سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(47) جماعت کے پیچھے تنہا نماز کا حکم

  • 23799
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-21
  • مشاہدات : 663

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مقتدی اگر جماعت میں سب سے پیچھے نماز ادا کرے تو کیا اس کی نماز صحیح ہو گی۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

امام احمد  رحمۃ اللہ علیہ  اور ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ  کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک شخص کو جماعت میں سب سے پیچھے تنہا نماز پڑھتے دیکھا۔ جب وہ شخص جانے لگا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ اپنی نماز کا اعادہ کرو کیونکہ تنہا پیچھے نماز پڑھنے والے کی نماز نہیں ہوتی ہے۔

امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  کی ایک دوسری روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے کسی نے اس شخص کی نماز کے بارے میں دریافت کیا جو جماعت میں سب سے پیچھے نماز پڑھتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:" کہ اسے اپنی نماز کو اعادہ کرنا چاہیے۔

یہ دونوں حدیثیں صحیح ہیں۔ ان کے علاوہ بھی دوسری صحیح احادیث ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت میں سب سے پیچھے تنہا نماز پڑھنے والے کی نماز صحیح نہیں ہوتی ہے۔ چنانچہ سلف صالحین اور احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ  کا یہی مسلک ہے۔ البتہ ان کے علاوہ تینوں آئمہ یعنی امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  کا مسلک یہ ہے کہ اس کی نماز ادا ہوجائے گی مگر کراہت کے ساتھ۔

مذکوراحادیث کی روشنی میں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ  کا مسلک زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔حکمت اور اسلامی تعلیمات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ تنہا نماز پڑھنے والے کی نماز قبول نہ ہو کیونکہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو اتحاد کی تعلیم دیتا ہے جماعت کی رغبت دیتا ہے ۔ جماعت سے کٹ کر رہنااور شذوذکا راستہ اختیار کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔

جماعت کے ساتھ نماز کی ادائیگی دراصل مسلمانوں کو اتحاد و اتفاق سکھانے کی عملی تربیت ہے۔ اب ظاہر ہے جو شخص اتحاد و جماعت کا راستہ چھوڑ کر شذوذ انفرادیت کا راستہ اختیار کرے گا تو اس کا یہ عمل اسلامی تعلیمات کے عین خلاف ہے اور اس لیے قرین قیاس یہی ہےکہ اس کی نماز قبول نہیں ہو گی۔

بہر حال یہ حکم اس حال میں ہے جب کوئی شخص بے عذر اور بغیر کسی سبب کے جماعت میں سب سے پیچھے تنہا نماز ادا کرے ۔ البتہ اگر کسی عذر کی بنا پر ایسا کرتا ہے مثلاً یہ کہ صف مکمل ہو چکی ہو اور کوئی جگہ نہ ہو اور مجبوراً پیچھے تنہا ہی نماز ادا کرتا ہے تو اس صورت میں اس کی نماز صحیح ہو گی ۔ بعض علماءکہتے ہیں کہ ایسی صورت میں یہ بہتر ہو گا کہ وہ اگلی صف سے کسی شخص کو کھینچ کر پیچھے اپنے برابر میں کر لے تاکہ اس صف میں ایک کے بجائے دو ہوجائیں۔ مگر بعض علماء یہ بھی کہتے ہیں کہ اس اگلی صف سے کسی نمازی کو کھینچ کر پیچھے کرنا اس پر ظلم کرنا ہے اور اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے۔

 

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

طہارت اور نماز،جلد:1،صفحہ:146

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ