سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(32) نماز نہ پڑھنے والے کا شرعی حکم

  • 23784
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 5741

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص ہے جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے ،لیکن نہ وہ نماز پڑھتا ہے اور نہ روزے رکھتا ہے، کیا اسے مسلمان کہنا صحیح ہے ؟ کیا مرنے کے بعد اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس شخص کے بارے میں آپ کی رائے کیاہے،جسے حکومت یا کسی کمپنی نے نوکری پر رکھا ہو، اسے اس کی نوکری کے صلے میں تنخواہ ملتی ہو، وہ حکومت کے سامنے اپنے فرائض منصبی کے بارے میں جواب دہ بھی ہو ، لیکن وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی برتتا ہے۔ بھلا چنگا ہونے کے باوجود اپنی ڈیوٹی سے غائب رہتا ہے؟ کسی کمپنی کے سامنے اگر یہ مسئلہ پیش کیا جائے تو کچھ لوگ اس کی سزا یہ مقرر کریں گے کہ اسے نوکری سے فی الفوربرخاست کر دیا جائے۔جبکہ کچھ لوگ جرمانے وغیرہ کی سزا مقرر کریں گے اور وہ ایسی سزا مقرر کرنے میں حق بہ جانب ہوں گے۔

اسلام کا بھی نماز نہ پڑھنے والے کے ساتھ یہی موقف ہے۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ چونکہ اللہ کی عبادت ہی مسلمانوں کا اولین فرض ہے۔ اس لیے نماز ترک کرنے والا لازمی طور پر اسلام کے دائرے سے خارج قراردیا جائے گا۔بعض علماء کے نزدیک نماز ترک کرنے والا اگر نماز کی فرضیت سے منکر ہے اور فریضہ نماز کی تضحیک کرتا ہے تو ایسا شخص دائرہ اسلام سے خارج تصور کیا جائے گا۔ لیکن اگر وہ نماز کی فرضیت کا قائل ہے اور محض  سستی اور کاہلی کی بنا پر نماز نہیں پڑھتا تو وہ خارج از اسلام نہیں ہو گا۔ نماز کا مذاق اڑانے والوں کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

﴿وَإِذا نادَيتُم إِلَى الصَّلو‌ٰةِ اتَّخَذوها هُزُوًا وَلَعِبًا ذ‌ٰلِكَ بِأَنَّهُم قَومٌ لا يَعقِلونَ ﴿٥٨﴾... سورة المائدة

’’جب تم نماز کے لیے منادی کرتے ہو تو وہ اس کا مذاق اڑاتے اور کھیلتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عقل نہیں رکھتے۔

اس آیت سے ان لوگوں کی پوزیشن کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جو نماز روزے اور دوسری عبادات کو پسماندگی اورپھپڑےپن کی علامت  سمجھتے ہیں اور اللہ کی عبادت کرنے والوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام علماء فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نماز یا دوسرے ارکان اسلام کا مذاق اڑانے والا ان کی فرضیت سے انکار کرنے والا اسلام سے خارج تصور کیا جائے گا۔ درج ذیل حدیث اس رائے کی تائید کرتی ہے:

"بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الْكُفْرِ تَرْكُ الصَّلَاةِ

’’آدمی اور کفر کے درمیان نماز ترک کرنا ہے۔

البتہ جو شخص محض سستی اور کاہلی یا اپنی دنیوی مصروفیات کی وجہ سے نماز نہیں پڑھتا ہے اور اسے اپنی غلطی کا احساس بھی ہے تو اس کے بارے میں فقہاء کے درج ذیل اقوال ہیں:

1۔ احناف کے نزدیک اسے فاسق سمجھا جائے گا اور اس وقت تک اسے مارا جائے گا۔جب تک وہ نماز نہ پڑھنے لگے۔ اور ضرورت ہوئی تو اسے قید بھی کیا جا سکتا ہے۔

2۔امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں کہ وہ فاسق ہے کافر نہیں۔ لیکن اگر وہ نماز یں چھوڑنے پر مصر ہے تو اسے مارنا پیٹنا یا قید کرنا کافی نہیں ہے، بلکہ اسے قتل کر دیا جائے گا۔

3۔امام احمد  رحمۃ اللہ علیہ  کے نزدیک اسے مرتد تصور کیا جائے گا۔ اس لیے اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا۔اوراگر وہ توبہ نہیں کرتا ہے تو اس کی گردن مار دی جائے گی۔

قرآن و حدیث کی دلیلیں امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  کی رائے کی تائید کرتی ہیں  اور میرے نزدیک بھی یہی راجح قول ہے۔ قرآن و حدیث سے چند دلائل درج ذیل سطور میں پیش کرتا ہوں:

1۔ قرآن  نے ترک صلاۃ کو کفار کی خصلت بتایا ہے۔ قرآن کہتا ہے:

﴿وَإِذا قيلَ لَهُمُ اركَعوا لا يَركَعونَ ﴿٤٨﴾... سورة المرسلات

’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے آگے جھکو تو نہیں جھکتے۔

سورۃ توبہ میں ہے۔

﴿فَإِن تابوا وَأَقامُوا الصَّلو‌ٰةَ وَءاتَوُا الزَّكو‌ٰةَ فَخَلّوا سَبيلَهُم ... ﴿٥﴾... سورة التوبة

"پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں تو انہیں چھوڑدو۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ جنگ نہ کرنے کی شرط شرک سے توبہ کرنا ہی نہیں بلکہ نماز کی ادائیگی بھی ہے۔

سورۃ المدثر میں ہے:

﴿ما سَلَكَكُم فى سَقَرَ ﴿٤٢﴾... سورة المدثر

’’یعنی جنتی دوزخیوں سے یہ پوچھیں گے کہ کیا چیز تمھیں جہنم میں لے کر آئی۔

تو دوزخی جواب دیں گے:

﴿قالوا لَم نَكُ مِنَ المُصَلّينَ ﴿٤٣﴾... سورةالمدثر

وہ کہیں گے ہم نمازیوں میں سے نہیں تھے۔

2۔حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے۔

"بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الْكُفْرِ تَرْكُ الصَّلَاةِ

’’بندے اور کفر کے درمیان نماز کا ترک کرنا ہے۔

ایک دوسری حدیث میں ہے:

"الْعَهْدُ الَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ تَرْكُ الصَّلاةِ ، فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ " (بخاری ،مسلم ، ترمذی)  

ہمارے اور ان کے درمیان نماز کا معاہدہ ہے۔ جس نے نماز چھوڑ دی اس نے کفر کیا۔

ایک اور حدیث میں ہے:

"مَنْ تَرَكَ صَلَاةَ الْعَصْرِ حَبِطَ عَمَلُهُ" (بخاری ،مسند احمد، نسائی)

جس نے عصر کی نماز چھوڑدی اس کے سارے اعمال بر باد ہو گئے۔

صرف ایک وقت کی نماز ترک کرنے سے اچھے اعمال بر باد ہو جاتے ہیں تو اس شخص کی کیا سزا ہو گی جس نے تمام نماز یں چھوڑدیں۔

ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان لوگوں کے گھروں کو آگ لگانے کی خواہش ظاہر کی جو باجماعت نماز ادا نہیں کرتے ۔ اس شخص کا جرم تو اور بھی بھیانک ہے جو سرے سے نماز ہی نہیں پڑھتا۔

صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  بھی ترک نماز کو کفر گردانتے تھے۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے ’’جس نے نماز نہیں پڑھی وہ کافر ہے۔‘‘ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کہتے تھے کہ’’جس نے نماز چھوڑ دی وہ کافر ہو گیا۔‘‘عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  جابر بن عبداللہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور ابو الدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے بھی اسی قسم کے اقوال مروی ہیں۔

ان سب دلیلوں سے واضح ہوتا ہے کہ نماز چھوڑنے والا کافر ہے۔اگر اسے کافر نہ بھی مانیں تو کم ازکم اس کا فاسق ہونا تو بہ ہر حال متفق علیہ ہے۔ اس لیے ہر نماز چھوڑ نے والے کو چاہیے کہ اپنا محاسبہ کرے۔ توبہ کرے اور اللہ کی طرف رجوع کرے۔

علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ نماز نہ پڑھنے والے کو نہ سلام کرنا چاہیے اور نہ اس کے سلام کا جواب دینا چاہیے اس سے اپنی بیٹی کی شادی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ درحقیقت وہ مسلمان ہے ہی نہیں۔

شریعت نے بھی نماز کو کسی حالت میں معاف نہیں کیا ہے۔ خواہ کسی بھی قسم کا عذر ہو۔ پانی نہ ہو تو تیمم کر لے، اگر مریض ہے اور کھڑا نہیں ہو سکتا تو بیٹھ یا لیٹ کر نماز پڑھے حتی کہ اگر قادر نہ ہو تو محض اشارہ سے نماز ادا کرے۔ لیکن چھوڑنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں۔

رہا یہ مسئلہ کہ اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی یا نہیں؟ تو جن لوگوں نے تارک نماز کو محض فاسق قرار دیا ہے کافر نہیں ان کے نزدیک اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔ اور جن لوگوں نے اسے کافر قراردیا ہے ان کے نزدیک اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔

یہ امر ملحوظ رہے کہ جن لوگوں نے اسے کافر قراردیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ تارک نماز کو اسی وقت سوسائٹی میں کافر سمجھا جائے گا یا اس سے کافروں جیسا معاملہ کیا جائے گا، جب امام وقت یا قاضی اسے نماز پڑھنے کو کہے اور وہ انکار کر دے۔ اس سے قبل ہم اس سے کافروں جیسا معاملہ نہیں کر سکتے۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

طہارت اور نماز،جلد:1،صفحہ:119

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ