قتل کے احکام اور اس کی اقسام
جنایات جنایۃ کی جمع ہے جس کے لغوی معنی ہیں۔"کسی کے بدن مال یا عزت پر تجاوز کرنا۔ "فقہائے کرام نے جسمانی نقصان سے متعلق شرعی مسائل کو کتاب الجنایات کے تحت بیان کیا ہے جبکہ باقی دو قسموں (کسی کے مال یا عزت کو نقصان پہنچانا ) کو کتاب الحدودکا عنوان دیا ہے۔
کسی شخص کو بدنی طور پر نقصان پہنچایا جائے تو اس میں قصاص یا دیت اور کفارہ لازم آتا ہے۔ تمام اہل اسلام کا اتفاق ہے کہ کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا حرام ہے۔ اس کی دلیل کتاب و سنت میں موجود ہے ۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"اور جس کا خون کرنا اللہ نے حرام کر دیا ہے اسے قتل مت کرو ہاں! مگر حق کے ساتھ۔"[1]
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"کسی مسلمان آدمی کا خون بہانا حلال نہیں سوائے تین قسم کے گناہوں میں سے کسی ایک گناہ کا ارتکاب کرنے والے کے شادی شدہ زنا کرے یا کوئی کسی کو قتل کردے۔یا دین کو چھوڑدے اور مسلمانوں کی جماعت سے علیحدہ ہو جائے۔"[2]
جس شخص نے کسی مسلمان کو ناجائز قتل کیا اس کے بارے میں انتہائی سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"اور جو کوئی کسی مومن کو قصداً قتل کر ڈالے اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اس پر اللہ کا غضب ہے اور اس پر اللہ نے لعنت کی ہے اور اس کے لیے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔"[3]
مسلمان کو ناجائز قتل کرنے والا شخص فاسق ہے کیونکہ وہ کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوا ہے نیز اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے چاہے تو عذاب دے اور اگر چاہے تو اسے معاف کردے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"یقینا اللہ اپنے ساتھ شریک کیے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سواجو چاہےبخش دیتا ہے۔[4]
یہ سزا تب ہے جب وہ توبہ نہ کرے اگر توبہ کر لے تو اس کی توبہ قبول ہوگی۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"میری جانب سے) کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ۔ یقیناً اللہ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے واقعی وہ بڑی بخشش (اور ) بڑی رحمت والا ہے۔[5]
واضح رہے کہ توبہ کرنے سے آخرت میں مقتول کا حق قاتل کے ذمے سے ختم نہ ہوگا بلکہ مقتول قاتل کی نیکیوں میں سے اس قدر حصہ لے گا جس قدر اس پر ظلم ہوا تھا یا پھر اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل و کرم سے مقتول کو قاتل کی طرف سے خاص جزاوانعام دے دے گا۔
یاد رہے مقتول کا حق قصاص لینے سے بھی ختم نہ ہو گا کیونکہ قصاص لینا مقتول کے ورثاء کا حق ہے جو ان کو صدمہ اور نقصان پہنچانے کے عوض میں ہے۔
علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔"تحقیقی بات یہ ہے کہ قتل سے متعلق تین حقوق ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا حق مقتول کا حق اور ولی کا حق۔ جب قاتل نادم ہو کر اور اللہ تعالیٰ کے خوف سے خود کو ولی کے حوالے کر دے اور صحیح توبہ کر لے تو اللہ تعالیٰ کا حق ساقط ہو جاتا ہے اولیاء کا حق قصاص لینے یا صلح کرنے یا قاتل کو معاف کر دینے سے ادا ہو جاتا ہے۔ باقی رہا مقتول کا حق تو اللہ تعالیٰ اپنے توبہ کرنے والے(قاتل)بندے کی طرف سے مقتول کو عوض ادا کر دےگا۔ اور ان کے درمیان صلح کرادے گا۔[6]
اکثر اہل علم کے ہاں قتل کی تین قسمیں ہیں قتل عمد،قتل شبہ عمد، قتل خطا،قتل عمداور قتل خطا کا ذکر قرآن مجید کی اس آیت میں ہے۔
"کسی مومن کو دوسرے مومن کا قتل کر دینا زیبا نہیں مگر غلطی سے ہو جائے (تو اور بات ہے)، جو شخص کسی مسلمان کو بلا قصد مار ڈالے، اس پر ایک مسلمان غلام کی گردن آزاد کرنا اور مقتول کے عزیزوں کو خون بہا پہنچانا ہے۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ وه لوگ بطور صدقہ معاف کر دیں اور اگر مقتول تمہاری دشمن قوم کا ہو اور ہو وه مسلمان، تو صرف ایک مومن غلام کی گردن آزاد کرنی لازمی ہے۔ اور اگر مقتول اس قوم سے ہو کہ تم میں اور ان میں عہد و پیماں ہے تو خون بہا لازم ہے، جو اس کے کنبے والوں کو پہنچایا جائے اور ایک مسلمان غلام کا آزاد کرنا بھی (ضروری ہے)، پس جو نہ پائے اس کے ذمے دو مہینے کے لگاتار روزے ہیں، اللہ تعالیٰ سے بخشوانے کے لئےاور اللہ تعالیٰ بخوبی جاننے والا اور حکمت والا ہے (92) اور جو کوئی کسی مومن کو قصداً قتل کر ڈالے، اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وه ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے، اسے اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار رکھا ہے"[7]
البتہ قتل شبہ عمد سنت مطہرہ سے ثابت ہے چنانچہ عمرو بن شعیب کی روایت میں ہے۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قتل شبہ عمد کی دیت قتل عمد کی طرح سخت ہے البتہ اس میں قاتل کو قصاص میں قتل نہیں کیا جائے گا۔ اس کی وجہ ہے کہ شیطان دو آدمیوں کے درمیان کود پڑتا ہے جس کے نتیجے میں قتل کا ارتکاب ہو جا تا ہے۔حالانکہ ان دونوں (قاتل اور مقتول)کے درمیان پہلے سے دشمنی نہیں تھی اور ہتھیار بھی نہیں اٹھائے گئے۔"[8]
عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بعض صورتوں میں) غلطی سے ہوجانے والا قتل جو قتل عمد سے مشابہ ہواسے شبہ عمد کہتے ہیں مثلاً: جو کوڑا یا عصا لگنے سے قتل ہو جاتا ہے۔ اس میں دیت سو اونٹ ہیں جن میں سے چالیس اونٹنیاں حاملہ ہوں گی۔[9]
قتل عمد یہ ہے کہ مجرم کسی بے گناہ شخص کو یہ جانتے ہوئے قتل کردے کہ وہ انسان ہے اور وہ ایسی شے (آلہ) استعمال کرے جس سے قتل ہو جانے کا گمان غالب ہو۔
اس تعریف سے ثابت ہوا کہ کوئی بھی قتل "قتل"عمد"تب ہوگا جب اس میں درج ذیل شرائط پائی جائیں۔
1۔قاتل نے قتل ارادے کے ساتھ کیا ہو۔
2۔قاتل کو معلوم ہو کہ اس نے جسے قتل کیا ہے وہ انسان ہے اور(فی الحقیقت ) قصور وار نہ تھا بلکہ معصوم تھا۔
3۔قتل میں جو آلہ استعمال کیا گیا وہ ایسا ہو جس سے عام طور پر آدمی قتل ہو سکتا ہو۔ وہ آلہ دھاروالا ہو یا بغیر دھار کے۔
اگر ان شرائط میں سے ایک شرط بھی کم ہو تو قتل عمد نہ ہوگا کیونکہ عدم ارادہ سے قصاص لازم نہیں آتا۔ اگر کوئی ایسے ہتھیار کے سبب قتل ہوا جس سے عام طور پر کوئی قتل نہیں ہو سکتا تو اسے اتفاقی قتل قراردیا جائے گا یعنی قتل خطا قرارپائے گا قتل عمد نہیں۔
تحقیق واستقراسے معلوم ہوا کہ قتل عمد کی درج ذیل نو صورتیں ہیں۔
1۔کسی کو ایسے ہتھیار کے ساتھ زخم لگایا جائے جو جسم میں داخل ہوجاتا ہو۔ مثلاً: چھری کا نٹا یا تیز آلات وغیرہ امام ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس صورت کے قتل عمد ہونے میں علماء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔
2۔کسی کو بھاری بھر کم شے سے زخمی کیا جائے مثلاً: پتھر چھوٹا ہو تو مر جانے کی صورت میں قتل عمد نہ ہوگا الایہ کہ پتھر جسم کے اس حصے پر مارا جائے جہاں چوٹ لگنے سے موت واقع ہو جاتی ہے یا وہ پہلے ہی انتہائی کمزور ہو مثلاً:بیمار ہوبچہ ہو، بوڑھا ہو یا گرمی سردی لگنے سے کمزور ہو گیا ہو یا اسے چھوٹا پتھر بار بار مارا گیا حتی کہ اس کی موت واقع ہوگئی۔ اسی طرح کسی نے ایک شخص پر دیوار گرادی یا گاڑی چڑھادی یا دھکا دے کر بلندی سے گرادیا اور وہ مر گیا تو یہ قتل عمد ہے۔
3۔ کوئی کسی کو چیر پھاڑ کرنے والے خونخوار جانور کے آگے پھینک دے مثلاً:شیر ،سانپ وغیرہ ان جانوروں کے آگے کسی کو جان بوجھ کر اور ارادتاًپھینکنا اسے عمداً قتل کرنے کے مترادف ہے۔
4۔کسی کو ایسی آگ یا پانی میں ڈال دیا جائے جس سے اس کا نکلنا ناممکن ہو۔
5۔کسی کا رسی وغیرہ سے گلا گھونٹ دینا یا اس کی ناک اور منہ بند کر دینا حتی کہ وہ مرجائے قتل عمد ہے۔
6۔ کسی کو باندھ دینا یا کمرے میں بند کر دینا اور اسے کھانے پینے کے لیے کچھ نہ دینا حتی کہ وہ مرجائے قتل عمد ہے۔
7۔جادو کا ایسا طریقہ اختیار کرنا جو عموماً موت کا سبب ہواور جادو کرنے والے کو علم بھی ہو کہ اس سے انسان مرجاتے ہیں قتل عمد ہے۔
8۔کسی کو زہرپلا دینا یا کھانے پینے کی ایشاء میں عمداًزہر ملا کر کسی کو کھلا پلا دینا جس سے وہ مر جائے اور پینے والے کو علم نہ ہو کہ اس میں زہر تھا قتل عمد ہی کی شکل ہے۔
9۔کچھ افراد جھوٹی گواہی دے کر کسی پر ایسے جرم کے ارتکاب کا الزام لگادیں جس کی حد قتل ہو مثلاً:زنا مرتد ہونا یا کسی کو قتل کرنا اور ان لوگوں کی گواہی کے سبب ملزم کو قتل کر دیا جائے پھر گواہان اپنی گواہی سے رجوع کر لیں اور تسلیم کریں کہ ہم نے ارادتاً ایسا کیا تھا تو وہ سب قتل کیے جائیں گے کیونکہ وہ اسے قتل کروانے کا سبب بنے ہیں۔
فقہائے کرام نے قتل شبہ عمد کی تعریف یوں کی ہے :" کوئی کسی کو ناحق یا تادیباً سزا دینے کی خاطر ایسی شے سے ضرب لگائے جس سے عموماً آدمی مرتانہ ہو لیکن وہ مر جائے ۔"جنایات کی اس قسم کو شبہ عمد اس لیے کہا جا تا ہے کہ جنایت کرنے والے نے سزا دینے کا تو ارادہ کیا تھا لیکن قتل کرنا مقصد نہ تھا۔
ابن رشد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"جس شخص نے کسی کو ایسی شے سے ضرب لگائی جس سے عام طور پر آدمی قتل نہیں ہوتا لیکن وہ مرگیا تو اس کا حکم قتل عمد اور قتل خطا کے درمیان ہے۔ وہ قتل عمد ہے کیونکہ اس کا مقصد اسے ہتھیار سے ضرب لگانا اور قتل خطا بھی ہے کیونکہ اس سزا سے اس کا مقصد قتل کرنا نہ تھا۔"[10]
"شبہ عمد" کی چند مثالیں یہ ہیں کسی کو کوڑا مارا گیا یا چھوٹی لاٹھی سے ضرب لگائی (جس سے عادتاًانسان قتل نہیں ہوتا) مکایا تھپڑ مارا اس کے سا اپنا سر ٹکرایا جس کے نتیجے میں وہ مرگیا تو یہ شبہ عمد ہے۔ اس صورت میں قصور وار کے مال میں سے کفارہ دینا لازم آتا ہے اور وہ ہے غلام یا لونڈی کا آزادکرنا۔ اگر اس کی طاقت نہ ہوتو مسلسل وہدماہ کے روزے رکھنا ہے جیسا کہ قتل خطا میں واجب ہوتا ہے اور شبہ عمد میں قتل خطا کی نسبت بھاری دیت ہے جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ہذیل قبیلے کی دو عورتیں باہم لڑ پڑیں تو ایک نے دوسری کو پتھر مارا جس سے وہ عورت اور اس کے پیٹ میں موجود بچہ دونوں ہی مر گئے۔
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ دیا کہ عورت کی دیت قتل کرنے والی عورت کے عصبہ ادا کریں۔[11]
اس روایت سے ثابت ہوا کہ قتل شبہ عمد میں قصاص نہیں ہوتا نیز اس کی دیت قصور وار کے عاقلہ (عصبہ)پر ہے۔
ابن منذر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"اہل علم کا اس امر پر اتفاق ہے کہ دیت عاقلہ پر ہے۔"اور ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہی کہا ہے۔
فقہائے کرام نے قتل خطا کی تعریف یوں کی ہے:" کسی انسان سے جائز اور مباح کام کرتے وقت بلا ارادہ غلطی سے کوئی آدمی قتل ہو گیا یا زخمی ہوا ۔پھر مرگیا مثلاً:وہ شکار کو گولی مار رہا تھا یا نشانہ بازی کر رہا تھا کہ غلطی سے معصوم جان قتل ہوگئی یا دوران جنگ میں کسی مسلمان کو کافر سمجھ کر قتل کر دیا گیا ۔
بچہ یا دیوانہ عمداً قتل کردے تو وہ قتل خطا میں شمار ہو گا کیونکہ ان کے کام میں ارادہ شامل نہیں ہوتا لہٰذا اس کا قتل عمد عاقل بالغ شخص کے قتل خطا کے مساوی ہے۔
قتل سبب بھی قتل خطا کے حکم میں ہے مثلاً: کسی نے کنواں بنایایا راستے میں کوئی گڑھا کھودایا راستے میں گاڑی کھڑی کردی جس کے سبب کوئی انسان مر گیا۔"[12]
قتل خطا میں قاتل کے مال سے کفارہ ادا ہوگا اور وہ ہے مومن غلام یا لونڈی کا آزاد کرنا۔ اگر ایسا ممکن نہ ہوتو وہ مسلسل دو ماہ کے روزے رکھے دیت اس کے"عاقلہ " یعنی مذکر عصبات ادا کریں گے۔
جس نے میدان جنگ میں کفار کی صف میں کسی مسلمان کو کافر سمجھ کر قتل کر دیا تو اس پر صرف کفارہ لازم آئے گا۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
"کسی مومن کو دوسرے مومن کا قتل کر دینا زیبا نہیں مگر غلطی سے ہو جائے (تو اور بات ہے)، جو شخص کسی مسلمان کو بلا قصد مار ڈالے، اس پر ایک مسلمان غلام کی گردن آزاد کرنا اور مقتول کے عزیزوں کو خون بہا پہنچانا ہے۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ وه لوگ بطور صدقہ معاف کر دیں اور اگر مقتول تمہاری دشمن قوم کا ہو اور ہو وه مسلمان، تو صرف ایک مومن غلام کی گردن آزاد کرنی لازمی ہے۔ اور اگر مقتول اس قوم سے ہو کہ تم میں اور ان میں عہد و پیماں ہے تو خون بہا لازم ہے، جو اس کے کنبے والوں کو پہنچایا جائے اور ایک مسلمان غلام کا آزاد کرنا بھی (ضروری ہے)، پس جو نہ پائے اس کے ذمے دو مہینے کے لگاتار روزے ہیں، اللہ تعالیٰ سے بخشوانے کے لئےاور اللہ تعالیٰ بخوبی جاننے والا اور حکمت والا ہے "[13]
اس آیت میں قتل خطا کو تین صورتوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
1۔جس میں قاتل پر کفارہ اور اس کے عاقلہ(عصبات )پر دیت فرض ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ کوئی کسی مومن کو کفار کی صف کے سوا کسی اور جگہ خطاً قتل کردے۔ یا مقتول ایسی کافر قوم میں سے ہو کہ ان کے درمیان اور ہمارے درمیان معاہدہ ہو۔
2۔جس میں قاتل پر صرف کفارہ (مومن غلام کی آزادی )ادا کرنا ہوتا ہے۔اس کی صورت یہ ہے کہ کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو کافروں کی صف میں کھڑا دیکھے اور پھر اسے لاعلمی میں کافر سمجھ کر قتل کر دے۔
امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب "تفسیر فتح القدیر"میں آیت:
کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ"مقتول کا تعلق ایسی دشمن قوم سے ہو جو حربی کافر ہوں لیکن وہ مسلمان ہو کر انھی میں رہے اور ہجرت نہ کرے۔ مسلمان سمجھیں کہ اس نے اسلام قبول نہیں کیا اور اپنے آبائی دین پر قائم ہے پھر اسے کسی موقع پر قتل کر دیں تو قاتل پر دیت لازم نہ ہو گی بلکہ وہ ایک مومن غلام یا مومنہ لونڈی آزاد کرے گا ۔ اہل علم کے درمیان یہاں نکتہ اختلاف یہ ہے کہ دیت کے ساقط ہونے کی وجہ کیا ہے؟ ایک قول یہ ہے۔کہ مقتول کے سر پرست کافر ہیں لہٰذا دیت میں ان کا کوئی حق نہیں ۔ اور دوسرا مسلمانوں کی نسبت کم ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"اور جو ایمان تو لائے ہیں لیکن ہجرت نہیں کی تمھارے لیے ان کی کچھ بھی رفاقت نہیں۔"[14]
اس کے بارے میں تیسرا قول یہ ہے کہ مقتول کی دیت ادا کی جائے گی جو بیت المال میں جمع ہو گی۔[15]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :"آیت کریمہ کا یہ حکم اس مسلمان شخص کے لیے ہے جو کافروں میں رہنے پر مجبور اور معذور ہو۔ مثلاً:قیدی ہویا وہ مسلمان جو کفار کی صفوں سے نہیں نکل سکتا اور ہجرت بھی نہیں کر سکتا البتہ ایسا مسلمان شخص جو اپنی مرضی سے کفار کی صفوں میں کھڑا ہے تو اس کی کوئی ضمان نہیں دی جا سکتی کیونکہ اس نے خود اپنے آپ کو بغیر کسی عذر کے معرض ہلاکت میں رکھا ہے۔"
قاتل کے عاقلہ یعنی برادری پر دیت واجب ہونے کی دلیل سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو لحیان کی ایک عورت کے بچے کے بارے میں فیصلہ دیا جسے اس کی ماں کے پیٹ میں مار دیا گیا کہ اس کے بدلے غلام یا لونڈی ادا کی جائے پھر یوں ہوا کہ جس عورت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلام یا لونڈی کا فیصلہ کیا تھا وہ عورت بھی مر گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"مرنے والی عورت کی میراث اس کے بیٹوں اور خاوند کو ملے گی۔ باقی رہی دیت تو وہ اس(قاتلہ )کے عصبہ ادا کریں گے۔"[16]
اس حدیث شریف سے واضح ہوا کہ قتل خطا میں دیت عاقلہ پر ہے اس پر اہل علم کا اجماع ہے۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ جس شخص سے غلطی سر زد ہوئی ہے اس شخص پر دیت لازم کرنے میں عظیم نقصان ہے کیونکہ اس کا ارادہ قتل کرنے کا نہ تھا محض خطا سے قتل کا صدورہوا ہے اور خطائیں تو انسان سے اکثر وقوع پذیر ہوتی ہی رہتی ہیں۔اس کی غلطی کا بوجھ اس اکیلے پر ڈال دینا اس پر مالی زیادتی ہے۔
اسی طرح مقتول کی جان بھی تو محترم تھی لہٰذا اس کا بدل و معاوضہ بھی ضروری ہے۔ اگر اس کا خون رائیگاں قراردیا جائے تو اس کے ورثاء کا نقصان ہے بالخصوص اس کے اہل و عیال کا لہٰذا شارع نے دیت ان لوگوں پر واجب قراردی ہے جو قاتل کے سر پرست اور مدد گار ہیں۔ وہ مل کر ادائیگی دیت میں اس کی مدد کریں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی فقیر کو نان و نفقہ دینا یا قیدی ہوتو اس کے عصبہ رشتے داروں کا فرض ہے کہ اسے چھڑانے کی کوشش کریں۔ قاتل مرجائے گا تو وارث بھی عاقلہ ہی ہوں گے لہٰذا اب قتل خطا میں بوجھ بھی وہی برداشت کریں۔ مثل مشہور ہے"جو فائدہ حاصل کرے وہ تاوان بھی بھرے ۔"واللہ اعلم۔
قاتل پر کفارے کا بوجھ درج ذیل امور کی وجہ سے ہے:
1۔مرنے والی جان قابل احترام تھی۔
2۔قتل میں قاتل کی کوتاہی ضرور شامل ہے وہ اس سے مبرانہیں۔
3۔اگر قاتل کے ذمے دیت نہیں تو اس پر کچھ نہ کچھ تاوان پڑنا چاہیے اور یہ کفارے کا بوجھ ہے۔
عاقلہ کو دیت کی ادائیگی کاذمےدار بنانے اور قاتل پر کفارہ ڈالنے میں کئی ایک حکمتیں اور مصلحتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ جو عظیم و بر ترہے اس نے اپنے بندوں کی دینی دنیاوی مصلحتوں اور منافع کا کس قدر خیال رکھا ہے۔
عاقلہ (عصبہ)میں غلام بچہ نادار دیوانہ عورت اور دوسرے مذہب کا آدمی شامل نہیں کیونکہ یہ افراد مددو تعاون کرنے والوں میں داخل و شامل نہیں ہوتے۔
قتل خطا کی دیت تین سال کے اندر اندر اداکرنا ضروری ہے۔ حاکم کوچاہیے کہ وہ قاتل کے ہر عصبہ پر دیت کا اس قدرحصہ دینا مقرر کرے جو اس کی استطاعت میں ہو نیز سب سے پہلے قاتل کے قریب ترین عصبہ پر ذمے داری ڈالے اگر وہ نہ ہوں تو اس سے دور والوں پر بوجھ ڈالے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔"جب دیت جلد لینے میں مصلحت ہو تو عاقلہ کو ادائیگی دیت میں مہلت نہ دی جائے بلکہ نقدوصول کی جائے۔"[17]
قتل عمدکی صورت میں شرائط مکمل ہوں تو قصاص کی مشروعیت پر علماء کا اجماع ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"اے ایمان والو!تم پر مقتولوں کا قصاص لینا فرض کیا گیا ہے آزاد آزاد کے بدلے غلام غلام کے بدلے اور عورت عورت کے بدلے۔[18]
نیز ارشاد ہے:
"اور ہم نے(یہودیوں کے ذمے )تورات میں یہ بات مقرر کر دی تھی کہ جان کے بدلے جان ہے۔"[19]
قرآن مجید کا یہ حکم تورات میں بھی تھا۔ یادرہے سابقہ شریعت کا ہر حکم ہمارے لیے بھی قابل عمل الایہ کہ جسے ہماری شریعت منسوخ قراردے دے قصاص کے بارے میں فرمان الٰہی ہے:
"عقل مندو! قصاص میں تمھارے لیے زندگی ہے اس باعث تم(قتل ناحق سے) رکوگے۔"[20]
امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ درج بالا آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:"اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے قصاص میں زندگی رکھی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کسی کو یہ علم ہو گا کہ کسی آدمی کو قتل کی صورت میں قصاص کے طور پر اسے بھی قتل کیا جا سکتا ہےتو وہ قتل کرنے سے باز آجائے گا ۔اسی طرح جب ہر انسان کی یہ سوچ ہو گی تو معاشرے میں قتل کا دروازہ بند ہو جائےگا اور اس طرح ہر شخص کو زندگی مل جائے گی اللہ تعالیٰ نے یہاں ایک طویل مضمون کو فصیح و بلیغ انداز میں اور مختصر الفاظ میں بیان کیا ہے یہاں پر بلاغت کا یہ نکتہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قصاص کو زندگی قراردیا ہے۔
حالانکہ بظاہر وہ موت کی ایک صورت ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں لوگ ایک دوسرے کو قتل کرنے سے باز رہتے ہیں اس طرح ان کی زندگی محفوظ رہتی ہے پھر اس حکم میں خطاب کا رخ اہل عقل کی طرف ہے کیونکہ وہی لوگ ہیں جو نتائج اور انجام پر نگاہ رکھتے ہیں اور نقصان دہ امور اور کاموں سے خود کو بچاتے ہیں لیکن لوگ نادان جوشیلے اور جذباتی ہوتے ہیں وہ جوش و جذبات کی رد میں بہ کر مستقبل کے عواقب و نتائج کی کوئی پروانہیں کرتے جیسا کہ ایک شاعر کا کہنا ہے:
سَأَغْسِلُ عَنِّي الْعَارَ بِالسَّيْفِ جَالِبًا عَلَيَّ قَضَاءُ اللَّهِ مَا كَانَ جَالِبَا"میں اپنے متعلق عار اور طعنوں کو تلوار کے ساتھ دھو ڈالوں گا ۔ اس حال میں کہ میں اپنے اوپر اللہ کی قضا کو لاگو کر رہا ہوں جو نافذ کرے سو کر۔"
دھو ڈالوں گا عار زمانے کی اپنی تلوار سے
نہیں ہے پروا مجھ کو تقدیر کے ہر وار سے
پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے قصاص کا جو حکم جاری فرمایا ہے اس کی وجہ یوں بیان کی: "لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ" یعنی قصاص کو ذہن نشین رکھو گے تو قتل کرنے سے باز آجاؤ گے اور یہ چیز حصول تقوی کا سبب ہے۔"[21]
سنت نبویہ میں وارد ہے کہ قصاص لینے والے کو اختیار حاصل ہے کہ وہ قصاص لے یا دیت قبول کرے یا قاتل کو بلا عوض معاف کر دے اور یہ افضل ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جس کا کوئی آدمی قتل ہو جائے اسے اختیار حاصل ہے کہ وہ چاہےتو دیت قبول کرے اور چاہے تو قصاص لے لے۔"[22]
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"ہاں !جس کسی کو اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی دے دی جائے اسے بھلائی کی اتباع اور اچھے طریقے سے دیت کی ادائیگی کرنی چاہیے۔"[23]
نیز ارشاد ہے:
"اور تمھارا معاف کر دینا تقوے کے بہت نزدیک ہے۔"[24]
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کا ظلم معاف کر دیا اللہ تعالیٰ اس کی عزت میں اضافہ کرے گا۔"[25]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"دھوکے سے قتل کرنے والے کو معاف کرنا معاف نہیں کیونکہ ایسے شخص سے بچنا مشکل ہوتا ہے جیسے محاربہ میں قتل کرے تو اسے معاف نہیں کیا جاتا۔ عام حالات میں قصاص لینے کے بجائے معاف کر دینا بہتر ہے بشرطیکہ اس میں کوئی فساد و خرابی لازم نہ آئے۔
قاضی ابو یعلیٰ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور صورت بتاتے ہوئے کہا:" کہ اگر کسی نے مسلمانوں کے امام وامیر کو قتل کیا تو قاتل کو قصاص میں قتل کرنا لازم ہے کیونکہ اس میں موجود فساد اور بگاڑ واضح ہے۔"
ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے قبیلہ عرنیین کے واقعے کو ملحوظ رکھ کر کہا ہے کہ کسی کو دھوکے سے قتل کرنے والے پر حد نافذ کر کے قتل کیا جا ئے۔یعنی اس عمل سے اسے قتل کرنا حد ہے جسے معافی کے ذریعے سے بھی ساقط نہیں کیا جا سکے گا اس میں برابر کا لحاظ بھی ضروری نہیں ۔ یہ اہل مدینہ کا مسلک ہے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب کی ایک روایت بھی اسی کے مطابق ہے۔ جبکہ شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ نے اسے اختیار کیا ہے اور اسی کے مطابق فتوی دیا ہے۔"
مقتول کے سر پرست کے لیے قصاص لینے کا استحقاق تب ہے جب چار شرائط موجود ہوں۔
1۔مقتول کو بلاوجہ ناجائز قتل کیا گیا ہو۔ اگر اسے قتل کرنا جائز ہو تو اس میں قصاص نہیں مثلاً: کسی مسلمان نے کسی حربی کافر کو یا مرتد کو(جب کہ اس نے توبہ نہ کی ) یا کسی زانی کو قتل کر دیا تو قاتل سے قصاص نہ لیا جائے گا ۔البتہ اسے سزا ضروردی جائے گی کہ اس نے حاکم سے فیصلہ کیوں نہ حاصل کیا؟
2۔قاتل عاقل اور بالغ ہو کیونکہ قصاص ایک اہم اور سخت سزا ہے جس کا نفاذ بچے اور پاگل پر نہ ہوگا کیونکہ دونوں کے کاموں میں قصدوارادہ شامل نہیں ہوتا نیز ان کے پیش نظر کوئی واضح اور صحیح مقصد نہیں ہوتا اور اس لیے بھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"تین اشخاص سے قلم اٹھالیا گیا ہے: سوئے ہوئے سے جب تک وہ بیدار نہ ہو بچے سے جب تک وہ بالغ نہ ہو اور مجنون سے جب تک وہ ہوش و عقل میں نہ آئے۔"[26]
ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس نقطہ نظر پر اہل علم کا اجماع نقل کیا ہے۔
3۔جنایت (ارتکاب جرم)کے وقت مقتول اور قاتل برابر درجے کے ہوں یعنی مسلمان ہونے آزاد یا غلام ہونے میں مساوی ہوں یعنی قاتل ایسا نہ ہو جو مقتول سے اسلام یا آزادی میں افضل ہے لہٰذا اس معیار کی روشنی میں ۔ مسلمان کو کافر کے بدلے میں قتل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"کسی مسلمان کو کافر کے بدلے میں قتل نہ کیا جائے۔"[27]
اسی طرح آزاد شخص کو مقتول غلام کے بدلہ میں قتل نہیں کیا جائےگا چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:
"یہ سنت میں سے ہے کہ آزاد کو غلام کے بدلے قتل نہ کیا جائے۔"[28]
اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جب مقتول قاتل کے برابر کا نہیں تو مقتول کے ورثاء کا قاتل کو قتل کرنا حق سے زیادہ لینے کے مترادف ہے۔
درج بالا معیار کے علاوہ قاتل اور مقتول میں کوئی برتری اثر انداز نہ ہوگی لہٰذا خوبصورت کو بد صورت کے بدلے قتل کیا جائے گا۔اسی طرح معزز اور غیر معزز بڑے اور چھوٹے یا مرد اور عورت یا عقل مند اور کم عقل میں بسلسلہ قصاص کوئی فرق و امتیاز نہ ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان :
"اور ہم نے(یہودیوں کے ذمے )تورات میں یہ بات مقرر کر دی تھی کہ جان کے بدلے جان ہے۔"[29]
نیز ارشاد الٰہی ہے:
" آزاد بدلے کے آزاد (کاقصاص ہے)[30]میں عموم ہے۔
قاتل والد نہ ہو۔ یعنی مقتول قاتل کا بیٹا ،پوتا یا بیٹی پوتی وغیرہ نہ ہو۔اگر والدین یا دادا ،نانا وغیرہ اپنے کسی بچے کو قتل کر دیں گے تو انھیں قصاص میں قتل نہ کیا جائے گا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"اولاد کے بدلے والد کو قتل نہ کیا جائے۔"[31]
ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"یہ روایت حجاز اور عراق کے علمائے حدیث کے ہاں معروف مشہور ہے۔"
اس حدیث سے اور اسی مفہوم کی دوسری احادیث سے ان نصوص کے عموم میں تخصیص ہو جاتی ہے جن میں وجوب قصاص کا حکم وارد ہوا ہےاور یہ جمہور اہل علم کا مسلک ہے البتہ اولاد کوو الدین کے بدلے میں بطور قصاص قتل کرنا درست ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں عموم ہے:
"اے ایمان والو!تم پر مقتولوں کا قصاص لینا فرض کیا گیا ہے ۔"[32]
یادرہے اگر باپ اولاد قتل کردے تو قصاص میں اسے قتل نہ کرنے کی دلیل موجود ہے جیسا کہ پیچھے ذکر ہوا ہے۔اس لیے والد کو مستثنیٰ قراردیا گیا ہے جب یہ چارشرائط موجود ہوں تو مقتول کے وارث قصاص لینے کا حق رکھتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے قصاص کی مشروعیت کا مقصد لوگوں کے ساتھ رحمت و شفقت کرنا اور ان کی جانوں کو محفوظ رکھنا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"عقل مندو! قصاص میں تمھارے لیے زندگی ہے اس باعث تم(قتل ناحق سے) رکوگے۔"[33]
ستیاناس ہو ان لوگوں کا جو کہتے ہیں کہ قصاص وحشی اور ظالمانہ سزاؤں کا نام ہے۔ ایسے لوگ یہ نہیں جانتے اوردیکھتے کہ مجرم نے کس طرح وحشت اور ظلم کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک بے قصور شخص کو قتل کرنے کا اقدام کیا شہر میں خوف و ہراس پیدا کرنے کی کوشش کی کئی عورتوں کو بیوہ کیا، مقتول کے بچوں کو یتیم کیا کئی گھروں کو ویران اور متاثر کیا۔ درحقیقت یہ لوگ ظالم پر ترس کھاتے ہیں۔بے قصور اور مظلوم سے کوئی ہمدردی نہیں رکھتے۔ ان لوگوں کی سوچ پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔
"کیا یہ لوگ پھر سے جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں۔ یقین رکھنے والے لوگوں کے لیے اللہ سے بہتر فیصلے اور حکم کرنے والا کون ہو سکتا ہے۔"[34]
قصاص میں مجرم سے اس کے کیے ہوئے مجرم کی مثل ی اس کے مشابہ بدلہ لیا جاتا ہے۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ قصاص لینے سے مظلوم یا اس کے ورثاء کا جوش و جذبہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے ان کے دل کو تشفی ہو جاتی ہے ظلم کا سد باب ہوجاتا ہے دل و دماغ میں اٹھنے والے طوفان کا تدارک ہو جاتا ہے نیز اہم بات یہ ہے کہ نظام قصاص کے نفاذ میں نوع انسانی کی بقا مضمرہے۔
عہد جاہلیت میں انتقام لینے میں مبالغے سے کام لیا جاتا تھا۔ اس کی ایک صورت یہ تھی کہ زیادہ تر مجرم کے ساتھ ساتھ غیر مجرم سے بھی بدلہ جاتا۔ یہ ایسا ظلم تھا جس سے مقصد حاصل نہ ہوتا تھا بلکہ فتنہ اور خونریزی بڑھتی تھی۔ جب دین اور اسلام آیا تو اس نے دیگر احکام کے ساتھ نظام قصاص بھی دیا اور بتایا کہ قصاص صرف قصور وار سے لیا جائے۔
ان احکام سے لوگوں کو دل وانصاف ملا اور خونریزی رک گئی ۔معاشرے میں امن و سکون کے پھول کھل گئے ۔
قصاص تب واجب ہوگا جب مذکورہ شرائط موجود ہوں ۔ علاوہ ازیں فقہائے کرام نے چند مزید شرائط کا ذکر بھی کیا ہے جو قصاص لینے والے وارث میں ہوں اور وہ تین ہیں۔
1۔قصاص کا مطالبہ کرنے والا عاقل و بالغ ہواگر وہ بچہ یا دیوانہ ہو گا تو اس حال میں قصاص کا مطالبہ کرنا اس کے لیے درست نہ ہوگا کیونکہ قصاص لینے سے مظلوم یا مظلوم کے ورثاء کوان کے انتقامی جذبات کی تشفی و تسکین حاصل ہوجاتی ہے یہ چیز بچے یا دیوانے کو حاصل نہیں ہو تی۔ لہٰذا قصاص کے اجرامیں انتظار کر لیا جائے اور مجرم کو اس وقت تک جیل میں بند رکھا جائے جب تک بچہ بالغ نہ ہو جائے یا دیوانہ صحیح نہ ہو جائے ۔ ایک روایت میں ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہدبہ بن خشرم کو اس وقت تک جیل میں بند رکھا جب تک مقتول کا بیٹا بالغ نہ ہوگیا ۔یہ کام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے دور میں ہوا اور کسی نے اعتراض نہ کیا لہٰذا اس مسئلے پر سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں موجود صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا اجماع ثابت ہوا۔
اگر مقتول کا وارث بچہ ہے یا مجنون شخص اور انھیں نان و نفقہ کی ضرورت ہے تو صرف مجنون کے ولی کو چاہیے کہ اس کی پرورش کی خاطر مقتول کی دیت قبول کر لے کیونکہ کوئی علم نہیں کہ دیوانہ کب صحیح ہوا ور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ صحیح نہ ہو۔ بچے کے بالغ ہونے یا نہ ہونے میں تردد نہیں ہوتا۔
2۔جن لوگوں کو قصاص لینے کا حق حاصل ہے وہ قصاص لینے پر متفق ہوں یعنی وہ دورائے نہ رکھتے ہوں کیونکہ یہ ایسا حق ہے جو مشترک ہے اور اس کی تقسیم نہیں ہو سکتی لہٰذا اگر بعض ورثاء قصاص کی صورت میں اپنا حق وصول کر لیں گے۔تو دیگر ورثاء کے(دیت لینے)یا معاف کرنے کے ) حق میں مداخلت کے مرتکب ہوں گے جس کا انہیں اختیار نہ تھا قصاص کے مستحقین میں سے اگر کوئی غیر حاضر ہو یا نا بالغ ہو یا مجنون ہو تو انتظار کیا جائے گا کہ غیر حاضر آدمی حاضر ہو جائے بچہ بالغ ہو جائے اور مجنون صحت یاب ہو جائے۔اگر قصاص کے مستحقین میں سے کوئی شخص فوت ہو جائے تو اس کا وارث اس کا قائم مقام ہوگا۔ اگر قصاص کا حق رکھنے والوں میں سے کوئی ایک معاف کردے تو مجرم سے قصاص نہیں لیا جائے گا۔
استحقاق قصاص میں تمام نسبی اور سببی ورثاء شریک ہیں وہ مردہوں یا عورتیں بڑے ہوں یا چھوٹے بعض علماء کی یہ رائے ہے کہ معاف کرنے کا حق صرف عصبہ کو ہے۔امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا یہی قول ہے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ایک روایت اسی طرح کی ملتی ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اسی رائے کو پسند کیا ہے۔
3۔قصاص کی صورت میں اس بات کا خاص خیال رکھا جائے گا کہ جو قصور وار نہیں اس پر زیادتی نہ ہونے پائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"اور جو شخص مظلوم ہونے کی صورت میں مارڈالا جائے ہم نے اس کے وارث کو طاقت دے رکھی ہے۔چنانچہ وہ قتل(قصاص لینے)میں زیادتی نہ کرے بے شک وہ مدد کیا گیا ہے۔" [35]
جب قصاص میں زیادتی ہوگی تو(آیت کے مطابق)یہ"اسراف"ہے جس سے آیت مبارکہ منع کر رہی ہے۔اگر کسی حاملہ عورت سے قصاص لینا واجب ہو یا قصاص واجب ہونے کے بعد وہ حاملہ ہو جائے تو جب تک وضع حمل نہ ہو گا اس عورت کو قتل نہ کیا جائے گا کیونکہ اس کو قتل کرنے سے اس کے پیٹ کا بچہ بھی قتل ہوگا حالانکہ وہ بے قصور ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
ۚ"کوئی بوجھ والا کسی اور کا بوجھ اپنے اوپر نہ لادےگا۔"[36]
بچے کی ولادت کے بعد دیکھا جائے گا کہ آیا بچے کودودھ پلانے کا کوئی بندوبست ہو سکتا ہے؟اگر کوئی بندو بست کردے تو بچہ اس کے حوالے کیا جائے گا اور عورت کو قتل کر دیا جائے گا کیونکہ اب قصاص کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں رہی اگر بچے کو دودھ پلوانے کا انتظام نہ ہو سکے تو عورت کی سزا دو سال تک مؤخر کر دی جائے گی حتی کہ بچہ دودھ پینا چھوڑدے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"اگر کوئی عورت کسی کو عمداً قتل کردے تو اسے اس وقت تک قتل نہ کیا جائے جب تک حمل کی صورت میں پیٹ میں موجود بچے کو جنم نہ دے اور بچے کی کفالت نہ کر لے۔ اسی طرح اگر زنا کا ارتکاب کرے تو حاملہ ہونے کی صورت میں جب تک بچے کو جنم نہ دےاسے رجم نہ کیا جائے۔ نیز بچے کی کفالت نہ کر لے۔"[37]
"تو واپس چلی جاحتی کہ پیٹ میں موجود بچے کو جنم دے۔"[38]
پھر (بچے کی ولادت کے بعد) اسے فرمایا:
"تو واپس چلی جاحتی کہ بچے کو مکمل مدت تک دودھ پلالے۔"[39]
درج بالا دونوں حدیثوں اور آیت قرآنی سے واضح ہوا کہ حمل کی وجہ سے عورت کو قصاص میں اس وقت تک قتل نہیں کیا جا سکتا جب تک وہ بچے کو جنم نہ دے۔ اس پر علماء کا اجماع ہے۔ نیز ان احکام سے شریعت اسلامی کا کمال واضح ہوتا ہے کہ اس نے پیٹ میں موجود بچے کا کس قدر خیال رکھا ہے کہ اسے ہر قسم کی تکلیف و نقصان سے بچایا ہے بلکہ اس کی زندگی کو بچانے کے لیے سزا دینے میں تاخیر کی۔ پھر اس کی کفالت کا بندو بست کیا۔ بندوں کی مصلحتوں اور فوائد پر محیط شریعت کے مل جانے پر ہم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہیں۔
جب کسی سے قصاص لینے کا وقت آئے تو ضروری ہے کہ حاکم یا اس کے نائب کی نگرانی میں یہ کام ہوتا کہ قصاص کے فیصلے میں زیادتی نہ ہو جائے اور شریعت کے تقاضے بھی پورے ہوں۔
قصاص لینے کے لیے ایسا ہتھیار استعمال میں لایا جائے جو تیز دھار ہو۔ مثلاً: تلوار یا چھری وغیرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
"جب تم (کسی ) کو قتل کرو تو اچھے طریقے سے قتل کرو۔"[40]
قصاص لینے کے لیے آلہ استعمال نہ کیا جائے جو کند ہو کیونکہ یہ قصاص میں زیادتی کرنے کے مترادف ہے جو ممنوع ہے۔
اگر مقتول کا سر پرست شرعی طریقے سے اور اچھے انداز میں قصاص لے سکتا ہو تو ٹھیک ورنہ حاکم مقتول کے ولی کو حکم دے گا کہ کسی کو وکیل بنائے تاکہ وہ اس کے لیے قصاص لے۔
اہل علم کا صحیح قول یہی ہے کہ مجرم سے قصاص لیتے وقت وہی صورت اختیار کی جائے جو مجرم نے اختیار کی تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
"اور اگر تم بدلہ لو تو بالکل اتنا ہی جتنا صدمہ تمھیں پہنچایا گیا ہو۔"[41]
نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"پھر جو تم پر زیادتی کرے توتم بھی اس پر اسی کے مثل زیادتی کرو جو اس نے تم پر کی ہے۔"[42]
حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ یہودی کا سر اسی طرح پتھروں سے کچلا جائے جیسے اس نے ایک (انصاری لڑکی) کا سر کچلا تھا۔[43] امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ" شریعت اور انصاف کا یہی تقاضا ہے کہ مجرم جیسا کرے ویسا بھرے ۔ کتاب اللہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آثار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اس پر متفق ہیں۔"
اگر مجرم نے کسی کے پہلے ہاتھ کاٹے پھر اسے قتل کیا تو قصاص بھی اسی طرح لیا جائے گا۔ اس نے پتھر کے ساتھ یا پانی میں ڈبو کر یا کسی اور صورت سے قتل کیا تو مجرم کو بھی اسی طرح لیا جائے گا۔ البتہ مذکورہ صورتوں میں اگر وارث صرف تلوارسے قتل کرنے پر راضی ہو تو اسے اختیار ہے اور یہ افضل بھی ہے۔ اگر کسی شخص نے کسی کو حرام کام کے ارتکاب کے ذریعے سے قتل کیا تو اسے تلوار ہی کے ساتھ قتل کیا جائے گا۔ آج کے دور میں کسی کو گولی مار کر قتل کرنا تلوار کے ساتھ قتل کرنے کے مترادف ہے بشرطیکہ مارنے والا اچھا نشانہ باز ہو۔
[1]۔الانعام:5/15۔
[2]۔صحیح مسلم القسامۃ باب بیاح بہ دم المسلم ؟حدیث 1676۔
[3]۔النساء:4/93۔
[4]۔النساء:4/48۔
[5]۔الزمر:39۔53۔
[6]۔الجواب الکافی لابن القیم ص207۔208۔
[7]۔النساء:4/92۔93۔
[8]۔سنن ابی داؤد الدیات باب دیات الارضاء حدیث:6545۔ومسند احمد 2/183۔
[9]۔سنن ابی داؤد الدیات باب فی دیہ الخطا شبہ العمد حدیث 4547وسنن النسائی القسامۃ باب کم دیۃ شبہ العمد ؟حدیث :4795۔وسنن ابن ماجہ الدیات باب دیہ شبہ العمد مغلظہ حدیث 2627۔
[10]۔بدایہ المجتہد:2/704۔
[11]۔صحیح البخاری الدیات باب جنین المراۃ وان العقل علی الولد حدیث 6910۔وصحیح مسلم القسامہ باب دیۃ الجنین حدیث1681۔
[12]۔جمہور علمائے کرام نے بچے یا دیوانے کے قتل کو یا"قتل سبب" کا باعث بننے والے کو مرفوع القلم قراردیا ہے یعنی ان پر کچھ بھی لازم نہیں آتا ۔ اس مسئلے کی وضاحت کے لیے "تفہیم الموارث "دیکھیے ۔(صارم)
[13]۔النساء:4/92۔
[14]۔الانفال8/72۔
[15]۔تفسیر فتح القدیر النساء:4/92۔
[16]۔صحیح البخاری الفرائض باب میراث المراہ والزوج مع الولد وغیرہ حدیث 6740وصحیح مسلم القسامہ باب دیۃ الجنین حدیث 1618۔
[17]۔الفتاوی الکبری الاختیارات العلمیہ الدیات5/525۔
[18]۔البقرۃ:2/178۔
[19]۔المائدہ:5/45۔
[20]۔البقرۃ:2/179۔
[21]۔تفسیر القدیر البقرۃ: 2/179۔
[22]۔صحیح البخاری الدیات باب من قتل لہ قتیل فہر بخیر النظرین حدیث 6880۔وصحیح مسلم الحج باب تحریم مکۃ و تحریم صیدھا وخلاھا حدیث1355۔
[23]۔البقرۃ:2/178۔
[24]۔البقرۃ:2/237۔
[25]۔صحیح مسلم البروالصلہ باب استحباب العفووالتوضع حدیث 2588ومسند احمد 2/235واللفظ لہ۔
[26]۔سنن ابی داؤد الحدودباب فی المجنون یسرق اویصب حداً حدیث 4403والتلخیص الجیر1/183۔حدیث 253۔
[27]۔صحیح البخاری العلم باب فی کتابہ العلم حدیث 111وسنن ابی داؤدبلفظ (لا يقتل مؤمن.......)الدیات باب ایقاد المسلم من الکافر؟حدیث 4530۔
[28]۔(ضعیف) سنن الدارقطنی 3/133حدیث 3227وارواءالغلیل 7/26حدیث 2211۔
[29]۔المائدہ:5/45۔
[30]۔البقرۃ:2/178۔
[31]جامع الترمذی الدیات باب ماجاءفی الرجل یقتل ابتہ یقادمتہ ام لا ؟حدیث1401۔وسنن ابن ماجہ الدیات باب لا یقتل الوالدیولدہ حدیث 2662۔
[32]۔البقرۃ:2/178۔
[33]۔البقرۃ:2/179۔
[34]المائدۃ:5/50۔
[35]۔بنی اسرائیل17۔33۔
[36]۔بنی اسرائیل:17۔15۔
[37]۔(ضعیف ) سنن ابن ماجہ الدیات باب الحامل یجب علیہا القود حدیث:2694۔
[38]۔ھذامعنی الحدیث واصلہ فی صحیح مسلم الحدودباب من اعترف علی نفسہ بالزنی حدیث1695۔
[39]۔المصدرالسابق۔
[40]۔صحیح مسلم الصید باب الامر یا حسان الذبح والقتل وتحدید الشفرۃحدیث1955۔
[41]۔النحل:16۔126۔
[42] ۔البقرۃ:2/194۔
[43] ۔صحیح البخاری الحصومات باب مایذکر فی الاشخاص والخصومۃ بین المسلم والیہود حدیث2413۔