السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
دو مقالے ہیں جنھیں ہم عام طور پر لوگوں کی زبانوں سے سنتے ہیں اور وہ دونوں مقولے ایک دوسرے کی ضد ہیں۔پہلا مقولہ یہ ہے کہ"جلد بازی شیطان کا کام ہے"اور دوسرا یہ کہ"سب سے بھلی نیکی وہ ہے جو جلد کرلی جائے۔"کیا یہ دونوں مقولے حدیث نبوی ہیں۔اگر ہیں تو ان دونوں کے درمیان مطابقت کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟اگر حدیث نہیں ہیں تو ان میں صحیح کون ہے اور غلط کون؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
پہلا مقولہ تو ایک حدیث نبوی کا جزوہے۔پوری حدیث یوں ہے:
" الأَنَاةُ مِنَ اللَّهِ وَالْعَجَلَةُ مِنَ الشَّيْطَانِ ""(2)
’’ٹھہرٹھہر کرعمدگی سے کام کرنا اللہ کی صفت ہے اور جلد بازی شیطان کی صفت ہے‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ جلد بازی کوہرزمانے میں اور ہر قوم نے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہے۔اس کے برعکس ٹھہر ٹھہر کر خوش اسلوبی کے ساتھ کام نمٹانے کی تعریف ہرزمانے کے ذی شعور لوگوں نے کی ہے۔اس مفہوم کا حامل ایک مشہور مقولہ ہے:
"في التأني السلامة وفي العجلة الندامة"
"سوچ بچار کر ٹھہرٹھہر کا کام کرنے میں سلامتی ہے اور جلد بازی میں ندامت ہے"
ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جلد بازی کو شیطان کی طرف منسوب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جلد بازی میں جو فیصلہ کیا جاتا ہے اس میں ہلکاپن،غصہ اور طیش شامل ہوتا ہے جو بندے کو وقار،بردباری اور ثبات سے دور کرتا ہے چنانچہ اس کے نتائج ہمیشہ برے ہوتے ہیں۔
ایک حدیث نبوی( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہے:
"يُسْتَجَابُ لأَحَدِكُمْ مَا لَمْ يَعْجَلْ" (3)
"بندے کی دُعاقبول ہوتی ہے اگر وہ جلدی نہ مچائے"
رہا دوسرا مقولہ تو وہ کوئی حدیث نہیں ہے البتہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اسی مفہوم کا ایک قول مروی ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
"لَا يَتِمُّ الْمَعْرُوفُ إلَّا بِثَلَاثٍ خِصَالٍ : تَعْجِيلُهُ"
"بھلا کام اُسی وقت پورا ہوتا ہے جب اسے جلد از جلد کرلیا جائے"
اس قول میں بھلائی کے کام کو جلد کرنے کی ترغیب ہے۔اس امرمیں کوئی شک نہیں کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں جلدی کرنا اوراس کی طرف تیزی سے لپکنا ایک پسندیدہ اور قابل تعریف صفت ہے۔اللہ تعالیٰ نے بھی ایسے لوگوں کی تعریف فرمائی ہے:
﴿أُولـٰئِكَ يُسـٰرِعونَ فِى الخَيرٰتِ وَهُم لَها سـٰبِقونَ ﴿٦١﴾... سورةالمؤمنون
"یہ لوگ بھلائیوں میں جلدی کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں"
ایک دوسری آیت ہے:
﴿ فَاستَبِقُوا الخَيرٰتِ...﴿١٤٨﴾... سورة البقرة
"بھلائیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاؤ"
چنانچہ یہ دوسرا مقولہ اپنے معنی ومفہوم کے اعتبار سے بالکل درست ہے گرچہ یہ حدیث نہیں ہے۔اور اس مقولے اور مذکورہ حدیث کے درمیان معنی ومفہوم کے اعتبار سے کوئی تناقض بھی نہیں ہے کہ مطابقت کی ضرورت ہو۔
علمائے کرام نے ٹھہر ٹھہر کر کام کرنے کو قابل تعریف اور جلد بازی کو قابل مذمت تین شرطوں کے ساتھ ٹھہرایا ہے:
1۔پہلی شرط یہ ہے کہ وہ کام جس کا کرنا مقصود ہواگر اطاعت الٰہی اور بھلائی اور نیکی کے دائرے میں آتا ہے تو اس میں سبقت لے جانے کی کوشش کرنا اور اس میں جلد بازی کرنا نہ صرف قابل تعریف ہے بلکہ یہی مطلوب ومقصود ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہدایت کی تھی کہ اے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ !تم تین چیزوں میں کبھی تاخیر نہ کرنا۔نماز جب اس کاوقت ہوجائے،جنازہ جب سامنے لاکررکھ دیا جائے اور کنواری لڑکی کا نکاح جب اس کابرمل جائے(4)
مشہور عالم دین ابوالعیناء کو کسی نے جلد بازی سے منع کیا تو آپ نے جواب دیا کہ اگر ایسی ہی بات ہے تو موسیٰ علیہ السلام کبھی اللہ سے یہ نہ کہتے کہ:
﴿وَعَجِلتُ إِلَيكَ رَبِّ لِتَرضىٰ ﴿٨٤﴾... سورة طه
"اور اے رب میں تیرے پاس جلدی چلاآیا تاکہ تو راضی ہوجائے"
2۔وہ جلد بازی قابل مذمت ہے،جو بغیر غور وفکر اور تدبر کے ہو۔کسی کام میں غوروفکر اور مشورہ کرلینے کے بعد اس میں ٹال مٹول سے کام لینا کوئی تعریف کی بات نہیں۔یہ تو سستی اور کاہلی کی علامت ہے۔قرآن فرماتاہے:
﴿وَشاوِرهُم فِى الأَمرِ فَإِذا عَزَمتَ فَتَوَكَّل عَلَى اللَّهِ ...﴿١٥٩﴾... سورة آل عمران
"اور دین کے کام میں ان کو بھی شریک مشورہ رکھو۔پھر جب تمہارا عزم کسی رائے پر مستحکم ہوجائے تو اللہ پر بھروسا کرو"
3۔ٹھہر ٹھہر کرکام کرنے کایہ مطلب نہیں کہ انسان اتنی تاخیر کردے کہ مقصد ہی فوت ہوجائے یا مطلوبہ کام کا وقت ہی نکل جائے۔اس لیے کہ وقت نکل جانے کے بعد کفِ افسوس ملنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب