سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(14) اہل خانہ کی نوحہ خوانی کی وجہ سے میت کا عذاب میں مبتلا ہونا

  • 23766
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1165

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مطالعے کے دوران ایک حدیث میری نظر سے گزری کہ:

"أن الميت يعذب ببكاء أهله عليه"

"اہل خانہ کی آہ وبکا کی وجہ سے میت کو عذاب دیا جاتا ہے"

یہ حدیث اس لیے سمجھ نہیں آئی کہ اسلام کا اصولی حکم یہ ہے کہ ہر شخص صرف اپنے کئے کی سزا بھگتتا ہے۔تو پھر وہ مردہ شخص دوسروں کی نوحہ خوانی کی پاداش میں کیوں کر عذاب کا مستحق ہوا؟اگر یہ حدیث صحیح ہے تو اس کی توضیح وتشریح مطلوب ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس حدیث کی بات تو یہ ہے کہ بے شبہ صحیح حدیث ہے۔بخاری ومسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی روایت کے ساتھ موجود ہے۔عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی بیٹی حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   جب عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو نزاع کی حالت میں دیکھ کر رونے لگیں تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے انہیں رونے پیٹنے سے منع فرمایا اور ساتھ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی یہ حدیث پیش کی۔بخاری ومسلم میں اسی مفہوم کی دوسری احادیث اتنے تواتر کے ساتھ منقول ہیں کہ اس حدیث کے صحیح ہونے میں کوئی شبہ نہیں کیا جاسکتا۔

البتہ علمائے کرام نے اس حدیث اور اسلام کا وہ اصول جس کا آپ نے تذکرہ کیا ہے،دونوں کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے علمائے کرام کی اس کوشش کا اپنی کتاب فتح الباری میں احاطہ کیا ہے۔اسے ذیل میں اختصار کے ساتھ پیش کرتا ہوں:

1۔یہاں اس حدیث میں عذاب سے مراد اس کا لغوی مفہوم ہے یعنی مجرد تکلیف اور دکھ۔نہ کہ آخرت یاقبر کا عذاب۔یعنی جب میت کے اقربا نوحہ خوانی کرتے ہیں تو اس عمل سے میت کو تکلیف ہوتی ہے۔اقربا کے اس عمل کی خبر میت کو ملتی رہتی ہے جیسا کہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"أن أعمال العباد تعرض على أقربائهم من موتاهم" 

"بندوں کے اعمال ان کے مُردہ رشتہ داروں پر پیش کیے جاتے ہیں"

ابوجعفر الطبری رحمۃ اللہ علیہ  اورعلامہ ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  جیسے جید علماء نے یہ تاویل پیش کی ہے۔(1)۔

2۔عذاب سے مراد یہاں فرشتوں کی ڈانٹ پھٹکار ہے۔امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ایک حدیث نقل کی ہے،جس کامفہوم یہ ہے کہ میت زندوں کی آہ وبکا سے عذاب میں مبتلا رہتی ہے۔کیونکہ بین کرنے والے جب چیخ چیخ کر مرنے والے کو دہائی دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہائے تو ہی میرا سہارا تھا،تو ہی میرا مدد گار تھا۔تو فرشتے ڈانٹ کر طنزاً مردے سے پوچھتے ہیں کہ کیا واقعی تو ہی اس کا سہارا تھا؟کیا واقعی تو ہی اس کا مددگار تھا؟۔حالانکہ حقیقی مددگار تو اللہ تعالیٰ ہے۔

اسی مفہوم کا ایک واقعہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے کتاب المغازی میں تذکرہ کیا ہے،جس کے  راوی نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ہیں۔وہ فرماتے ہیں کہ جب عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  پر نزع کی کیفیت طاری ہوئی تو ان کی بہن چیخ پکار کرنے لگیں۔اور کہتی جاتی تھیں کہ ہائے میری حفاظت کرنے والا،ہائے یہ اور ہائے وہ،عبداللہ بن رواحہ جب ذرا ہوش میں آئے تو فرمایا کہ تو نے جن جن چیزوں کے ذریعے مجھے دہائی دی وہی ساری چیزیں مجھ سے کسی نے پوچھیں(یعنی فرشتوں نے) کہ کیا تم واقعی ایسے ہی ہو؟

3۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  کی رائے یہ ہے کہ اس حدیث میں آہ وبکا سے مراد ہر آہ وبکا نہیں ہے بلکہ صرف بین کرنا اور نوحہ خوانی کرنا ہے۔اسی طرح میت سے مراد ہر میت نہیں ہے بلکہ وہ میت ہے جس کے  گھر میں نوحہ خوانی ایک رواج کی حیثیت رکھتی تھی۔میت اپنی زندگی میں سب کچھ دیکھتی تھی لیکن اس نے اپنے گھروالوں کو اس عمل سے کبھی منع نہیں کیا۔چنانچہ اس غفلت کی پاداش میں اسے عذاب دیا جائے گا۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی رائے کی حمایت میں چند آیات اور احادیث پیش کی ہیں۔مثلاً:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا قوا أَنفُسَكُم وَأَهليكُم نارًا...﴿٦﴾... سورة التحريم

"اے لوگو جو ایمان لائے ہو!بچاؤاپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے"

اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

"كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْؤول عَنْ رَعِيَّتِهِ(بخاری ومسلم عن ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ )

"تم میں ہر ایک شخص ذمےدار ہے اور اپنی رعیت کے سلسلے میں جوابدہ ہے"

اس آیت اور حدیث کا تقاضا یہ ہے کہ میت کو اس جرم کی پاداش میں عذاب ہوکہ اس نے اپنے گھر والوں کی تربیت میں کوتاہی کی اورانہیں نوحہ خوانی کے ایسے غیر اسلامی رواج سے منع نہیں کیا۔

4۔اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے،جسے علامہ منادی رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی کتاب"الفیض" میں  ذکر کیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ میت سے مراد وہ شخص ہے جو جاں بلب ہو،نزع کی کیفیت میں ہو۔اس حالت میں نوحہ کرنے والے جب چیخ وپکار کرتے ہیں تو اس کی تکلیف کی شدت میں اضافہ کرتے ہیں۔

یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے جب یہ حدیث سنی تو انہوں نے بھی یہ کہہ کر اس حدیث کو ماننے سے انکار کردیا کہ یہ حدیث اسلامی اصول اور قرآن کے منافی ہے۔انہوں نے حدیث کی روایت کو راوی کی بھول چوک پرمحمول کیا۔

مسلم کی روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے فرمایاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے وہ نہیں فرمایا بلکہ یہ فرمایا ہے کہ:

"‏ إِنَّهُ لَيُعَذَّبُ بِخَطِيئَتِهِ أَوْ بِذَنْبِهِ وَإِنَّ أَهْلَهُ لَيَبْكُونَ عَلَيْهِ"

"میت اپنے گناہوں کی پاداش میں عذاب کی حقدار ہوتی ہے۔اور اس کے گھر والے اس پر روتے ہیں"

البتہ علماء کرام حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کے اس موقف سے متفق نہیں ہیں۔غلطی سے پاک ذات تو صرف اللہ کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے بھی  غلطی ہوسکتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  ۔امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ ۔اور امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  جیسےاکابر علماء نے حضرت  عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کے اس موقف کو صحیح احادیث کے مخالف قراردیا ہے۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

احاديث،جلد:1،صفحہ:55

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ