السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرے ہاتھوں میں ایک پمفلٹ ہے۔اس کی عبارتیں پڑھ کر میں حیرت زدہ رہ گیا۔آپ مجھےبتائیں کہ کیا یہ باتیں صحیح ہیں یا گھڑی ہوئی ہیں۔اس پمفلٹ میں الشیخ احمد جوحرم نبی کی کنجیوں کےمحافظ ہیں ان کی وصیت درج ہے۔اس وصیت میں تمام مشرق ومغرب کے مسلمانوں کے لیے متعدد پند ونصائح ہیں اور آخر میں یہ درج ہے کہ بمبئی میں فلاں شخص نے اس وصیت کو شائع کراکر لوگوں میں مفت تقسیم کرایا تو اللہ نے اسے پچیس ہزار روپے بخشے۔ایک دوسرے شخص نے اسے مفت تقسیم کرایا تو اسے چھ ہزارروپیوں کا فائدہ ہوا۔ایک شخص نے اسے جھٹلایا تو اسی دن اپنے بیٹے سے ہاتھ دھو بیٹھا آخر میں یہ لکھا ہے کہ جس شخص نے اس پمفلٹ کو پڑھا اور اسے شائع کراکرلوگوں میں تقسیم نہیں کرایا تو وہ بڑی بڑی مصیبتوں میں گرفتار ہوجائے گا۔آپ کی اس وصیت کے بارے میں کیا ر ائے ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس وصیت کے بارے میں متعدد افراد نے بار بار سوال کیاہے،یہ کوئی نئی شعبدہ بازی نہیں ہے۔بلکہ سالوں قبل بھی میں نے اسی قسم کی وصیت پڑھی تھی اور اس میں بھی یہ وصیت اسی الشیخ احمد محافظ حرم نبوی کی طرف منسوب تھی۔میں نے مدینہ منورہ جاکر متعدد لوگوں سے الشیخ احمد کے بارے میں دریافت کیا،کون تھے یا کہاں رہتے تھے؟لیکن کسی کو بھی ان شیخ کی خبر نہیں ہے۔کوئی بھی اس نام کے شیخ کو نہیں جانتا۔حیرت کی بات ہے کہ مدینے میں تو اس شیخ سے کوئی واقف نہیں لیکن اس سے منسوب وصیتیں ان علاقوں سے نشر ہورہی ہیں جہاں بدعتیں یاگمراہیاں عام ہیں یعنی ہندوستان۔اس وصیت کو پڑھ کر کوئی بھی صاحب نظر سمجھ سکتا ہے کہ یہ من گھڑت ہے۔مثال کے طور پر اس میں پیشن گوئی ہے کہ قیامت بہت قریب ہے۔یہ تو کوئی نئی بات نہیں ہے۔قرآن میں اللہ تعالیٰ پہلے ہی میں اس سے متنبہ کرچکا ہے:
﴿لَعَلَّ السّاعَةَ تَكونُ قَريبًا ﴿٦٣﴾... سورة الاحزاب
’’شاید کہ وہ(قیامت کی گھڑی) قریب ہی آگئی ہو‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی فرماچکے ہیں کہ:
"بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ كَهَاتَيْنِ "(بخاري ومسلم به روايت انس رضي الله تعاليٰ عنه)
’’اپنی شہادت کی اُنگلی اور بیچ کی اُنگلی کو یکجا کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) میں اور قیامت ان دونوں انگلیوں کی طرح قریب قریب بھیجے گئے ہیں‘‘
ان صراحتوں کے بعد اس کی چنداں ضرورت نہیں تھی کہ اللہ کسی شیخ کو خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کرائے اور ان کی زبانی لوگوں کی یاددہانی کرائے۔یاددہانی کے لیے اب کوئی رسول اور نبی نہیں آئے گا۔اب صرف قرآن اور سنت ہی قیامت تک کے لیے ہدایت کا سرچشمہ ہیں۔
اللہ فرماتا ہے:
﴿اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى ...﴿٣﴾... سورة المائدة
’’آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے‘‘
ان تصریحات کے بعد اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ اب بھی تذکیر کے لیے کسی شیخ کی وصیت ضروری ہے تو اس نے دین اسلام کو سمجھا ہی نہیں۔
اس وصیت میں لوگوں کو دھمکی دی گئی ہے کہ اگرانہوں نے اسے شائع کراکر لوگوں میں تقسیم نہیں کرایا تو وہ مصیبتوں میں گرفتار ہوجائیں گے۔حالاں کہ قرآن اور حدیث کے بارے میں بھی کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ پڑھنے کے بعد شائع کراکر لوگوں میں مفت تقسیم نہ کرنے والا مصیبتوں میں گرفتار ہوجائے گا۔تو کیانعوذ باللہ اس وصیت کی اہمیت قرآن وحدیث سے بھی بڑھ کر ہے؟
پمفلٹ میں اس بات کا دعویٰ کہ تقسیم کرانے والوں کو روپے پیسوں کا فائدہ پہنچا کردراصل کم فہم مسلمانوں کو صراط مستقیم سے دور لے جانے کا آسان نسخہ ہے۔اللہ تعالیٰ نے رزق حاصل کرنے کے جو طریقے مقرر کیے ہیں انہیں طریقوں سے ساری دنیا رزق کماتی ہے۔خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی رزق کمانے کےلیے انہیں طریقوں کو اختیار کیا۔ان طریقوں سے ہٹ کر جس طریقے کی دعوت اس پمفلٹ میں دی گئی ہے،ظاہر ہے وہ لوگوں کو اپاہج بنانے والا ہے۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب