سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(33) وضو کی مسنون دعائیں

  • 23785
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 3059

سوال

(33) وضو کی مسنون دعائیں

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض حضرات وضو کے دوران کچھ خاص دعائیں پڑھتے ہیں۔ شرعاً ان دعاؤں کی کیا حیثیت ہے؟ کیا ن دعاؤں کے بغیر وضو نہیں ہوتا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بہت سارے لوگ اس قسم کی دعاؤں کو واجب سمجھتے ہیں۔ ان کا اعتقاد ہے۔کہ ان دعاؤں کے بغیر وضو نہیں ہوتا۔ میں نے ایک شخص سے دریافت کیا کہ آپ نماز کیوں نہیں پڑھتے ؟انھوں نے جواب دیا کہ انہیں وضو کرنا نہیں آتا۔ میں نے کہا تعجب ہے کہ آپ کو وضو کرنا نہیں آتا۔ کیا کوئی ایسا بھی شخص ہو سکتا ہے جو منہ دھونا ہاتھ دھونا، سر پر ہاتھ پھیرنا اور پیر دھونا جانتا ہو؟ فرمانے لگے کہ یہ سب تو آتا ہے لیکن مجھے وضو کی دعائیں یاد نہیں ہیں۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ ان دعاؤں کے بغیر وضو ہوتا ہی نہیں ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے اس قسم کی دعاؤں کی کوئی روایت نہیں ملتی۔ البتہ صرف  ایک دعا ہے، جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پڑھتے تھے۔بعض لوگوں کے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ وسلم  یہ دعا وضو کے دوران پڑھتے تھے اور بعض کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا وضو کے بعد پڑھتے تھے۔ دعا یہ ہے۔

"اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ذَنْبِي، وَوَسِّعْ لِي فِي دَارِي، وَبَارِكْ لِي فِي رِزْقِي" (نسائی)

’’اے اللہ میرے گناہ معاف فرما میرے گھر میں وسعت عطا فرما اور میرے رزق میں برکت عطا فرما۔

وضو سے فراغت کے بعد یہ دعا پڑھتے ہیں۔

"أَشْهَدُ أَنَّ لاَ إِلٰهَ إِلاَّ الله وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ"

’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  اللہ کے بندےاور اس کے رسول ہیں۔

ان دعاؤں کی شرعی حیثیت صرف یہ ہے کہ یہ سنت ہیں۔ کوئی دعا ایسی نہیں جس کا وضو میں پڑھنا واجب ہو۔ جن دعاؤں کا ورد عام طور پر وضو میں کرتے ہیں ان کی ابتدا حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے بعد ہوئی ہے۔ وضو ایک عبادت ہے اور عبادت میں ایسا عمل شامل کرنا ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت نہیں ،سراسربدعت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی حدیث ہے:

"إِيَّاكُمْ وَالأُمُورَ الْمُحْدَثَاتِ فَإِنَّ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ ‏" (ابو داؤد ،ترمذی ،حسن صحیح)

’’خبردار(دین میں) نئی نئی ایجاد کی گئی باتوں سے کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے۔

ہر عبادت میں دو باتوں کا خیال رکھنا چاہیے اور یہی دو شرطیں ہیں ان عبادات کے قبول ہونے کی:

1۔پہلی شرط تو یہ ہے عبادت صرف اللہ کے لیے ہو کسی کو اس میں شریک نہ کیا جائے اور

2۔دوسری یہ کہ عبادت اسی طرح ادا کی جائے جس طرح شریعت نے ہمیں بتایا ہے۔ اس میں اپنی طرف سے کمی یا بیشی کرنا عبادت کی روح کے منافی ہے۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

طہارت اور نماز،جلد:1،صفحہ:123

محدث فتویٰ

تبصرے