سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(24) روحوں کا چکر

  • 23776
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 877

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آج کل لوگوں میں روحوں کو بلانے،ان سےغیب کی باتیں معلوم کرنے اورعلاج معالجے کامشغلہ کافی عام ہے۔ذرائع ابلاغ نے بھی ان حرکتوں کی اتنی تشہیر کردی ہے کہ اچھی خاصی تعداد میں لوگ چکر میں آگئے ہیں۔سوال یہ ہے کہ یہ روحوں کا کیامعاملہ ہے؟کیا یہ مردوں کی  روحیں ہوتی ہیں؟یا کوئی دوسری مخفی قوت جو ڈبوں میں حرکت لاتی ہے۔قلم خود بخود چلنے لگتے ہیں اور ایسے جوابات لکھتے جاتے ہیں جو صحیح بھی ہوتے ہیں اور غلط بھی۔یا یہ محض ایک چال اور فریبِ نظر ہے؟کیا روحوں کو عالم برزخ سے بلانا ممکن ہے؟کیا ان سے غیب کی باتیں معلوم کرنا صحیح ہے؟کیا وہ خبریں جنھیں روحیں لاتی ہیں ان کی تصدیق کرنا جائز ہے اور کیا ان سے علاج کرانا درست ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہم اس بات سے انکار نہیں کرسکتے کہ کوئی ایسی خفیہ طاقت ضرور ہوتی ہے جو ڈبوں میں حرکت پیدا کرتی ہے۔قلم خود بخود چلنے لگتے ہیں اور لکھنے لگتے ہیں۔وہ مخفی قوتیں ایسےجواب لے کرآتی ہیں  جو صحیح بھی ہوتے ہیں اور غلط بھی۔اس بات سے ہم اس لیے انکار نہیں کرسکتے کہ ایک دنیا نے کھلی آنکھوں سے اسے دیکھا ہے۔اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم دینی اُصول ونظریات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بات کی تحقیق کریں۔

ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اس کائنات میں کچھ ان دیکھی(غیر مرئی) مخلوقات بھی بستی ہیں۔مثلاً:

1۔فرشتے:یہ اللہ کی نورانی مخلوق ہے جس کے ذمہ اللہ نے مختلف کام دے رکھے ہیں۔مثلاً اچھے اور بُرے اعمال لکھنا،موت کے وقت روحیں قبض کرنا،اچھے بندوں کی حفاظت کرنا،وغیرہ وغیرہ یہ ایک ایسی مخلوق ہے جو فطرتاً اللہ کی نافرمانی نہیں کرسکتی۔اللہ کی مرضی کے خلاف ایک قدم نہیں اٹھا سکتی۔اللہ اس کے بارے میں فرماتا ہے:

﴿لا يَعصونَ اللَّهَ ما أَمَرَهُم وَيَفعَلونَ ما يُؤمَرونَ ﴿٦﴾... سورة التحريم

’’جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اورجو حکم بھی انہیں دیاجاتا ہے،اسے بجالاتے ہیں‘‘

2۔فرشتوں کی روحیں:ہمارا عقیدہ ہے کہ موت کے بعد بھی روحیں زندہ رہتی ہیں۔جسم کے مرنے سے روحوں کی موت واقع نہیں ہوتی۔انہیں یا تو عذاب سے دوچار ہونا ہوتا ہے یا پھررحمت ونعمت سے لطف واندوز ہوتی ہیں۔قرآن وحدیث سے متعدد حوالے اس ضمن میں پیش کیے جاسکتے ہیں۔مثلاً شہیدوں کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ وہ زندہ ہوتے ہیں اللہ کی طرف سے انہیں رزق حاصل ہوتا رہتا ہے:

﴿بَل أَحياءٌ عِندَ رَبِّهِم يُرزَقونَ ﴿١٦٩ فَرِحينَ بِما ءاتىٰهُمُ اللَّهُ مِن فَضلِهِ ... ﴿١٧٠﴾... سورة آل عمران

’’وہ تو حققیت میں زندہ ہیں اپنے رب کے پاس رزق پارہے ہیں۔جوکچھ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اس پر خوش ہیں۔‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے کہ مردے جنازہ لانے والوں کے قدموں کی چاپ بھی سنتے ہیں جب وہ واپس ہورہے ہوتے ہیں(2)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں حکم دیا کہ جب ہم قبرستان سے گزریں تو مردوں کو مخاطب کرکے ان پر سلامتی بھیجیں۔(3)۔ان احادیث سے واضح ہے کہ مردے عالم برزخ میں زندہ رہتے ہیں۔

3۔جن:ہم انسانوں کی طرح جن بھی اللہ کی ایسی مخلوق ہے کہ جو مکلف ہے۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد جگہ انہیں مخاطب کیا ہے:

"يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالإنْسِ"ان کے سلسلے میں پوری ایک سورہ نازل ہوئی،جس کانام سورۃ الجن ہے۔اس سورۃ میں ان کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ان میں نیک بھی ہوتے ہیں(4)۔جو نیک ہیں وہ جنت میں جائیں گے اورجو بد ہوں گے وہ دوزخ کاایندھن بنیں گے۔جنوں میں جو بُرے ہوتے ہیں،انہیں ہم شیاطین کی حیثیت سے جانتے ہیں اور یہ ابلیس ملعون کی اولاد ہیں یاجو انسانوں کو بہکانے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔

اب ہمیں اس بات کی تحقیق کرنی چاہیے کہ ان تین غیرمرئی مخلوقات میں سے کون سی مخلوق ہے،جوڈبے اورقلم میں حرکت پیدا کرتی ہے اور غیب کی باتیں بتاتی ہے۔ظاہر ہے کہ انسانوں کو بہکانے کاکام فرشتوں کا نہیں ہوسکتا کیوں کہ یہ اللہ کی نافرمانی ہے اور فرشتے اللہ کی نافرمانی نہیں کرسکتے۔ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ کام مردوں کی روحیں انجام دیتی ہیں کیوں کہ مرنے کے بعد روحیں اس طرح کے بے مقصد اور لا یعنی کاموں کےلیے فارغ اور آزاد نہیں رہتی ہیں بلکہ روحیں یا تو جنت میں ہوتی ہیں یا دوزخ میں۔قرآن پاک کی متعدد آیات میں اس بات کا تذکرہ ہے کہ مرنے کےفوراً بعد روحوں پر عذاب یانعمتوں کا دور شروع ہوجاتا ہے۔حدیث میں ہے کہ نیک بندوں کی روحیں جنت کے درختوں پر چڑیوں کی طرح چہچہاتی رہتی ہیں۔قرآن وحدیث میں کہیں بھی اس بات کا ثبوت نہیں ملتا کہ روحیں یوں آزاد چھوڑدی جاتی ہیں کہ وہ لوگوں کے بلانے پر حاضر ہوجائیں۔قلم کو حرکت دیں۔اور کچھ لکھیں اور غیب کی باتیں بتائیں۔بخاری ومسلم کی روایت ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے بدر کی جنگ سے فراغت کے بعد مشرکین کی لاشیں جمع کرکے جب ایک کنویں میں ڈال دیں تو ایک ایک کا نام لے کر پکارا۔اے فلاں ابن  فلاں کیاتم نے اپنا انجام پالیا،جس کا اللہ نے تم سے وعدہ کیا تھا؟میں نے تو اپنا انجام پالیا جس کا میرے رب نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول! (صلی اللہ علیہ وسلم ) یہ تو مُردے ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  انہیں کیوں مخاطب کررہے ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ یہ بھی تمہاری طرح میری تمام باتیں سن رہے ہیں ،لیکن جواب نہیں دے سکتے۔

جب یہ افضل البشرمحمد صلی اللہ علیہ وسلم  کو جواب نہیں دے سکتے تو یہ دوسروں کی آواز پر لبیک کیسے کہہ سکتے ہیں؟

فرشتوں اور روحوں کے بعد اب جن ہی بچے رہتے ہیں،جن سے یہ سب کام انجام دینے کی توقع کی جاسکتی ہے۔قرآن اور حدیث میں جنوں کے بارے میں جو کچھ ہمیں بتایا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جن ایسا کرنے پر قادر ہیں۔بلکہ بُرے اوربدمعاش قسم کے جن تو اسی طرح کے کام کرتے رہتے ہیں تاکہ انسانوں کو زیادہ سے زیادہ راہ راست سے دور لے جاسکیں۔حدیث میں ہے کہ ہر انسان کے ساتھ اس کا ایک شیطان لگارہتا ہے۔پوری حدیث یوں ہے:

"مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَلَهُ شَيْطَانٌ" (مسلم)

’’ہر شخص کے ساتھ اس کا شیطان ہوتا ہے‘‘

اب ذرا اس غرض وغایت کی بات ہوجائے جس کیوجہ سے روحوں یا جنوں کو بلایاجاتا ہے۔کیا ان سے غیب کی باتیں معلوم کرنی ہوتی ہیں۔حالاں کہ اسلامی عقیدہ کے مطابق غیب کی باتیں اللہ کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں جانتا۔اللہ فرماتاہے:

﴿قُل لا يَعلَمُ مَن فِى السَّمـٰو‌ٰتِ وَالأَرضِ الغَيبَ إِلَّا اللَّهُ...﴿٦٥﴾... سورة النمل

’’کہو کہ آسمانوں اور زمین مین جو بھی مخلوق ہے وہ غیب کے بارے میں نہیں جانتی سوائے اللہ کے۔‘‘

وہ جن جو حضرت سلیمان علیہ السلام  کے ساتھ تھے انہوں نے سلیمان علیہ السلام  کی وفات پر یہی کہا تھا کہ اگر انہیں غیب کاعلم ہوتا تو وہ کبھی اس عذاب میں مبتلا نہ ہوتے۔اگرغیب کی باتیں بتانے کا یہ عمل"کہانت" ہی کی کوئی شکل ہے"حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے کاہنوں پر لعنت فرمائی ہے اور کہانت کو خارج از اسلام قراردیا ہے۔(5)

ان کی غیب کی بتائی ہوئی باتیں کبھی کبھی سچ بھی ہوجاتی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ کچھ لوگ بُرے جنوں کو اپنا عامل بنائے ہوئے ہوتے ہیں اور ان عاملوں سے وہ باتیں معلوم کرلیتےہیں،جنھیں وہ نہیں جانتے۔غیب کی یہ باتیں چاہے ننانوے دفعہ جھوٹ ثابت ہوں تو کوئی بات نہیں لیکن اگر ایک دفعہ بھی سچ نکل جائے تو ہوا کی مانند چاروں سمت پھیل جاتی ہے اور لوگ اس پر یقین کرلیتے ہیں۔

جہاں تک علاج معالجے کی خاطر روحوں کو بلانے کا عمل ہے تو یہ سنت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے بالکل خلاف ہے۔کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے علاج کے طور پر صرف ان طریقوں کو اپنایا ہے جو اس زمانے میں علاج کے مروجہ طریقے تھے مثلاًپچھنے لگوانا،یاآگے سے داغنا یا شہد کے ذریعہ علاج کرنا وغیرہ وغیرہ۔جب کوئی صحابی بیمار ہوتے تو علاج کے لیے حکیم کو بلایا جاتا تھا،روحوں کونہیں۔یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے علاج کے لیے گنڈوں،تعویزوں اور ان جیسے دوسرے وسائل پر لعنت فرمائی ہے۔بلکہ یہاں تک کہا ہے:

"مِنْ عَلَّقَ تَمِيمَةً فَقَدْ أَشْرَكَ"

’’جس نے تعویز لٹکایا اس نے شرک کیا‘‘

یہ حقیقت ہے کہ روحوں کو بلانے کاعمل محض عوام کو بہکانے اور انہیں راہ راست سے دور لے جانے کے لیے ہے یاکچھ مادی فائدوں کےلیے یہ کام کیا جاتا ہے۔لیکن اس حقیقت کے ساتھ ایک لطیف پہلو یہ بھی ہے کہ وہ مغرب زدہ شخص جو صرف عقل اور محسوس کی جانے والی چیزوں پر ہی یقین رکھتا ہے،غیرمحسوس اور غیرمرئی چیزوں کاانکار کرتا ہےوہ اس حقیقت کی کیا توجیہ پیش کرسکتا ہے۔ذرا ہمیں بتائیے تو کہ وہ کون سی مخفی قوت ہے جو ڈبوں میں یا قلم میں حرکت پیدا کرتی ہے؟

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

عقائد،جلد:1،صفحہ:97

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ