سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(48) کن تجارتوں میں زکوۃ واجب ہے؟

  • 23800
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-16
  • مشاہدات : 724

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اس زمانے میں راس المال یعنی اصل پونجی جسے ہم تجارت میں لگاتے ہیں اس کی مختلف صورتیں ہیں۔ مثلاً:

1۔بعض اصل پونجی متحرک شکل میں ہوتی ہے مثلاً:کاریں پرزے اور ہر وہ تجارتی چیز جو فروخت کی خاطر دکانوں میں رکھی جاتی ہے۔ مثلاً:کپڑے اور کھانے کی چیزیں وغیرہ

2۔بعض پونجی اس نوعیت کی ہوتی ہے کہ اپنی جگہ ثابت ہوتی ہے مثلاً آفس کمپیوٹر اور آفس میں ڈیکوریشن یا ضرورت کی خاطر استعمال کیے جانے والے فرنیچر۔

3۔بعض پونجی جائیدادکی صورت میں ہوتی ہے مثلاً: عمارت اور زمین ۔

4۔بعض پونجی قرضوں کی صورت میں ہوتی ہے اور قرضے بھی مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں بعض کی واپسی ممکن ہوتی ہے خواہ تاخیر سے ہو اور بعض کی واپسی تقریباً ناممکن ہوتی ہے۔

یہ ہیں تجارت میں لگائی گئی پونجی کی چند صورتیں اس دور میں تجارت میں اس قدر تنوع اور توسع آچکا ہے کہ زکوۃ نکالنے والے بعض دفعہ حیران و پریشان رہتے ہیں کہ کس مال میں زکوۃ نکالی جائے اور کس میں نہیں؟ آپ سے تشفی بخش جواب مطلوب ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ نے جس طرح ترتیب وار صورتوں کا تذکرہ کیا ہے میں بھی اسی ترتیب سے جواب دیتا ہوں۔

1۔پہلی صورت یعنی وہ اصل پونجی جو متحرک شکل میں ہوتی ہے۔ مثلاً کاریں جو فروخت کی خاطر ہوتی ہیں یا کپڑے اور جوتے وغیرہ جو دکانوں میں فروخت کی خاطر رکھے جاتے ہیں تو فقہ کی اصطلاح میں نہیں "عروض التجاۃ " کہتے ہیں۔ یعنی وہ تجارتی اشیاء جنہیں فروخت کر کے ان سے نفع کمانا مقصود ہو۔ چونکہ عروض التجارۃ سے نفع کمانا مقصود ہوتا ہے۔ اس لیے اس میں زکوۃ فرض ہے۔

2۔اسی طرح وہ چیزیں جو متحرک نہیں بلکہ ثابت صورت میں ہوتی ہیں مثلاً:آفس ،آفس کا فرنیچر اور کپیوٹر، ٹائپ رائٹر وغیرہ تو انہیں عروض التجارۃ انہیں کہا جا سکتا ۔

کیونہ یہ وہ مال تجارت نہیں جن سے نفع کمانا مقصود ہوتا ہے۔ بلکہ نفع کمانے کے لیے انہیں استعمال کیا جاتا ہے چنانچہ فقہاء کا قول ہے "وہ برتن ، فرنیچر اور الماریاں وغیرہ جن میں تجارتی اشیاء رکھی جاتی ہیں یا جنہیں تجارت میں استعمال کیا جاتا ہے مثلاً ترازووغیرہ تو زکوۃ کی خاطر ان کی قیمت نہیں لگائی جانی چاہیے اور نہ ان پر زکوۃ فرض ہے۔"

3۔جائیداد اگر تجارتی نقطہ نظر سے خریدی جائے اور اسے فروخت کر کے اس سے فائدہ کمانا مقصود ہو تو اس جائیداد کی قیمت لگا کر اس پر زکوۃ نکالنا واجب ہے۔ البتہ اگر زمین خرید کر اس پر کرایہ کی خاطر گھر یادکان بنائی جائے تو اس زمین پر نہیں بلکہ اس کے کرایہ پر زکوۃ ادا کی جائے گی۔

البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ اس صورت میں زکوۃ کی شرح کیا ہو گی؟ ڈھائی فیصد زکوۃ ادا کی جائے گی جیسا کہ عروض التجارۃ میں ہے یا پانچ فیصد جیسا کہ کھیتی کی زمین میں غلے پر زکوۃ ادا کی جاتی ہے۔

4۔رہے قرضے توان سے وہ قرضے کی واپسی ناممکن ہو ان پر زکوۃ فرض نہیں۔ البتہ اگر کسی زمانے میں واپس ہو جائیں تو ان پر ایک سال کی زکوۃ فرض ہے۔ البتہ وہ قرض جن کی واپسی عین ممکن ہو تو انہیں اپنی ملکیت تصور کر کے ان پر زکوۃ ادا کی جائے گی۔

تجارت کی ایک صورت اور بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی کمپنی کی ایجنسی لےلی جائے اور اپنی ایجنسی میں کمپنی کا سامان فروخت کی خاطر رکھا جائے۔ اس سامان کا حکم یہ ہے کہ اس کی حیثیت امانت کی سی ہوتی ہے۔ یہ سامان کمپنیوں کی طرف سے بطور امانت ایجنسیوں میں رکھے جاتے ہیں اس لیے ان پر زکوۃ فرض نہیں ہے۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

زکوۃ اور صدقات،جلد:1،صفحہ:149

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ