السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ماہرین فلکیات دعویٰ کرتے ہیں کہ زمین سورج کے اردگرد گھومتی ہے اور سورج اپنے مرکز پر ٹھہرا ہوا ہے۔حالانکہ قرآن کی رو سے زمین اور سورج دونوں ہی محوگردش ہیں۔ارشادباری تعالیٰ ہے:
﴿وَسَخَّرَ الشَّمسَ وَالقَمَرَ كُلٌّ يَجرى إِلىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى...﴿٢٩﴾... سورة لقمان
’’اس نے سورج اور چاند کو مسخر کررکھا ہے۔سب ایک وقت مقرر تک چلےجارہے ہیں‘‘
ماہرین فلکیات کے دعوے اور قرآنی فکر کے درمیان تطبیق کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
موجودہ صدی اور اس سے قبل بھی ماہرین فلکیات دعوے کرتے رہے ہیں کہ سورج اپنے مرکز پر ثابت وقائم ہے اور زمین اس کے اردگرد گھومتی ہےان کا یہ دعویٰ قرآنی نظریے کےبالکل خلاف ہے۔قرآن نے متعدد آیات میں سورج کی گردش کا ذکر کیا ہے۔مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
﴿وَالشَّمسُ تَجرى لِمُستَقَرٍّ لَها ذٰلِكَ تَقديرُ العَزيزِ العَليمِ ﴿٣٨﴾... سورة يٰس
’’اور سورج،وہ اپنے ٹھکانے کی طرف چلاجارہا ہے،یہ زبردست علیم ہستی کا باندھا ہوا حساب ہے‘‘
معلوم ہوا کہ قرآن اس نظریے کے حق میں ہے کہ سورج متحرک ہے ،غیر متحرک ثابت نہیں۔ماہرین فلکیات اب تک جو سورج کےثابت ہونے کا نظریہ پیش کرتے رہے اس کی غلطی اب خود جدید سائنسی تحقیقات نے ثابت کردی ہے۔جدید سائنسی تحقیقات کی رو سے زمین سورج کے گرد گردش کرتی ہے اور سورج بھی ا پنے محور گردش ہے۔اس لحاظ سے قرآنی نظریے اور سائنسی نظریے کے درمیان کوئی تعارض نہیں پایا جاتا۔
بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ زمین کی گردش کا نظریہ قرآن کی رو سے صحیح نہیں ہے کیونکہ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: کہ اس نے پہاڑوں کو زمین میں میخوں کی طرح پیوست کیاہے تاکہ زمین میں حرکی واضطرابی کیفیت پیدا نہ ہوسکے۔
یہ اعتراض بالکل بے بنیادہے۔پہاڑوں کے زمین میں میخوں کی طرح پیوست ہونے سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ زمین متحرک نہیں ہے۔اس کی مثال یوں ہے کہ ایک کشتی سمندر میں تیر رہی ہے سمندر کی طاقت ورلہروں میں گھِر کر ہچکولے کھاتی ہے ۔کسی نے کشتی کو ان ہچکولوں سے محفوظ رکھنے کےلیے اس پر بڑی وزنی چیزیں رکھ دیں۔اس وزن کے دباؤ کی وجہ سے کشتی میں اضطرابی کیفیت ختم ہوجاتی ہے اور وہ ہچکولوں سے محفوظ ہوجاتی ہے لیکن اس کے باجود وہ اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہتی ہے۔زمین کی مثال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب