سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(30) شیطانی وسوسہ

  • 23782
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 978

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک عرصہ سے میرے دل میں ایک شیطانی وسوسہ بیٹھ گیا ہے۔مجھے اللہ تعالیٰ کے عدل وانصاف پر شک ہونے لگا ہے۔میں بار بار اپنے دل سے پوچھتا ہوں۔ایسا کیوں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ لوگوں کو انتہائی امیر اور کچھ لوگوں کو انتہائی غریب بنایا ہے۔

اگر سب برابر ہوتے تو کیا اچھا نہ ہوتا؟اس شیطانی وسوسے کی وجہ سے میری نمازیں چھوٹ گئی ہیں۔ان وسوسوں سے نجات پانے میں ہماری رہنمائی فرمائیے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہر مؤمن کے ساتھ ایسا لمحہ آتا ہے،جب شیطان اسے بہکاتااور ورغلاتا ہے۔اسے وسوسوں میں مبتلا کردیتا ہے اور جن کا ایمان پختہ ہوتا ہے وہ جلد ہی ان وساوس سے نجات حاصل کرلیتے ہیں۔آپ نے جن وسوسوں کا تذکرہ کیا ہے وہ دراصل دو بڑی غلط فہمیوں پر مبنی ہیں۔

1۔پہلی غلطی یہ ہے کہ آپ نے دنیوی مال ودولت ہی کو سب کچھ سمجھ لیاہے۔آپ کا عقیدہ ہے کہ مال ودولت ہی سب سے بڑی نعمت ہے۔آپ کو جاننا چاہیے کہ انسان کی زندگی میں مال ودولت ہی سب کچھ نہیں ہے۔کتنے پیسے والے ایسے ہیں جنہیں مختلف بیماریوں نے گھیر رکھا ہے،اپنے پیسوں سے وہ صحت نہیں خرید سکتے۔مال ودولت کے انبار کے باوجود ذہانت کی نعمت سے محروم ہوتے ہیں یا اولاد جیسی نعمت کے لیے ترستے رہتے ہیں۔ اولاد ہوتی بھی ہے تو ناکارہ نکل جاتی ہے۔کتنے ایسے ہیں جوغریبوں کی طرح پیٹ بھر کر کھانا چاہتے ہیں۔لیکن وہ اپنے پیسوں سے بھوک نہیں خرید سکتے۔بھوک ہے تو موٹاپےکےخوف سے پیٹ بھر کر نہیں کھاسکتے۔مان لیجئے وہ پیٹ بھر کر کھاسکتے ہیں لیکن کتنا کھائیں گے؟کیا اپنے پیٹ میں زمین وآسمان کو سمولیں گے؟کیا اپنی دولت کے قبر میں ساتھ لے کر جائیں گے؟اس پر مستزاد یہ کہ جس کے پاس جتنی دولت ہوگی اتنا ہی قیامت کے دن اس کا حساب کتاب بھی ہوگا۔حدیث شریف میں ہے کہ قیامت کے دن بندہ اس وقت تک اپنی جگہ سے نہیں ٹل سکے گا جب تک کہ اسے چار چیزیں نہ پوچھ لی جائیں۔ان میں سے ایک سوال یہ ہوگا کہ جو دولت تمہیں عطا کی گئی تھی وہ کیسے کمائی اور کہاں خرچ کی۔

معلوم ہواکہ مال ودولت ہی سب کچھ نہیں ہے۔اس کے علاوہ بھی دنیا میں ہزارہا نعمتیں ایسی ہیں جو اس سے قیمتی ہیں۔اب آپ ذرا خود پر غور کیجئے کہ جو قوت بینائی آپ کو عطا کی گئی ہے کیا لاکھ دو لاکھ کے عوض آپ اسے فروخت کرسکتے ہیں؟یہ جو قوت سماعت آپ کو ملی ہے اسے سونے چاندی کے بدلےآپ فروخت کرسکتے ہیں؟غرض کہ ہاتھ،کان،ناک،پاؤں اور دوسرے سارے اعضاء اللہ کی وہ نعمتیں ہیں،جن کا بدل سونا چاندی نہیں ہوسکتے ہیں۔اللہ فرماتا ہے:

﴿وَإِن تَعُدّوا نِعمَتَ اللَّهِ لا تُحصوها ...﴿٣٤﴾... سورة ابراهيم

’’اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرناچاہوتو نہیں کرسکتے‘‘

ہر چیز کومادیت کو نظر سے دیکھنا انسان کی بہت بڑی غلطی ہے۔

2۔دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ آپ نے یہ سمجھ لیا کہ اللہ کے عدل وانصاف کا تقاضا یہ تھاکہ سارے انسان مال ودولت میں برابر ہوتے۔

بخدا برابری میں کوئی حکمت نہیں ہے۔حکمت تو اس میں پوشیدہ ہے کہ سب برابر نہ ہوں تاکہ انسانوں کی آزمائش ہوسکےاورمعلوم ہوسکے کہ کون شکر گزار ہے اورکون ناشکرا۔کون مصیبت کی گھڑی میں صبر کرتا ہے اور کون صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑدیتا ہے۔

اللہ نے جو یہ زمین وآسمان پیدا کیے۔ہماری تخلیق کی تو کیا یہ سب کچھ یونہی بلامقصد کیا؟کیا ہمیں صرف اسی لیے بنایا ہے کہ ہم سب کھائیں پئیں اورمرجائیں؟اگر اسب کوبرابر پیدا کرناہوتاتو اللہ تعالیٰ یہ بھی کرسکتاتھا کہ انسان کو بغیر پیٹ کے پیدا کرتا۔ہمیں لباس کی ضرورت ہوتی نہ سرچھپانے کے لیے گھر کی۔پھر تو امیر وغریب کاکوئی جھگڑا ہی نہ ہوتا۔لیکن نہیں۔حکمت ومصلحت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کے ساتھ انسانی ضروریات بھی پیدا کی جائیں۔آزمائش کی خاطر انسانوں میں فرق بھی رکھا جائے۔اگر کوئی احسان وبھلائی کرنے والا ہے تو کوئی ایسا بھی ہو جس کے ساتھ وہ  بھلائی کرے۔اگر کوئی صبر کرنے والا ہے تو کوئی ایسا بھی ہوجسے دیکھ کر وہ صبر کرے۔اگر سب برابر ہوتے تو اس زندگی میں کوئی مزہ نہ ہوتا۔کوئی بھاگ دوڑ اور گہماگہمی نہ ہوتی۔ساری رونق حیات مفقود درہتی۔دن اور روشنی  کی اہمیت ومنفعت کا احساس ہمیں اسی لیے تو ہے کہ ان کے ساتھ رات اور تاریکی بھی پیدا کی گئی ہے۔اگر تاریکی نہ ہوتی تو روشنی کا ہمیں کیا احساس ہوتا؟

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ہم انسان خدا کی حکمت کا تعین کیسے کرسکتے ہیں؟ایک بیمار شخص رات بھر درد سے تڑپتا ہے اور چاہتا ہے کہ درد بھری رات منٹوں میں ختم ہوجائے،دوسری طرف شب زفاف کی رنگینیوں میں مگن شادی شدہ جوڑا یہ تمنا کرتا ہے کہ یہ رات کبھی ختم نہ ہو۔اب آپ بتائیں کہ خدا کس کس کی سنے؟کس عمل میں حکمت پوشیدہ ہے؟حق تو یہ ہے  کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو ایک نظام کے تحت پیدا کیا ہے۔اس کی حکمت وہی بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے۔

یہاں پر ایک قصے کا بیان قرین سیاق معلوم ہوتا ہے۔

ایک باغ میں باپ بیٹے محو گفتگو تھے۔بیٹے نے باپ سے کہا کہ ہمیں تو اس میں اللہ کی کوئی حکمت نظر نہیں آتی کہ کھجور ایسے ننھے پھل کو ایک بڑے مضبوط درخت میں پیدا کیا اور تربوز ایسے بھاری بھرکم پھل کو کمزورسی بیلوں میں جنم دیا کہ یہ بیلیں زمین سے اوپر نہیں جاسکتیں۔باپ نے کہا کہ اس میں بھی اللہ کی کوئی مصلحت ہوگی لیکن ہم انسان نہیں سمجھ سکتے۔تھوڑی دیر کے بعد دونوں سوگئے۔اسی دوران ایک کھجور ٹوٹ کر بیتے کےسرپر آگری۔بیٹے کی آنکھ کھل گئی۔اس نے بتایا کہ کھجور کی وجہ سے اس کی آنکھ کھل گئی۔باپ نے کہاکہ خدا کا شکر ادا کرو کہ اس بڑے درخت میں تربوز نہیں پھیلتا ورنہ آج تم آخری سانس لے رہے ہوتے۔اگرچہ یہ ایک قصہ ہے۔لیکن سوچنے والوں کے لیے اس میں سامان عبرت ہے۔مومن بندے کو چاہیے کہ وہ کسی شئے میں بھی خدا کی مصلحت کو سمجھے یانہ سمجھے ہرحال میں اسے وہی کہنا چاہیے جو فرشتوں نے کہا تھا:

﴿قالوا سُبحـٰنَكَ لا عِلمَ لَنا إِلّا ما عَلَّمتَنا إِنَّكَ أَنتَ العَليمُ الحَكيمُ ﴿٣٢﴾... سورة البقرة

’’کیا ہی عظمت والا ہے تو ہم تو بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں جتنا تو نے ہم کو دے دیا ہے‘‘

یا پھر وہ کہنا چاہیے جو قرآن میں درج ہے:

﴿رَبَّنا ما خَلَقتَ هـٰذا بـٰطِلًا سُبحـٰنَكَ فَقِنا عَذابَ النّارِ ﴿١٩١﴾... سورةآل عمران

’’پروردگار یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے۔تیری عظمت کے خلاف ہے کہ تو عبث کاکام کرے۔پس اسے رب ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے۔‘‘

آپ کو چاہیے کہ جوشیطانی وسوسہ آپ کے ذہن میں آیا ہے اسے فوراً جھٹک دیں۔خدا سے توبہ کیجے اپنے ایمان کا اعادہ کیجئے۔نمازیں پڑھنی شروع کردیجئے۔اور جب کوئی شک ذہن میں آئے فوراً اہل علم کی طرف رجوع کیجئے۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

عقائد،جلد:1،صفحہ:111

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ