سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(12) آسمان و زمین کی تخلیق چھ دنوں میں

  • 23764
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2074

سوال

(12) آسمان و زمین کی تخلیق چھ دنوں میں

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذى خَلَقَ السَّمـٰو‌ٰتِ وَالأَرضَ فى سِتَّةِ أَيّامٍ...﴿٥٤﴾... سورة الاعراف

’’درحقیقت تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا‘‘

ان چھ دنوں سے کیا مراد ہے؟میں نے بعض تفسیر کی کتابوں میں پڑھا ہے کہ چھ دنوں کامطلب ہے چھ دور(Periods)۔ہمیں نہیں معلوم کہ اللہ نے آسمان وزمین کی تخلیق چھے دنوں میں کی ہے یا چھے دور میں؟آپ سے وضاحت مطلوب ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بے شبہ ان چھ دنوں سے مراد وہ دن نہیں ہیں جن کی پیمائش چوبیس گھنٹے سے ہوتی ہے۔کیوں کہ چوبیس گھنٹوں پر محیط دن کی تخلیق بھی تو آسمان وزمین اور شمس وقمر کی تخلیق کے بعد ہوئی ہےزمین اور سورج کی تخلیق سے قبل ایسے دن کا تصور غیر معقول ہے جو چوبیس گھنٹے پر محیط ہو۔

آسمان وزمین کی تخلیق اللہ تعالیٰ نے چھ دنوں میں کیسے کی اس کی پوری تفصیل سورۃ حٰم السجدۃ آیت نمبر 9تا12 میں درج ہے۔

عین ممکن ہے کہ چھ دن سے مراد چھ دور ہوں۔ان میں سے ہر ایک دور کتنی مدت پر محیط ہے اس کا علم تو صرف اللہ کو ہے۔عربی زبان میں اس کی گنجائش ہے کہ لفظ ’’یوم‘‘ سے مراد دور یا وقفہ لیا جائے۔عربی زبان میں’’یوم‘‘ اس گھڑی یا وقت کے متعین حصے کوکہتے ہیں جو وقت کے دوسرے حصے سے مختلف اور نمایاں ہو۔چنانچہ’’ایام العرب‘‘ کا مفہوم ہے عربوں کی مشہور جنگیں۔اللہ کے نزدیک لفظ یوم سے کیامراد ہے ملاحظہ کیجئے:

﴿وَإِنَّ يَومًا عِندَ رَبِّكَ كَأَلفِ سَنَةٍ مِمّا تَعُدّونَ ﴿٤٧﴾... سورة الحج

’’اورتیرے رب کے ہاں کا ایک دن تمہارے شمار کے ہزار برس کے برابر ہواکرتا ہے‘‘

قیامت کے سلسلہ میں اللہ فرماتا ہے:

﴿فى يَومٍ كانَ مِقدارُهُ خَمسينَ أَلفَ سَنَةٍ ﴿٤﴾... سورة المعارج

’’ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے‘‘

مختصر یہ کہ عربی زبان میں لفظ یوم کا مفہوم محض چوبیس گھنٹے کادن نہیں بلکہ اس کا مفہوم اس سے وسیع تر ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کی تخلیق چھ دنوں میں کی حالانکہ وہ اس بات پر قادر تھا کہ اپنی زبان سے’’کُن‘‘ کہے اور سب کچھ آپ ہی آپ تیار ہوجائے۔اس کی کیا مصلحت ہے یہ تو اللہ ہی کو بہتر معلوم ہے۔غالب گمان یہ ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے بندون کے لیے یہ سبق رکھا گیاہے کہ ہرکام کو ٹھہر ٹھہر کرخوش اسلوبی سے کیا جائے،جلدبازی اور عجلت میں نہیں۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

قرآنی آیات،جلد:1،صفحہ:50

محدث فتویٰ

تبصرے