سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(6) ہارون سے مراد کون ہے؟

  • 23758
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1829

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مندرجہ ذیل آیت کریمہ میں ہارون سے مراد کون ہے؟

﴿يـٰأُختَ هـٰرونَ ما كانَ أَبوكِ امرَأَ سَوءٍ وَما كانَت أُمُّكِ بَغِيًّا ﴿٢٨﴾... سورة مريم

’’اے ہارون کی بہن!نہ تیرا باپ کوئی بُرا آدمی تھا اور نہ تیری ماں ہی کوئی بدکار عورت تھی‘‘

کیا اس آیت میں ہارون سے مراد وہ ہارون ہیں جوموسیٰ  علیہ السلام  کے بھائی اور نبی تھے،حالاں کہ مریم  علیہ السلام  اور ھارون  علیہ السلام  کے درمیان سینکڑوں سال کا فاصلہ ہے۔یااس سے مراد کوئی دوسرا ہارون ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس آیت کریمہ میں ہارون سے مراد وہ ہارون بھی ہوسکتے ہیں جو موسیٰ علیہ السلام  کے بھائی اور اللہ کے نبی تھے۔اس صورت میں ہارون کی بہن کا مطلب حقیقی بہن نہیں بلکہ ان کادینی بہن ہے۔کیوں کہ بالفعل ہارون علیہ السلام  اور مریم علیہ السلام  کے درمیان سینکڑوں سال کا فاصلہ ہے اور وہ دونوں حقیقی بھائی بہن ہوہی نہیں سکتے۔لوگوں نے جو انھیں ہارون علیہ السلام  کی بہن کہہ کر پکارا تو ان کا مقصد یہ تھا کہ اے وہ عورت جو اس نبی صالح  علیہ السلام  کی ذریت میں سے ہے  اور جسے ہیکل سلیمانی کی دیکھ بھال اور عبادت الٰہی کی بنا پر اس نبی صالح سے ایک خاص نسبت ہے تو آخر وہ کس طرح اس بدکاری کی مرتکب ہوسکتی ہے؟یہ بات تو سبھی کو معلوم ہے کہ ہیکل سلیمانی کی دیکھ بھال کا شرف ھارون  علیہ السلام  کی اولاد کو حاصل تھا اور مریم علیہ السلام  نے بھی اپنی زندگی ھیکل سلیمانی کی دیکھ بھال کے لیے وقف کررکھی تھی۔اسی نسبت سے کہنے والوں نے انہیں ھارون کی بہن کہہ دیا۔

ہارون سے مراد مریم علیہ السلام  کا ہم عصر کوئی دوسرا عابدوزاہدشخص بھی ہوسکتاہے۔گویا کہ زھدوعبادت کی نسبت کے پیش نظر لوگوں نے انہیں ھارون کی بہن کہہ کر پکارا ہو۔

مسند احمد،صحیح مسلم اور ترمذی وغیرہ میں  مغیرہ بن شعبہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں اہل نجران کی طرف بھیجا اور وہ سب عیسائی تھے۔ان عیسائیوں نے مغیرہ بن شعبہ سے’’یا اُخت ھارون‘‘پراعتراض کیا کہ وہ ہارون کی بہن کیسے ہوسکتی ہیں حالاں کہ ان کے درمیان سینکڑوں سال کا فاصلہ ہے۔مغیرہ بن شعبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس تشریف لائے اوران لوگوں کا اعتراض آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے سامنے پیش کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ کیا تم نے انہیں یہ بات نہیں بتائی کہ اس زمانہ میں لوگ اپنے بچوں کا نام انبیاء  علیہ السلام  وصالحین کے نام پر رکھتے تھے؟اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ ھارون سے مراد موسیٰ علیہ السلام  کے بھائی نہیں ہیں جیسا کہ اہل نجران نے سمجھا بلکہ ہارون سے مراد مریم علیہ السلام  کا ہی ہم عصر کوئی نیک اور عابد وزاہد شخص ہے جس کانام ہارون تھا۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

قرآنی آیات،جلد:1،صفحہ:40

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ