۔ اسی لیے بیوی کو زکوۃ دینا بھی کسی طور جائز نہیں ۔
اسی طرح اپنی اولاد کو بھی زکوۃ کی رقم دینا جائز نہیں ہے ۔ کیونکہ اولاد بھی ماں باپ کا جزو ہوتی ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے۔
"أَوْلادَكُمْ مِنْ كَسْبِكُمْ "
’’تمھای اولاد تمھاری اپنی کمائی ہے۔‘‘
اسی طرح اپنے والدین کو بھی زکوۃ کی رقم دینا جائز نہیں کیوں کہ ہر شخص اپنے والدین کا جزو ہوتا ہے۔ البتہ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ والدین اگر فقیرہیں تو ان کو زکوۃ کی رقم دی جاسکتی ہے۔ میرے نزدیک بھی ایسی صورت میں والدین کو زکوۃ کی رقم دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
البتہ بھائی بہن اگر غریب ہوں تو ان کو زکوۃ کی رقم دی جاسکتی ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ میرے نزدیک زیادہ بہتر رائے یہ ہے کہ بھائی بہن اگر غریب ہوں تو انہیں زکوۃ کی رقم دی جاسکتی ہے کیونکہ غریب بھائی بہن بھی ان فقراؤ مساکین میں شمار کیے جاتے ہیں جن کا تذکرہ زکوۃ والی آیت میں ہے۔
ایسے دوسرے رشتہ دار مثلاً خالہ، پھوپھی،خالہ زاد بھائی بہن اور ماموں وغیرہ تو فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ان کو زکوۃ کی رقم دی جاسکتی ہے۔
بھائی بہن اگر امیر ہوں تو انہیں زکوۃ کی رقم نہیں دی جا سکتی ۔اسی طرح جس طرح کسی بھی دوسرے مالدار کو زکوۃ نہیں دی جا سکتی کیونکہ۔
"لا تحلُّ الصدقة لغنيٍّ، ولا لذي مِرَّةٍ سَوِيٍّ"
کسی مالدار کو زکوۃ دینا جائز نہیں اور نہ کسی صحت مند انسان کو ہی ۔
دوسری حدیث ہے:
"تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ"
زکوۃ مال داروں سے لی جاتی ہے اور غریبوں کی طرف لوٹا دی جاتی ہے۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب