السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں کسی دوست سے غسل جنابت کی حکمت پر تبادلہ خیال کررہا تھا۔ اس کے جواب نے مجھے حیرت زدہ کر دیا۔ وہ کہنے لگا کہ بیوی سے مباشرت کے بعد سارا جسم دھونے اور غسل کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہی وجہ ہے کہ وہ صرف عضو تناسل کو دھونے پر ہی اکتفا کرتا ہے میں نے اسے قائل کرنا چاہا لیکن اس کی تشفی نہیں ہوئی ۔ آپ سے تشفی بخش جواب مطلوب ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جنابت کے بعد غسل کرنا ایک اسلامی فریضہ ہے یہ قرآن و سنت سے ثابت ہے اور تمام امت اس پر متفق ہے۔ قرآن میں اللہ کا حکم ہے۔
﴿ وَإِن كُنتُم جُنُبًا فَاطَّهَّروا...﴿٦﴾... سورةالمائدة
’’اگر جنابت کی حالت میں ہو تو نہا کر پاک ہو جاؤ۔
متعدد صحیح احادیث سے بھی غسل کی فرضیت ثابت ہے۔تمام علماء و فقہاء اس کی فرضیت پر متفق ہیں۔ ان سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کسی نے اس کی فرضیت کا انکار کیا تو وہ اسلام کے دائرے سے خارج شمار کیا جائے گا کیونکہ اس کی فرضیت کا انکار درحقیقت قرآن وسنت کی تکذیب ہے۔
اب رہا سوال اس کی حکمت کا۔ فرض کیجیے ایک ڈاکٹر اپنے مریض کے لیے دوائیں تجویز کرتا ہے۔ دوگولیاں کھانے سے قبل اور دو کھانے کے بعد دو چمچی صبح اور دو چمچی شام کیا مریض کا ڈاکٹر سے یہ سوال کرنا ضروری ہے کہ فلاں دو اور دو چمچی کیوں لینی ہے تین کیوں نہیں ؟اور فلاں کھانے سے قبل کیوں کھانی ہے بعد میں کیوں نہیں؟ اگر ڈاکٹر مریض کو اس کی علت و حکمت بتا دیتا ہے تب بھی یہ طبی باریکیاں کیسے مریض کی سمجھ میں آسکتی ہیں؟ اس کی صحیح حکمت و مصلحت تو صرف ایک تجربہ کا رڈاکٹر ہی سمجھ سکتا ہے۔
یہی مثال پیش کرنا چاہوں گا۔ ان سب کے لیے جو شرعی احکام وعبادات کی حکمت کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے بقول ساری عبادتیں انسانی دل کے لیے دوا کی مانند ہیں۔ انسان کو غفلت غرور اور بھول چوک کے مرض سے شفا بخشنے کے لیے۔ یہ اللہ کا حق ہے کہ ان میں سے جس دوا کی حکمت چاہے اپنے بندوں پر ظاہر کرے اور جس کی حکمت چاہے پوشیدہ رکھےبندے کو اس بات پر مکمل یقین ہو نا چاہیے کہ اللہ نے جو دوائیں تجویز کی ہیں وہ ساری کی ساری اس کی بہبود اور بھلائی کے لیے ہیں۔
﴿ وَاللَّهُ يَعلَمُ المُفسِدَ مِنَ المُصلِحِ...﴿٢٢٠﴾... سورة البقرة
’’برے اور بھلے دونوں کے بارے میں اللہ جانتا ہے۔
کتنے ہی ایسے شرعی احکام ہیں جن کی حکمت و غایت قرون اولیٰ میں پوشیدہ تھی۔بعد کے وقتوں میں سائنسی ترقی نے ان کی حکمت و غایت سے لوگوں کو آگاہ کیا۔
عبادات اور شرعی احکام کی روح یہی ہے کہ انہیں اللہ کے حکم کے مطابق انجام دیا جائے چاہے ہم ان کی حکمت سے واقف ہوں یا نہ ہوں۔ بندے کو ہر حال میں اپنے رب کی اطاعت کرنی چاہیے اگر انسان صرف انہیں چیزوں میں اپنے رب کی اطاعت کرے جن میں اس کی محدودعقل مطمئن ہوتو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اپنی عقل کا بندہ ہے اپنے رب کا نہیں ۔
ویسے آپ غور کریں تو غسل جنابت حکمت و مصلحت سے خالی نہیں۔ اس کا فوری فائدہ یہ ہے کہ جنابت کے بعد جسم میں جو کاہلی سستی اور کمزوری لاحق ہوتی ہے وہ غسل کرنے سے جاتی رہتی ہے اور اس کی جگہ طاقت اور چستی آجاتی ہے۔ پیشاب اگرچہ اس راستہ سے نکلتا ہے جس راستہ سے منی آتی ہے لیکن پیشاب کرنے کے بعد جسم میں نہ کمزوری کا احساس ہوتا ہے نہ سستی کا۔ بلکہ اس کے برعکس آرام ملتا ہے۔ علامہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ منی چونکہ سارے بدن سے نکلتی ہے اس لیے اس میں سارا بدن دھونے یعنی غسل کرنے کا حکم ہے۔ اس کے برعکس پیشاب میں بھی اسی طرح نہانے کا حکم ہوتا جس طرح جنابت میں ہے تو یہ حکم بندوں کے لیے کس قدر باعث مشقت ہوتا ۔ پیشاب کے برعکس جنابت ایسا عارضہ ہے جو کبھی کبھی لاحق ہوتا ہے اور اس حالت میں غسل کرنا بہت زیادہ باعث مشقت نہیں۔اگر تھوڑی مشقت ہے بھی تو اس کی حکمت یہ ہے کہ بندہ جلدی جلدی اس فعل کی طرف نفسیاتی طور سے آمادہ نہ ہو اور جنسی تعلقات میں اسراف سے کام نہ لے۔
مجھے غسل جنابت میں ایک حکمت اور نظر آتی ہے۔ مومن کو صرف اپنی خواہشوں کی خاطر زندہ نہیں رہنا چاہیے ۔ ہر کام میں اس پر اللہ کا بھی حق ہے۔بیوی سے مباشرت کر کے اس نے اپنے نفس اور بیوی کا حق ادا کر دیا۔ اب اسے اللہ کا حق ادا کرنا ہے اور یہ حق غسل کر کے ادا ہو سکتا ہے کیونکہ اللہ نے اس کا حکم دیا ہے۔
غسل جنابت میں حکمت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اللہ نے بندوں کو مختلف بہانوں سے نظافت اور پاکی کی ترغیب دی ہے۔مثلاً ہوا خارج ہو تو وضو کا حکم ۔ پانچوں اوقات میں وضو کرنے کا حکم اور اسی طرح جنابت لاحق ہو تو غسل کرنے کا حکم ۔ اسی لیے اللہ فرماتا ہے:
﴿وَلـٰكِن يُريدُ لِيُطَهِّرَكُم وَلِيُتِمَّ نِعمَتَهُ عَلَيكُم لَعَلَّكُم تَشكُرونَ ﴿٦﴾... سورة المائدة
’’مگر وہ چاہتا ہے کہ تمھیں پاک کرے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردے۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب