السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
طلاق کےباب میں اہل علم وفقہ درج ذیل مشہور حدیث پر اعتماد کرتے ہیں:
"أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى الطَّلَاقُ"
’’اللہ کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ حلال چیز طلاق ہے‘‘تاہم بعض علمائے حدیث اس حدیث کو ضعیف قراردیتے ہیں۔کیا آپ کے علم میں کچھ دوسری ایسی دلیلیں ہیں جن میں طلاق کے ناپسندیدہ ہونے کا ذکر ہو؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
میں اس سوال کا جواب درج ذیل نکات میں دینے کی کوشش کروں گا:
1۔اس بات کا اثبات کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
2۔کتاب وسنت سے بعض دوسرے حوالے جن میں طلاق کو ناپسندیدہ قراردیا گیا ہے۔
3۔شریعت کے اصولوں سے اس ناپسندیدگی کی تائید۔
(1)۔ابوداود،ابن ماجہ اور حاکم نے اس کی مرفوعاً روایت کی ہے۔عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا۔امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اسے مرسل بیان فرماتے ہیں یعنی اس کی سند میں صحابی عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تذکرہ نہیں ہے۔ابن جوزی نے اس حدیث کے ایک راوی عبیداللہ بن ولید الوصافی کو ضعیف قراردیا ہے۔امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو صحیح قراردیا ہے۔
ان علماء کے اقوال کی روشنی میں میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر حدیث صحیح کے رتبے تک نہ بھی ہوتو حسن کے مرتبہ سے کم نہیں۔
بعض علماء نے روایت کے پہلو سے اس کو ضعیف قراردیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ایک ہی چیز بیک وقت حلال اور خدا کی نظر میں ناپسندیدہ دونوں کیسے ہوسکتی ہے؟
اس کاجواب بعض علماء نے یہ دیا ہے کہ حلال کی ایک قسم ایسی بھی ہے جو خدا کی نظر میں مکروہ ہے۔امام خطابی کہتے ہیں کہ کراہت نفس طلاق میں نہیں بلکہ ان عوامل میں ہے جو طلاق کاموجب بنے۔بعض نے یہ توجیہ پیشکی ہے کہ طلاق توفی نفسہ حلال ہے۔لیکن اس میں کراہت کاپہلو یہ ہے کہ طلاق کے بعد جونتائج مرتب ہوتے ہیں وہ ناپسندیدہ ہوتے ہیں۔
2۔کتاب وسنت میں ایسے شواھد موجود ہیں جن سے طلاق کی ناپسندیدگی ثابت ہوتی ہے۔قرآن کریم نے شوہروں کو اس بات کی ترغیب دی ہے کہ وہ اپنی ان بیویوں کو جنہیں وہ ناپسند کرتے ہیں طلاق نہ دیں بلکہ ان کے ساتھ نبھانے کی کوشش کریں۔اللہ فرماتاہے:
﴿وَعاشِروهُنَّ بِالمَعروفِ فَإِن كَرِهتُموهُنَّ فَعَسىٰ أَن تَكرَهوا شَيـًٔا وَيَجعَلَ اللَّهُ فيهِ خَيرًا كَثيرًا ﴿١٩﴾... سورة النساء
’’ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔اگر وہ تمھیں ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اسی میں بہ کچھ بھلائی رکھ دی ہو‘‘
قرآن نے ان بیویوں کے بارے میں جو نافرمانی کی مرتکب ہوں فرمایا:
﴿فَإِن أَطَعنَكُم فَلا تَبغوا عَلَيهِنَّ سَبيلًا ...﴿٣٤﴾... سورة النساء
’’اگر وہ تمہاری مطیع ہوجائیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لیے بہانے نہ کرو‘‘
ذرا غور کریں کہ جب نافرمانی بیوی پر زیادتی کرنے سے منع کیاگیا ہے تو فرماں بردار اور نیکوکاری بیوی پر طلاق کا ظلم کیسے رواہوسکتا ہے؟
علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ طلاق اصلاً ممنوع ہے۔محض بہ وقت ضرورت اس کی اجازت دی گئی ہے۔جیسا کہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک صحیح حدیث مروی ہے کہ ابلیس اپنا عرش سمندر میں نصب کر تا ہے،پھر اپنے کارندے پھیلاتا ہے۔سب سے مقرب کارندہ وہ ہے جو سب سے زیادہ فتنہ پھیلائے۔پھر وہ کارندہ ابلیس کے روبرو آگرکہتا ہے کہ میں اُسے بہکاتارہا حتی کہ اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان علیحدگی کرادی۔ابلیس اسے اپنے قریب بلاتا ہے اور فرط محبت سے گلے لگالیتا ہے۔اس حدیث سے واضح ہے کہ شوہر اور بیوی کے درمیان علیحدگی ایک شیطانی اور ناپسندیدہ فعل ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جادو کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا:
﴿فَيَتَعَلَّمونَ مِنهُما ما يُفَرِّقونَ بِهِ بَينَ المَرءِ وَزَوجِهِ ...﴿١٠٢﴾... سورة البقرة
’’پھر بھی یہ لوگ ان سے وہ چیز سیکھتے تھے جس سے شوہر اور بیوی میں جدائی ڈال دیں‘‘
ایک دوسری حدیث میں حضور نے فرمایا:
"إِنَّ الْمُخْتَلِعَاتِ هُنَّ الْمُنَافِقَاتُ "
’’خلع کرانے والی عورتیں منافق ہوتی ہیں‘‘
ایک اور حدیث اسی مفہوم کی ہے:
"أَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا طَلاقًا فِي غَيْرِ مَا بَأْسٍ فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّة "
’’جس عورت نے بغیر کسی وجہ کے اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کیا اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے‘‘
ان سب دلائل کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ طلاق فی نفسہ ایک ناپسندیدہ فعل ہے۔
3۔شرعی قواعد واصول سے بھی کراہت طلاق کی تائید ہوتی ہے۔
"ھدایۃ" جو احناف کی معتبر فقہی کتاب ہے اس میں طلاق کی تعریف یوں ہے’’طلاق اس نکاح کو ختم کرنے والاذریعہ ہے‘‘جس پر دنیوی اوردینی فوائد مرتب ہوتے ہیں۔‘‘
"المغنی" میں حنابلہ کی طلاق کے بارے میں یہ رائے ہے:طلاق شوہر اور بیوی د ونوں کے لیے باعث ضرر اور تکلیف دہ اور نقصان دہ ہے۔اگر یہ بلاعذر ہوتو حرام ہے‘‘
ابن عابدین جو حنفی تھے فرماتے ہیں کہ طلاق اگر بغیر کسی عذر کے ہوتو اس میں کوئی فائدے کی صورت نہیں بلکہ بیوقوفی اورحماقت کا کام ہے۔اور ایسی طلاق شرعاً ممنوع ہے۔
ان سب دلائل کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ طلاق واقعی ایک ناپسندیدہ عمل ہے اوروہ حدیث جس کا تذکرہ آپ نے اپنے سوال میں کیا ہے اور جو طلاق کو اللہ کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ حلال شئی قراردیتی ہے ایک صحیح حدیث ہے۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب