السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سورۃالکہف میں بادشاہ ذوالقرنین کے واقعے کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿حَتّىٰ إِذا بَلَغَ مَغرِبَ الشَّمسِ وَجَدَها تَغرُبُ فى عَينٍ حَمِئَةٍ وَوَجَدَ عِندَها قَومًا قُلنا يـٰذَا القَرنَينِ إِمّا أَن تُعَذِّبَ وَإِمّا أَن تَتَّخِذَ فيهِم حُسنًا ﴿٨٦﴾... سورة الكهف
’’حتیٰ کہ جب وہ غروب آفتاب کی حد تک پہنچ گیا تو اس نے سورج کو ایک کالے پانی میں ڈوبتے دیکھا اور وہاں اسے ایک قوم ملی۔ہم نے کہا اے ذوالقرنین !تجھے یہ مقدرت حاصل ہے کہ ان کو تکلیف پہنچائے اور یہ بھی کہ ان کے ساتھ نیک رویہ اختیار کرے‘‘
سوال یہ ہے کہ وہ کون سا کیچڑ آلود چشمہ ہے جس میں سورج ڈوب رہا تھا؟اور وہ کون سی قوم تھی جن سے ذوالقرنین کی ملاقات ہوئی؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بادشاہ ذوالقرنین کا تذکرہ سورۃ الکہف میں درج ہے۔اس قصے کو بیان کرتے ہوئے قرآن نے ہمیں نہ یہ بتایا ہے کہ ذوالقرنین کون تھا اور نہ تفصیل کے ساتھ اس واقعے ہی کا تذکرہ کیاہے کہ مشرق ومغرب میں وہ کہاں کہاں گیا اور کن کن قوموں سے ملاقات کی۔اسی سورۃ میں دوسرے واقعات بھی منقول ہیں اور ان میں بھی ناموں اور تفاصیل سے کوئی تعرض نہیں ہے۔اس کی حکمت تو اللہ ہی کوبہتر معلوم ہے تاہم قرین قیاس یہی معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں قصوں اور واقعات کے تذکرے کا مقصد محض تاریخی حقائق کا اندراج نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ سننے اور پڑھنے والے ان سے عبرت حاصل کریں۔جیسا کہ اللہ فرماتا ہے:
﴿لَقَد كانَ فى قَصَصِهِم عِبرَةٌ لِأُولِى الأَلبـٰبِ...﴿١١١﴾... سورةيوسف
’’بے شبہ ان کے قصوں میں سامان عبرت ہے عقل والوں کے لیے‘‘
اس سورۃ میں ذوالقرنین کا واقعہ بھی عبرت آموز ہے ۔وہ ایک ایسا بادشاہ تھا،جسے اللہ نے زمین پر حکمرانی عطاکی ،اُسے ہر طرح کے اسباب ووسائل سے مالا مال کیا،ہرچہار جانب اس کی فتح ونصرت کے ڈنکے بجنے لگے اور قومیں اس کی مطیع وفرماں بردار ہوجائیں،تاہم اس سب کے باوجود اس کے دل میں گھمنڈ پیدا نہ ہوا،ہمیشہ عدل وانصاف پر قائم رہا اور اللہ کےقائم کردہ حدود سے کبھی تجاوز نہیں کیا۔جیسا کہ اس نے اس قوم کو مخاطب کرکے کہا تھا:
﴿قالَ أَمّا مَن ظَلَمَ فَسَوفَ نُعَذِّبُهُ ثُمَّ يُرَدُّ إِلىٰ رَبِّهِ فَيُعَذِّبُهُ عَذابًا نُكرًا ﴿٨٧﴾ وَأَمّا مَن ءامَنَ وَعَمِلَ صـٰلِحًا فَلَهُ جَزاءً الحُسنىٰ ...﴿٨٨﴾... سورةالكهف
’’جوان میں ظلم کرے گا ہم اس کو سزا دیں گے پھر وہ اپنے رب کی طرف پلٹا یا جائے گا اور وہ اسے اور زیادہ سخت عذاب دے گا۔اور جو ان میں سے ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا اس کے لیے اچھی جزا ہے‘‘
رہا یہ سوال کہ وہ کون سا چشمہ تھا جہاں سورج ڈوب رہا تھا اور کن قوموں سے ذوالقرنین نے ملاقات کی،اس بارے میں قرآن خاموش ہے۔اس کے تذکرے میں اگر کوئی دینی یا دنیوی فائدہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ ہمیں ضرور بتاتا۔قرآن میں جو کچھ اس واقعے کی تفصیل موجود ہے وہ یہ کہ ذوالقرنین مغرب کی طرف روانہ ہوا۔جب وہ مغرب کے انتہائی سرے پر پہنچا تو وہاں سورج کو ایک چشمے میں غروب ہوتے ہوئے دیکھا۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ واقعتاً سورج اس کیچڑ والے چشمے میں ڈوب رہا تھا بلکہ یہ محض ایک منظر کشی ہے کہ دیکھنے والے کو یہ محسوس ہورہا تھا کہ سورج اس چشمے کی آغوش میں دھیرے دھیرے جارہا ہے،ہوسکتا ہے کہ یہ جگہ ہوجہاں دریا کاگدلا پانی سمندر میں آگرتا ہے یا حقیقتاً وہ ایک ایسا چشمہ ہو جہاں کیچڑ کی بہتات ہو۔مقصد بہرحال غروب شمس کی منظر کشی ہے۔اور اس پورے واقعے کا مطلوب ومقصود ایک ایسے بادشاہ کی تصویر کشی ہے،جو اس سرزمین کے ایک بڑے علاقے کا واحد مضبوط ومستحکم بادشاہ ہوتے ہوئے بھی عدل وانصاف کا پیکر تھا۔یہ سامان عبرت ہے عقل والوں کے لیے۔اس موقع پر میں یہ بتانا چاہوں گا کہ ہمارے لیے یہی بہتر ہے کہ ہم اُسی پر اکتفا کریں،جس پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے۔خواہ مخواہ ایسے سوالات نہ کریں جس کاکوئی دینی یا دنیوی فائدہ نہ ہو۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب