السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک صحیح حدیث کامفہوم یہ ہے کہ ہر دن جب سورج طلوع ہوتا ہے تو دو فرشتے اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ!اپنی راہ میں خرچ کرنیوالوں کو برکت وفضل عطا فرما اور بخل کرنے والوں کو بربادی۔لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ اس دنیوی زندگی میں عملی طور پر بہت سارے ایسے افراد ملیں گے جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں لیکن پھر بھی ان کی تنگ دامانی نہیں جاتی اور بہت سارے لوگو ایسے ہیں جو بخل سے کام لیتے ہیں اور داد عیش دے رہے ہیں،ایساکیوں ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ نے جس حدیث کا مفہوم پیش کیا ہے،وہ ایک صحیح حدیث کامفہوم ہے اور بخاری ومسلم میں اس طرح موجود ہے:
"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا مِنْ يَوْمٍ يُصْبِحُ الْعِبَادُ فِيهِ إِلَّا مَلَكَانِ يَنْزِلَانِ فَيَقُولُ أَحَدُهُمَا اللَّهُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا وَيَقُولُ الْآخَرُ اللَّهُمَّ أَعْطِ مُمْسِكًا تَلَفًا "
’’ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر دن جب شرو ہوتا ہے تو دو فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ان میں سے ایک دعا کرتا ہے کہ اے اللہ خرچ کرنے والے کو برکت عطا فرما اور دوسرا بددعا کرتا ہے کہ اے اللہ بخیل کے حصے میں بربادی رکھ دے‘‘
اسی مفہوم میں متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں۔قرآن میں بھی متعدد آیات اسی مفہوم کو پیش کرتی ہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَما أَنفَقتُم مِن شَىءٍ فَهُوَ يُخلِفُهُ ...﴿٣٩﴾... سورة سبا
’’ جو کچھ تم خرچ کردیتے ہو اس کی جگہ وہی تم کو اور دیتا ہے‘‘
سوال کرنے والے بھائی کو اس حدیث کو سمجھنے میں جو غلط فہمی ہوئی ہے وہ یہ کہ انہوں نے برکت اور بربادی کو مال ودولت کی حد تک محدود کردیا۔جب کہ برکت کامفہوم محض مال ودولت میں اضافہ اور بربادی کا مفہوم محض مال ودولت میں خسارہ نہیں ہے بلکہ اس کا مفہوم اس سے وسیع تر ہے۔برکت کی بے شمار صورتیں ہوسکتی ہیں۔برکت کبھی صحت وتن درستی کی شکل میں ملتی ہے تو کبھی نیک اولاد کی شکل میں۔کبھی مال ودولت کی فراوانی کی صورت میں برکت ہوتی ہے تو کبھی محض معنوی برکت عطا ہوتی ہے مثلاً ہدایت کی توفیق،سکون قلب اور لوگوں میں عزت ومقبولیت وغیرہ وغیرہ ۔ان سب پر مستزاد وہ اجر ہے جو اللہ نے ان کے لیے آخرت میں تیار کررکھا ہے۔برکت کو محض چند سِکوں میں محصور کرلینا ایک زبردست غلط فہمی ہے۔یہ سبھی جانتے ہیں کہ ذہنی سکون سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿قُل بِفَضلِ اللَّهِ وَبِرَحمَتِهِ فَبِذٰلِكَ فَليَفرَحوا هُوَ خَيرٌ مِمّا يَجمَعونَ ﴿٥٨﴾... سورة يونس
’’اے نبی!کہو کہ یہ اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی،اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے،یہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ سمیٹ رہے ہیں‘‘
اسی طرح بربادی کا مفہوم محض مال ودولت میں خسارہ نہیں ہے ۔بربادی کبھی بیماری کی صورت میں آسکتی ہے تو کبھی غیر صالح اولاد کی صورت میں۔کبھی لوگوں میں نفرت کی صورت میں اور کبھی ذہنی خلفشار کی صورت میں۔کبھی انسان کو ایسی بے چینی اور خلش لاحق ہوجاتی ہے جو ہزار نعمت کے باوجود مستقل اسے اندر ہی اندر گھلائے جاتی ہے۔ان سب پر مستزاد وہ عذاب ہے جو اللہ نے اس کے لیے آخرت میں تیار کررکھا ہے۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب