سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(20) مسلم کو کافر قرار دینے میں غلو سے کام لینا

  • 23772
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1244

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے پاس دو خطوط آئے ہیں۔ایک قاھرہ سے اور دوسرا یمن سے۔ان دونوں میں یکساں سوال ہے۔سوال ہے کسی مسلمان کو کافر قراردینے میں مبالغے سے متعلق۔قاہرہ سے جو خط موصول ہوا ہے،اس میں سوال کرنے والے محترم بھائی نے ایک ایسی جماعت کی طرف اشارہ کیا ہے جو اپنے علاوہ تمام مسلمانوں کو کافر قراردیتی ہے۔حالاں کہ اس جماعت کا مرجع فکر وعمل قرآن وسنت ہی ہے۔لیکن ان کے افکار میں اتنا تشدد اور غلو ہے کہ وہ گناہ کبیرہ کے مرتکب کو بھی کافر تصور کرتے ہیں۔ان میں وہ اشخاص جو قدرے نرم رویہ رکھتے ہیں ان کا یہ عقیدہ ہے کہ اگرایک دفعہ گناہ کبیرہ سرزد ہوجائے تو کوئی بات نہیں ہے تاہم اس پر اصرار کرنے والا کافر ہے۔ان کا دعویٰ ہے کہ آج سارے مسلمان گرچہ ا پنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں لیکن وہ حقیقت میں مسلمان نہیں ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ وہ بغیر کسی دلیل کے یہ باتیں کہتے ہیں بلکہ اپنے عقیدے کے اثبات میں قرآن وحدیث سے حوالے بھی پیش کرتے ہیں۔

یمن سے جو خط وصول ہوا ہے اس میں ہمارے یمنی  بھائی نے ایک ایسے مسلم شخص کی طرف اشارہ کیا ہے ۔جس کا دعویٰ ہے کہ آج یمن اور یمن سے باہر تمام امت مسلمہ حقیقتاً مسلمان  نہیں ہے بلکہ وہ سب مرتد اور کافر ہیں۔چاہے انہوں نے ارکان اسلام کو مضبوطی سے تھام رکھا ہو،چاہے وہ مرد ہوں یا عورت اور چاہے ان کا تعلق دارالحرب سے ہویا دارالاسلام سے،اب نہ جمعے کی نماز ہی صحیح ہوتی ہے اور نہ پنچ وقتہ باجماعت نمازیں کیونکہ یہ سب مرتدین کی اقتداء میں ہوتی ہیں۔ایسی مرتد امت میں امر بالمروف اور نھی عن المنکر کاکام جائز نہیں بلکہ سب سے  پہلے انہیں کلمہ شہادت کی طرف بلاناچاہیے کیونکہ یہ سرے سے مسلمان ہی نہیں ہیں۔

چوں کہ آپ کا موقف افراط،تفریط اور غلو سے پاک ہوتا ہے اس لیے ہم نے آپ کی طرف  رجوع کیا ہے۔گزارش ہے کہ آپ ہمیں اس عقیدے سے متعلق بتائیں کہ آیا یہ صحیح ہے یا قرآن وسنت کے خلاف؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بے شبہ امت مسلمہ میں ایسی جماعت یا افراد کا ظہور جو علی الاعلان تمام مسلمانوں کوکافر قراردینے میں غلو سے کام لیتے ہوں ایک خطرناک بات ہے۔لیکن ہمیں چاہیے کہ سب سے پہلے ہم ان اسباب وعوامل کو تلاش کریں جن کی وجہ سے ایسے افراد جنم لیتے ہیں۔یہ بات میں وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس جماعت اور ان کے متشدد خیالات ونظریات کا سد باب حکومت کے ڈنڈوں سے نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ افکار وعقائد کی صلاح متبادل افکار ہی سے کی جاسکتی ہے۔اس مقصد کی خاطر سختی اور ڈنڈے کا استعمال غلط افکار کے مزید پھیلنے کا سبب بن سکتا ہے۔اور یہ متشدد افراد درحقیقت مخلص دین دار اور نماز وروزہ کے پابند ہوتے ہیں۔ان کے خیالات میں تشدد کاسبب وہ تیزی سے پھیلتی ہوئی اخلاقی و فکری برائیاں ہیں جنھوں نے غیرمسلموں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔آگے بڑھنے سے قبل میں ان اسباب وعوامل کا بیان ضروری سمجھتا ہوں جن کی وجہ سے ایسے افراد جنم لیتے ہیں۔

1۔امت مسلمہ کے بعض افراد کا حقیقی طور پر ارتداد اور کفر میں مبتلا ہوجانا۔ایسے افراد حکومت کی طاقت اورذرائع ابلاغ عامہ کو استعمال کرکے اپنے ملحدانہ افکار ونظریات کی ترویج وتشہیرمیں ہمہ تن مصروف ہیں۔

2۔بعض علماء کرام نے ان ملحد اور بے دین افراد کی طرف سے غفلت برتی ہوئی ہے اور وہ انہیں مسلمانوں ہی میں شمار کرتے ہیں۔

3۔دورحاضر میں ہرطرف داعیان حق کی سرکوبی کی جارہی ہے اور ہر ممکن طریقے سے ان پر عرصہ حیات تنگ کیاجارہا ہے۔اس کارد عمل یہ ہے کہ داعیان حق میں کچھ ایسےافراد ظاہر ہوتے ہیں جن کے خیالات میں تشدید اور افکار میں غلو ہوتا ہے۔

4۔ان کے پاس دینی حمیت اور اسلامی جذبہ تو خوب ہوتا ہے لیکن دینی سمجھ بوجھ اور اسلامی اصول وقواعد کا فہم وادراک کم ہوتا ہے۔یہ ناپختہ شعور انہیں غلو اور تشدد کی طرف مائل کردیتا ہے۔

یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ اسلام میں محض دینی حمیت اور اخلاص ہی کافی نہیں ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ اسلامی شریعت اور اس کے احکام کاتفقہ بھی نہایت ضروری ہیے ۔یہی وجہ ہے کہ سلف صالحین عبادت اور جہاد سے قبل علم حاصل کرنے کی تلقین کیاکرتے تھے۔

ہمیں چاہیے کہ ہم صرف ان اشخاص کو کافر تصور کریں جو علی الاعلان کفر کی راہ پر گامزن ہیں۔البتہ وہ لوگ جوصرف ظاہری طور پر مسلمان ہیں اگرچہ اندرونی طور پر وہ ایمان سے عاری ہیں تو انہیں ہم کافر قراردینے کے ہرگز مجاز نہیں۔دنیامیں ہم ان کے ساتھ مسلمانوں جیسا معاملہ کریں گے اور آخرت کامعاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

 وہ لوگ جو علی الاعلان کفر میں مبتلا ہیں اور ہم انہیں کافر کہہ سکتے ہیں،درج زیل ہیں:

1۔کمیونسٹ حضرات کیوں کہ یہ خدا اور مذہب کو تسلیم نہیں کرتے۔

2۔سیکولر خیالات کے حامل اشخاص کہ یہ اللہ کی شریعت کو نہیں مانتے اور دین ودنیا دونوں کو الگ الگ شئی تصور کرتے ہیں۔

3۔وہ فرقے جو یقینی طور پر اسلام سے خارج ہیں مثلاً اسماعیلی فرقہ،بہائی فرقہ اور قادیانی فرقہ۔

یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ کسی متعین شخص کو کافر قراردینا کوئی آسان کام نہیں۔یعنی ہم کسی گروہ کی طرف اشارہ کرکے کہہ سکتے ہیں کہ وہ کافر ہیں مثلاً کمیونسٹ کافر ہوتے ہیں یا قادیانی کافر ہوتے ہیں یاجس نے فلاں بات کہ وہ کافر ہوگیا۔لیکن کافر کوکسی متعین شخص کی طرف منسوب کرکے کہنا کہ فلاں شخص کافر ہے کوئی آسان کام نہیں بلکہ یہ کافی غور طلب کام ہے اس لیے کہ کسی کو کافر قراردینے کے بعددرج ذیل نتائج مرتب ہوتے ہیں۔

1۔وہ شخص اب اپنی بیوی کے لیے حلال نہیں ہے۔دونوں میں علیحدگی ضروری ہے۔

2۔اس کی اولاد اب اس کی نگہداشت میں نہیں  رہیں گی کیوں کہ عین ممکن  ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کافرانہ انداز میں کرے۔

3۔اب وہ مسلم معاشرے کی نصرت وحمایت سے محروم ہوگیا۔اس کا سماجی بائیکاٹ ضروری ہے۔

4۔اگر اسلامی حکومت قائم ہے تو اس پر ارتداد کی حد قائم کی جائے گی یعنی سزائے موت۔

5۔مسلمانوں کے احکام اس پر نافذ نہیں ہوں گے۔چنانچہ مرنے کے بعد نہ اسے غسل دیا جائے گا نہ نماز پڑھی جائے گی اور نہ وہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن ہوگا۔

6۔اگر وہ کفر وارتداد کی حالت ہی میں مرگیا تو لعنت کامستحق ہوااوراس کا انجام کار جہنم ہے جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔

ان سنگین نتائج کے پیش نظر ضروری ہے کہ ہم ان شرعی اصول وقواعد کو صرف قرآن وسنت کی روشنی میں وضع کریں،جن کی بنیادپر ہم کسی کو مسلم یا کافر کہہ سکتے ہیں۔ذیل میں انہیں اصول وقواعد کابیان ہے۔اور اس سلسلے میں ہمارا مرجع صرف قرآن اور سنت ہے۔اگر کسی موقع پر ہم کسی عالم کے قول کو نقل کریں گے تو صرف سہارے کے لیے۔اس سے استدلال مقصود نہیں ہوگا۔

1۔پہلا اصول یہ ہے کہ کوئی بھی شخص کلمات شہادت یعنی:"أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمداً رسول الله" کا اقرار کرتے ہی اسلام میں داخل ہوجاتا ہے۔اب اس پر مسلمانوں کے قوانین نافذ ہوں گے،خواہ اس نے شہادت کا اقرار صرف اپنی زبان سے کیا ہو اوردل سے ہو ہنوز کافر ہو۔کیوں کہ دل کا حال تو صرف اللہ کو معلوم ہے۔اس سلسلے میں درج ذیل احادیث کو دلیل کے طور پرپیش کرتا ہوں۔

1۔بخاری شریف کی روایت ہے کہ اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے ایک ایسے شخص کو میدان جنگ میں قتل کرڈالا جس نے تلوار دیکھتے ہی کلمہ شہادت کا اقرار کرلیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو جب اس واقعے کی خبر ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی سخت سرزنش کی اور فرمایا کہ اس نے کلمہ شہادت کا اقرار کرلیا تھاپھر بھی تم نے اسے قتل کرڈالا۔اسامہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے جواب دیا کہ اس نے صرف تلوار کے خوف سے کلمہ شہادت کا اقرار کیا تھا۔اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ کیا تم نے اس کے دل کو چیر کردیکھا تھا؟یعنی تمہیں اس کے دل کا حال کیا معلوم؟

2۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  ہر اس شخص کا اسلام تسلیم کرلیتے تھے جو کلمہ شہادت کا اقرار کرلیتا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کا اسلام تسلیم کرنے کے لیے اس بات کا انتظار نہیں کرتے تھے کہ نماز کاوقت آئے تو وہ نماز پڑھ کر دکھائے یا رمضان کامہینہ آئے تو روزے رکھ کر اپنے اسلام کو ثابت کرے۔مسلمانوں کے زمرے میں شامل ہونے کے لیے اس کا زبان سے کلمہ شہادت کا اقرار ہی کافی تھا۔

3۔بخاری و مسلم کی روایت ہے۔ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"أمرت أن أقاتل الناس حتى يَقُولُوا : لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ ، فَإِذَا قَالُوهَا عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلا بِحَقِّهَا وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ"

’’مجھے اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جہاد کروں حتیٰ کہ وہ اقرار کرلیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔جب وہ اس کا اقرار کرلیں گے تو ان کے مال وجان میری طرف سے محفوظ ہیں اور ان کا حساب وکتاب اللہ کے ذمہ ہے۔(یعنی انہوں نے دل سے اسلام قبول کیا یا نہیں اس کا فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے)۔

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے لیے کلمہ شہادت کا زبان سے اقرار کافی ہے۔رہی دل کی بات تو اس کا فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہے،ہم بندوں کے ہاتھ میں نہیں۔

2۔دوسرا اصول یہ ہے کہ جس شخص نے اس حالت میں جان دی کہ وہ توحید پر قائم تھا اور شرک سے بالکل  پاک تھا تو وہ اللہ کے یہاں دو باتوں کا مستحق ہوگا:

(الف)۔جہنم میں ہمیشگی سے نجات۔خواہ اس کی زندگی گناہوں سے  آلودہ رہی ہو۔

(ب)۔اپنے گناہوں کی پاداش میں وہ اس وقت تک جہنم میں رہے گا جب تک اللہ کی مرضی ہوگی اس کے بعد اسے وہاں سے نکال کر جنت میں داخل کیا جائے گا۔دلیل کے طور پر درج ذیل احادیث پیش کرتا ہوں:

ابوذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"مَا مِنْ عَبْدٍ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ ثُمَّ مَاتَ عَلَى ذَلِكَ إِلاَّ دَخَلَ الْجَنَّةَ "

’’جس شخص نے اس حالت میں جان دی کہ وہ "لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ" کا قائل تھا،وہ جنت میں داخل ہوگا‘‘

ابوذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"جِبْرِيل عَلَيْهِ السَّلَام فَبَشَّرَنِي أَنَّهُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتك لَا يُشْرِك بِاَللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّة . ... قُلْت : وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ قَالَ : وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ "

’’ایک دن جبرئیل  علیہ السلام  میرے پاس تشریف لائے  اور اس بات کی بشارت دی کہ تمہاری امت میں جو شخص اس حالت میں وفات پائے گا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو تو وہ ضرورت جنت میں جائے گا۔میں نے پوچھا کہ چاہے اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو؟جبرئیل علیہ السلام  نے فرمایا کہ ہاں چاہے اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو‘‘

انس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ، وَكَانَ فِي قَلْبِهِ مِنَ الْخَيْرِ مَا يَزِنُ بُرَّةً"

’’جہنم سے ہر وہ شخص نکلے  گا جس نے اقرار کیا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور اس کے دل میں ایک گہیوں کے دانے برابر بھی بھلائی ہو‘‘

ان احادیث سے معلوم ہواکہ جنت میں داخلے کے لیے توحید کا اقرار کافی ہے۔موحد شخص نے چاہے کتنے بڑے بڑے گناہ کیے ہوں،وہ اپنے گناہوں کی سزا بھگت کر ایک نہ ایک دن ضرور جنت میں جائے گا۔

3۔تیسرا اصول یہ ہے کہ کلمہ شہادت پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد کلمہ گو شخص کے لیے لازمی ہے کہ وہ اسلام کے ان احکام وقوانین کی سچائی اور ان کے برحق ہونے کا بھی اقرار کرے،جو احکام قرآن وحدیث کی صریح دلیلوں سے ثابت ہوں۔اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے جو احکام وقوانین وضع  کردیے،ان میں اب کسی کو یہ اختیار نہیں کہ چاہے تو کسی کو مانے اورچاہےتو کسی کا انکار کردے۔اب وہ اس بات کا مجاز نہیں ہے کہ اپنی مرضی کے مطابق کسی حکم کو سچ مان کر اس کا اتباع کرے اور کسی حکم کو غلط جان کر ترک کرو۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَما كانَ لِمُؤمِنٍ وَلا مُؤمِنَةٍ إِذا قَضَى اللَّهُ وَرَسولُهُ أَمرًا أَن يَكونَ لَهُمُ الخِيَرَةُ مِن أَمرِهِم...﴿٣٦﴾... سورة الاحزاب

’’کسی مومن مرد یا عورت کے لیے جائز نہیں جب اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کسی معاملے میں  فیصلہ کردے کہ اس معاملے میں ان کی اپنی کوئی مرضی ہو‘‘

یہاں احکام وقوانین سے مراد وہ احکام ہیں جو قرآن وسنت کی واضح دلیلوں سے ثابت ہوں اور جن پر تمام امت کااتفاق ہومثلاً نماز کی فرضیت یا قتل وزنا کی حرمت یا شادی اور طلاق میں شریعت کے واضح احکام۔اگر کسی مسلمان نے ان احکام وقوانین میں کسی ایک کا بھی انکار کیا یا اس کا مذاق اُڑایا تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گا۔اور اسے مرتد تصور کیا جائے گا۔مثال کے طور پر اگر کوئی شخص زکوٰۃ کی فرضیت کو تسلیم نہیں کرتا یا زنا کی حلت کا قائل ہو تو اسے اسلام کے دائرے سے خارج تصور کیا جائے گا۔

4۔چوتھا اصول یہ ہے کہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب ،گرچہ اس پر اصرار ہو،ایمان میں کمی کاباعث تو ہوتا ہے لیکن اسلام سے خارج نہیں کرتا۔اس سلسلے میں چند دلیلیں پیش کرتا ہوں:

1۔بخاری شریف کی حدیث ہے:عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ایک ایسے شخص کا واقعہ بیان کرتے ہیں،جس کانام عبداللہ تھا اور لوگ اسے حمار کہہ کر پکارتے تھے۔اکثر وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کو ہنسایا کرتا تھا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے شراب پینے کے جرم میں متعدد بار سزادی تھی۔ایک دفعہ اسے شراب کی حالت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس لایا گیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس پر شراب کی حد جاری کی یعنی کوڑے لگوائے۔ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے جویہ دیکھ رہے تھے فرمایا کہ اللہ کی لعنت ہو اس پر،کتنی دفعہ اسے شراب کی سزا مل چکی ہے۔اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ اس پر لعنت نہ بھیجو۔بہ خدا تمہیں معلوم ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  سے محبت کرتا ہے۔

اس حدیث سے واضح رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے شراب نوشی جیسے گناہ کبیرہ پر اصرارکرنے کے باوجود اس شخص کو اسلام سے خارج نہیں قراردیا۔معلوم ہوا کہ گناہ کبیرہ کامرتکب اور اس پر مصر رہنے والے شخص کو اسلام سے خارج نہیں قراردیا جاسکتا ہے۔

2۔افک کے  واقعے میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   پر چند لوگوں نے بہتان تراشی کی تھی،ان لوگوں میں ایک صحابی مسطح بن اثاثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بھی تھے۔غزوہ بدر میں شرکت کا شرف بھی انہیں حاصل تھا۔یہ معلوم ہے کہ پاک دامن عورتوں پر بہتان تراشی گناہ کبیرہ ہے جس کی حد اسی کوڑے ہیں۔حضرت مسطح بن اثاثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اس گناہ کے مرتکب ہوئے۔حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے قسم کھائی کہ وہ کبھی مسطح رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے صلہ رحمی نہیں کریں گے۔اس پر اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا مواخذہ کیا اور اللہ نے انہیں عفو ودرگزر سے کام لینے کی تلقین کی۔

3۔گناہ کبیرہ کا ا رتکاب اگر اسلام سے خارج کردینے والی چیز ہوتی،توگناہ کبیرہ اور ارتداد میں کوئی فرق نہ ہوتا۔ہرصاحب معصیت کو مرتد تصور کیا جاتا اور اسے مرتد کی سزا(سزائے موت) دی جاتی۔پھر تو زنا،قتل،چوری اور شراب نوشی وغیرہ گناہوں کے لیے الگ الگ حدیں نہ مقرر ہوتیں۔

4۔وہ صحیح حدیث جس کا تذکرہ،اس سے قبل ہوچکا ہے،جس میں جبرئیل  علیہ السلام  نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کو بشارت دی تھی کہ لا الٰہ الا اللہ کہنے والا جنت میں جائے گا،خواہ اس نے زنا یا چوری کا ہی ارتکاب کیوں نہ کیا ہو۔

صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  قیامت کے دن بعض گناہ کبیرہ کے مرتکبین کی شفاعت کریں گے،اگر گناہ کبیرہ کا مرتکب خارج از اسلام ہوجاتا،تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کبھی اس کی شفاعت نہ کرتے۔

5۔پانچواں اصول یہ ہے کہ شرک کے علاوہ ہر گناہ اور معصیت قابل معافی ہے،خواہ وہ گناہ صغیرہ ہو یاکبیرہ۔اللہ شرک کبھی معاف نہیں فرمائے گا۔اس کے علاوہ جتنے بھی گناہ ہیں وہ اللہ معاف کرسکتا ہے۔اگر اس کی مشیت ہوئی۔قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿إِنَّ اللَّهَ لا يَغفِرُ أَن يُشرَكَ بِهِ وَيَغفِرُ ما دونَ ذ‌ٰلِكَ...﴿٤٨﴾... سورة النساء

’’بے شبہ اللہ اس بات کومعاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے۔اس کے علاوہ وہ کچھ بھی معاف کرسکتا ہے‘‘

6۔چھٹا اصول یہ ہے کہ کفر کی دو قسمیں ہیں:

الف۔کفراکبر۔وہ کفر جو انسان کو دائرہ اسلام سے خارج کردیتا ہے۔

ب۔کفر  اصغر۔وہ کفر جس سے انسان دائرہ اسلام سے خارج تو نہیں ہوتا البتہ سزائے الٰہی کا مستحق ہوجاتا ہے۔

کفر اکبر سے مراد ہے اس شریعت یادین کا انکار،جسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  لے کر آئے۔جو شخص بھی اس دین یا اس دین کی شریعت کا منکر ہوگا وہ اسلام سے خارج شمار کیا جائے گا۔

کفر اصغر سے مراد ناشکری اور کفرانِ نعمت ہے ۔یہ کفر قابل مواخذہ ضرور ہے لیکن اسلام سے خارج نہیں کرتا۔مثلاًحضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"مَنْ حَلَفَ بِغَيْرِ اللَّهِ فَقَدْ كَفَرَ "

’’جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی اس نے کفر کیا‘‘

اور فرمایا:

"سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ وَقِتَالُهُ كُفْرٌ"

’’مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے جنگ کرنا کفر ہے‘‘

ان احادیث میں کفر سے مراد وہ کفر نہیں ہے،جو اسلام سے خارج کردیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے ان صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین  کو کافر نہیں شمار کیا،جنھوں نے جنگ حمل میں آپ سے جنگ کی تھی۔بلکہ انہیں باغی قراردیا۔معلوم ہوا کہ مسلمانوں سے جنگ کرنا وہ کفر نہیں ہے،جو اسلام سے خارج کردے۔

7۔ساتواں اصول یہ ہے کہ  کسی ایک ہی شخص میں بیک وقت ایمان اور کفریا جاہلیت یانفاق کا اکٹھا ہونا عین ممکن ہے۔

یہ ایک ایسی حقیقت ہے ،جو بہت سی نظروں سے اوجھل ہے۔عام لوگوں کا یہ تصور ہے کہ انسان یا تومؤمن ہوتا ہے یا کافر۔بہ یک وقت وہ مومن اور کافر دونوں نہیں ہوسکتا۔یہ لوگ اس بات سےبےخبر ہیں کہ ان دونوں کی درمیانی کیفیت بھی ہوسکتی ہے یعنی ایک شخص کے مؤمن ہوتے ہوئے بھی کفر کی چند خصلتیں اس کے اندر موجود ہوں۔یہ کوئی عجیب وغریب بات نہیں کہ کسی شخص کے اندر ایمان بہ درجہ اتم موجود نہ ہو بلکہ نفاق یا کفر یا جاہلیت کی بعض عادتیں بھی اس کے اندر موجود ہوں۔جبھی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تھا:

"إِنَّكَ امْرُؤٌ فِيكَ جَاهِلِيَّةٌ"

’’تم ایسے شخص ہو جس میں جاہلیت بھی ہے‘‘

دوسری حدیث ہے:

"مَنْ مَاتَ وَلَمْ يَغْزُ وَلَمْ يُحَدِّثْ بِهِ نَفْسَهُ مَاتَ عَلَى شُعْبَةٍ مِنْ نِفَاقٍ"

’’جس کسی کو موت آئی اس حالت میں کہ اس نے جہاد نہیں کیا اور نہ جہاد کی خواہش ہوئی تو وہ نفاق کی ایک خصلت پر مرا‘‘

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں کہ:

"الْغِنَاءُ يُنْبِتُ النِّفَاقَ فِي الْقَلْبِ"

’’موسیقی دل میں نفاق پیدا کرتی ہے‘‘

ان احادیث کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کسی مسلم شخص میں نفاق یا جاہلیت کی کچھ خصلتیں بھی موجود ہوسکتی ہیں۔اور ان کی وجہ سے وہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا۔ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  فرماتےہیں کہ سلف صالحین کا عقیدہ یہی ہے کہ کسی بھی شخص میں بیک وقت ایمان اور نفاق یاکفر دونوں ہوسکتا ہے۔

8۔آٹھواں اصول یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت وفرماں برداری کے معاملے میں لوگوں کے مختلف درجات اور مراتب ہوتے ہیں۔جو شخص جتنا اطاعت گزار اورفرماں بردار ہوگا،تقرب الی اللہ اور تقوی میں بھی اسی قدر اعلیٰ مرتبے پر ہوگا۔اسی لیے سلف صالحین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مومن کی ایمانی حالت میں کمی  وبیشی ہوتی رہتی ہے۔یہ تصور کرلینا غلط ہوگا کہ ہرمؤمن شخص کو لازمی طور پر فرشتہ صفت اورتمام گناہوں سے پاک ہونا چاہیے۔

یہ حقیقت کہ ایمان واطاعت میں لوگ مختلف المراتب ہوتے ہیں قرآن وحدیث سے بھی یہ ثابت ہے ۔اللہ فرماتا ہے:

﴿ثُمَّ أَورَثنَا الكِتـٰبَ الَّذينَ اصطَفَينا مِن عِبادِنا فَمِنهُم ظالِمٌ لِنَفسِهِ وَمِنهُم مُقتَصِدٌ وَمِنهُم سابِقٌ بِالخَير‌ٰتِ ...﴿٣٢﴾... سورة فاطر

’’پھر ہم نے اس کتاب کا وارث بنادیا،ان لوگوں کو جنہیں ہم نے اپنے بندوں میں سے چن لیا۔اب کوئی تو ان میں سے اپنے نفس پر ظلم کرنے والا ہے اور کوئی بیچ کی  راہ پر ہے اور کوئی اللہ کے اذن سے نیکیوں میں سبقت کرنے والا ہے‘‘

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو تین مرتبوں میں تقسیم کیا ہے۔ایک قسم ان لوگوں کی ہے،جو اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں یعنی کثرت گناہ میں ملوث ہیں۔دوسرے وہ جو درمیانی روش پر گامزن ہیں یعنی ان میں اچھائیاں بھی ہیں اور برائیاں بھی۔اور تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جو نیکیوں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیتے ہیں۔

حدیث شریف میں ہے:

"مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ"

’’تم میں سے جو برائی دیکھے اسے چاہیے کہ وہ اسےبہ زورطاقت دورکرے،جو ایسا نہیں کرسکتا،وہ اپنی زبان سے دورکرے۔جو ایسا بھی نہیں کرسکتا،وہ اپنے دل ہی میں اسے بُرا سمجھے اور یہ ایمان کا کمزور ترین پہلو ہے‘‘

اس حدیث سے واضح ہے کہ مومنین میں تین درجے ہوتے ہیں۔ایک درجہ ان لوگوں کا ہے،جو بہ زور طاقت برائیوں کو روکتے ہیں،دوسرا ان لوگوں کا ہے جو زبان سے برائیوں کا مقابلہ کرتے ہیں اور تیسری قسم ان کمزور لوگوں کی ہے،جو برائیوں کی روک تھام پر قادر نہیں ہیں۔البتہ دل سے انہیں برا تصور کرتے ہیں۔

اس طویل گفتگو اور ان دلائل وبراہین کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کسی شخص کو کافر قراردینا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔جو لوگ اپنے تقوے اور علم وفضل کے غرورمیں مبتلا ہوکر ا پنے علاوہ دوسروں کو کافر گردانتے پھرتے ہیں،ان کا عمل قرآن وسنت کے خلاف ہے اور وہ تشدد اورغلو میں مبتلا ہیں۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"إِيَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ فَإِنَّمَا اَهَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ اَلْغُلُوِّ "

’’غُلو سے بچو،تم سے پیش تر قوموں کو غلو ہی نے ہلاک کیاتھا‘‘

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

عقائد،جلد:1،صفحہ:73

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ