السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اس دنیا میں انسان کے ساتھ جو کچھ پیش آتا ہے کیا وہ ازل سے اس کی تقدیر میں لکھ دیاگیا ہے؟اس کی موت،اس کا رزق،اس کی کامیابی اور اس کا جنتی یا دوزخی ہونا؟اگر یہ سب کچھ پہلے ہی سے لکھاجاچکا ہے تو پھر کسی قسم کی کوشش اور دوڑ بھاگ کی کیا ضرورت ہے؟کسی حادثے میں زخمی شخص کی جان بچانے کی کوشش کیونکرہو؟اس کی زندگی ہوگی تو وہ بچ ہی جائے گا۔تجارت وزراعت میں اتنی محنت کرنے کی کیاضرورت ہے؟جو کچھ مقدر میں ہے وہ تومل ہی جائے گا۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ کوئی نیا سوال نہیں ہے۔یوں لگتا ہے کہ زمانہ خواہ کتنا بھی طویل ہوہرزمانے میں یہ سوال پوچھا جائے گا۔یہ ایساکوئی حیران کن مسئلہ نہیں ہے کیونکہ اسلام نے اس کاتشفی بخش جواب دیا ہے۔
1۔یہ برحق ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ بھی ہوتا ہے،سب ازل سے لکھا جاچکا ہے۔یہ ایک ایسا اسلامی عقیدہ ہے جس میں شک کی ذرا بھی گنجائش نہیں۔ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ ہی نے اس ساری کائنات کی تخلیق کی۔زمین وآسمان،نباتات وجمادات،انسان اور حیوان سب اسی نے پیداکیے اور یہ کہ اس کی تخلیق سے قبل ہی اس کاعلم ان سب چیزوں پر محیط تھا،جو اس کائنات میں ابد تک رونما ہونے والی ہیں۔چنانچہ جو کچھ بھی اس دنیا میں ہوتا ہے،اس کے علم اور ادارے کے مطابق ہی ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَما تَسقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلّا يَعلَمُها وَلا حَبَّةٍ فى ظُلُمـٰتِ الأَرضِ وَلا رَطبٍ وَلا يابِسٍ إِلّا فى كِتـٰبٍ مُبينٍ ﴿٥٩﴾... سورةالانعام
’’درخت سے گرنے والا کوئی ایسا پتا نہیں جس کا علم اسے نہ ہو۔زمین کے تاریک پردوں میں کوئی دانہ ایسا نہیں،جس سے وہ باخبر نہ ہو۔خشک وتر سب کچھ ایک کھلی کتاب میں لکھا ہوا ہے‘‘
دوسری آیت ہے:
﴿ما أَصابَ مِن مُصيبَةٍ فِى الأَرضِ وَلا فى أَنفُسِكُم إِلّا فى كِتـٰبٍ مِن قَبلِ أَن نَبرَأَها إِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسيرٌ ﴿٢٢﴾... سورة الحديد
’’کوئی مصیبت ایسی نہیں ہے جو زمین میں یا تمہارے اپنے نفس پر نازل ہوتی ہو اور ہم نے اس کو پیدا کرنے سے پہلے ایک کتاب میں لکھ نہ رکھا ہو۔ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان کام ہے۔
2۔کائنات میں ابد تک رونما ہونے والی تمام چیزوں کے بارے میں اللہ کا شامل وکامل علم ہونا اور ان سب کا تقدیر میں لکھا ہوا ہونا،اس بات کے منافی نہیں ہے کہ انسان عمل کرے،جدوجہد کرے اور کچھ پانے کی کوشش کرے۔کیونکہ تقدیر میں جس طرح اس نے نتائج اورانجام لکھے ہیں اسی طرح وہ اسباب اور عوامل بھی لکھے ہیں،جن پر یہ نتائج مرتب ہوتے ہیں۔اگر کسی شخص کی قسمت میں کامیاب ہونالکھا ہے تو اس کی قسمت میں وہ عوامل بھی لکھے ہیں ،جن کی وجہ سے وہ کامیاب ہوا۔مثلاً محنت کرنا یا ا پنی عقل استعمال کرنا وغیرہ جس کی وجہ سے اسے کامیابی نصیب ہوئی۔چنانچہ عمل کرنا اورجدوجہد کرنا تقدیر کےمنافی نہیں ہے بلکہ یہ سب کچھ تقدیر کا ہی ایک حصہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دواؤں کے بارے میں دریافت کیاگیا کہ ان دواؤں سے ان بیماریوں پرقابو پایا جاسکتا ہے جو تقدیر میں لکھی ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ کن جواب تھا کہ وہ دوائیں بھی تقدیر کا ایک حصہ ہیں۔
ملک شام میں جب وبائی مرض پھیلا اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ساتھ وہاں جانے سے پرہیز کیا تو کسی نے سوال کیا:
"اتفر من قدر الله خرج أمير المؤمنين"
’’اے امیر المؤمنین کیا آپ اللہ کی لکھی ہوئی تقدیر سے بھاگ رہے ہیں؟
تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا:
"نَعَمْ نَفِرُّ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ إِلَى قَدَرِ اللَّهِ"
’’ہاں،ہم اللہ کی ایک تقدیر سے دوسری تقدیر کی طرف بھاگ رہے ہیں‘‘
یعنی ہمارا وبائی مرض سے بھاگنا بھی تقدیر ہی کا ایک حصہ ہے۔
3۔یہ بات بھی برحق ہے کہ تقدیر کی باتیں ہم سے پوشیدہ ہیں۔ہم نہیں جانتے کہ ہماری تقدیروں میں کیا لکھا ہوا ہے۔لیکن ہمیں حکم ہے کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ بیٹھیں بلکہ کام کریں۔اسباب وعوامل کو اختیار کریں۔تمام احتیاطی تدابیر اپنائیں اور یہ سب تو اس ہستی نے بھی کیا تھا جس کا خدا پر ایمان تمام انسانوں کے ایمان سے کہیں بڑھ کرتھا۔یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے۔چنانچہ انہوں نے لشکر تیار کیے۔کفار سے جنگیں کیں،زرہ پہنیں،مدینہ کے اطراف میں احتیاطاً خندق کھودی۔حبشہ اور مدینہ کی طرف ہجرت کاحکم دیا۔
ہجرت کے موقع پر غار میں روپوش ہوئے،اپنے گھر والوں کے لیے ایک سال کے لیے غلہ جمع کیا وغیرہ وغیرہ۔
4۔تقدیر کا بہانہ بناکر انسان کو کاہلی اور سستی کی طرف مائل نہیں ہونا چاہیے۔تقدیر پر ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے انسان کچھ کرے،اسباب وعوامل اختیار کرے،کچھ جدوجہد کرے اور ان سب کے بعد نتیجہ خدا کی مرضی پر چھوڑدے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کشتی لڑی۔ہارنے والا بغیر کسی محنت اور کوشش کے ہارگیا اور ہارنے کے بعدکہا کہ اللہ میرا مددگار ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض ہوئے۔فرمایا:پہلے محنت کرو،کوشش کرو،اس کے بعد ہار جاؤ تب کہو کہ اللہ میرامددگار ہے۔(ابوداؤد)
5۔تقدیر پر ایمان کا فائدہ یہ ہے کہ انسان تمام کوششوں کے باوجود اگر ناکامی کا سامنا کرتاہے تو اس پر مایوسی طاری نہیں ہوتی۔مصیبت کی گھڑیوں میں صبر کادامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا اور محنت ومشقت کے صلے میں جو کچھ بھی اسے نصیب ہوتا ہے،خدا کی مرضی سمجھ کر اسی پر خوش وخرم اور صابر وشاکر رہتا ہے۔
تقدیر کا عقیدہ اگر اُمت مسلمہ کے ذہنوں میں جاگزیں ہوجائے تو ایک ایسی امت تیار ہوسکتی ہے جو اندرونی طور پر طاقتور ہوگی اور اس کے اندر مجاہدانہ صفات موجود ہوں گی۔وہ اُمت اس قابل ہوگی کہ تاریخ کی لگام اپنے ہاتھوں میں لےلے۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب