السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَسارِعوا إِلىٰ مَغفِرَةٍ مِن رَبِّكُم وَجَنَّةٍ عَرضُهَا السَّمـٰوٰتُ وَالأَرضُ... ﴿١٣٣﴾... سورة آل عمران
’’دوڑ کر چلو اس راہ پر جو تمہارے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جاتی ہے،جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے‘‘
سوال یہ ہے کہ اگر جنت کا حجم تمام آسمان وزمین کے حجم کے برابر ہے تو پھر جہنم کا محل وقوع کہاں ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حقیقت یہ ہے کہ ہم کائنات کے جس مختصر سے جزء میں بستے ہیں،وہ محض آسمان وزمین پر ہی مشتمل نہیں ہے،بلکہ ان آسمانوں سے پرے بھی کائنات کی لامحدود وسعتیں ہیں جواللہ کی ملکیت ہیں اور جن تک نہ ہماری عقل کی رسائی ہوسکی ہے اور نہ جدید سائنس ہی ان پر اپنی کمندیں ڈال سکا ہے۔اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں رکوع سے اٹھتے وقت ہمیں یہ دعا پڑھنے کی تاکید فرمائی ہے:
"اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ مِلْءُ السَّمَاوَاتِ وَمِلْءُ الْأَرْضِ وَمِلْءُ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ" (مسلم)
’’اے اللہ تیرے ہی لیے ساری تعریفیں ہیں آسمانوں اور زمین کے برابر اور ان کے علاوہ ان تمام چیزوں کے برابر جنھیں تو چاہے‘‘
جدید سائنس تحقیقات ابھی اس وسیع وعریض کائنات کے محض بعض حصہ پر سے پردہ اٹھا سکی ہے اور اس مختصر سے حصے کی ساخت کو لاکھوں کروڑوں نوری سال سے پیمائش کرتی ہے۔ہماری زمین اور بعض تاروں کے درمیان اتنی ساخت ہے کہ اسے طے کرنے کے لیے کروڑوں نوری سال درکار ہیں۔
چنانچہ اگر جنت ان آسمان وزمین کومحیط ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے بعد جہنم کے لیے کوئی جگہ نہیں بچتی،بلکہ اللہ تعالیٰ کی کائنات تو اس قدر وسیع ہے کہ اس میں جنت وجہنم دونوں سماجائیں اور اس کے بعد بھی ہزاروں چیزوں کے لیے جگہ باقی بچی رہے۔
یہ کوئی نیا سوال نہیں ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بعض صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین اور بعض اہل کتاب نے یہی سوال کیا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً ان سے ہی سوال کرڈالا کہ جب دن آتا ہے تورات کہاں ہوتی ہے؟ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً فرمایا کہ جب رات آکر ہرچیز کو تاریک کردیتی ہے توپھر دن کہاں ہوتا ہے؟سوال کرنے والے نے جواب دیا کہ دن ہاں ہوتا ہے جہاں اللہ کی مرضی ہوتی ہے۔اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر جہنم بھی وہیں ہے جہاں اللہ کی مرضی ہے۔
حافظ ابن کثیر اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس کے دو مفہوم ہوسکتے ہیں:
1۔ایک مفہوم تو یہ ہوسکتا ہے کہ طلوع سحر کے بعد ہمارے رات کو نہ دیکھ پانے سے یہ بات لازم نہیں ہوتی کہ رات کا وجود کہیں نہیں ہے۔ہرچند کہ اس کا مکان وجود ہمیں نہیں معلوم ہے۔
2۔جب رات دنیا کے ایک طرف ہوتی ہے تو دوسری طرف دن ہوتا ہے۔سای طرح جنت اس کائنات کے ایک طرف واقع ہے یعنی اعلیٰ علیین میں اور جہنم اس کائنات کے دوسری طرف واقع ہے یعنی اسفل السافلین میں ۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب