السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل بھی اسلام موجود تھا؟جس قرآنی آیت میں ابراہیم علیہ السلام کے مسلم ہونے کی خبردی گئی ہے،اس میں اسلام سے مراد کیا یہی دین اسلام ہے،جسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اسلام کامفہوم ہے اپنی ذات اور اپنے دل کو اللہ کے آگے جھکانا اور اس کا مکمل مطیع وفرماں بردار ہونا۔یعنی اللہ کی توحید کا اقرارکرنا،اس کی عبادت کرنا اور اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا اور یہ وہ طریقہ زندگی ہےجسے لے کر انبیاء علیہ السلام ورسل آئے۔تمام نبیوں اور رسولوں نے اسی طریقہ زندگی کی طرف لوگوں کو دعوت دی۔اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ تمام انبیاء علیہ السلام ورسل کا مذہب دین ِ اسلام ہی تھا۔کیوں کہ حقیقتاً جو دین اللہ کے نزدیک ازل سے محبوب ہے اور مطلوب ہے وہ دین اسلام ہی ہے۔اللہ فرماتاہے:
﴿إِنَّ الدّينَ عِندَ اللَّهِالإِسلـٰمُ...﴿١٩﴾... سورة آل عمران
’’اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے‘‘
دوسری آیت میں ہے:
﴿وَمَن يَبتَغِ غَيرَ الإِسلـٰمِ دينًا فَلَن يُقبَلَ مِنهُ ...﴿٨٥﴾... سورة آل عمران
’’اسلام کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیاجائے گا‘‘
یہی وجہ ہے کہ تمام انبیاء علیہ السلام ورسل نے اسی دین اسلام کی طرف دعوت دی،نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو مخاطب کیااور فرمایا:
﴿وَأُمِرتُ أَن أَكونَ مِنَ المُسلِمينَ ﴿٧٢﴾... سورة يونس
’’اور مجھے حکم دیاگیا ہے کہ میں خود مسلم بن کررہوں‘‘
ابراہیم علیہ السلام نے بھی یہی فرمایا:
﴿إِذ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسلِم قالَ أَسلَمتُ لِرَبِّ العـٰلَمينَ ﴿١٣١﴾... سورة البقرة
’’اس کا یہ حال تھا کہ جب اس کے رب نے کہا مسلم ہوجا تو اس نے فوراً کہا میں مالک کائنات کا مسلم ہوگیا‘‘
سلیمان نے ملکہ سبا بلقیس کے پاس بھی اسی اسلام کا پیغام بھیجا تھا:
﴿أَلّا تَعلوا عَلَىَّ وَأتونى مُسلِمينَ ﴿٣١﴾... سورة النمل
’’میرے مقابلے میں سرکشی نہ کرو اور مسلم ہوکر میرے پاس حاضر ہوجاؤ‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی دین اسلام کی دعوت دی۔اسی طریقہ زندگی کی طرف لوگوں کو بلایا۔یہ الگ بات ہے کہ خاتم الانبیاء علیہ السلام ہونے کی حیثیت سے ان کا لایا ہوا دین ایک مکمل دین ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نیا دین لے کر نہیں آئے تھے۔انہوں نے بھی اسی دین کی دعوت دی،جس کی دعوت تمام انبیاء علیہ السلام ورسل نے دی تھی۔البتہ خاتم الانبیاء علیہ السلام ہونے کی حیثیت سے ان کے فرائض میں یہ بھی شامل تھا کہ پچھلی شریعتوں میں جو بھی کمی رہ گئی تھی ،اسے دور کرکے دین کو مکمل کردیں۔لوگوں نے جوتحریفات کردی تھیں ان کی تصحیح کریں اور ایک مخصوص انسانی طبقےکے بجائے تمام عالم کو اس دین کی دعوت دیں۔یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ پچھلی شریعتوں اور شریعت محمدیہ کے مابین بعض فروعی مسائل میں واضح فرق ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ پچھلی شریعتیں اپنے وقت اور حالات وضروریات کے مطابق تھیں جب کہ شریعت محمدیہ رہتی دنیا تک کے حالات وضروریات کے عین مطابق ہے۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب