اجتماعی موت پر میراث کے احکام
اجتماعی موت کے واقعات عموماً وقوع پذیر ہوتے رہتےہیں۔جب دو یا دوسے زیادہ ایک دوسرے سے میراث لینے والے لوگ یکبار اکٹھے فوت ہو جائیں اور پہلے اور بعد میں مرنے والوں کا پتہ نہ چل سکے کہ کون وارث بنا اور کون موروث مثلاً: دیوار کے نیچے آگئے یا پانی میں ڈوب گئے یا آگ میں جل گئے یا طاعون وغیرہ کی زد میں آگئے یا معرکہ جنگ میں کام آگئے یا کار بس ،ہوائی جہاز ، ریل گاڑی وغیرہ کے حادثے میں ہلاک ہو گئے۔ جب اجتماعی موت کا واقعہ ہو جائے تو اس معاملے کی پانچ حالتیں ممکن ہیں۔
1۔متعدد افراد موت کی آغوش میں چلے گئے اور یہ معلوم نہ ہو سکا کہ پہلے کون مرا بعد میں کون تو اس صورت میں فوت شدگان آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہ ہوں گے بلکہ ہر ایک کا ترکہ ان کے زندہ ورثاء کے درمیان تقسیم ہو گا کیونکہ کسی کو وارث بنانے کی یہ شرط ہے کہ وہ اپنے مورث کی موت کے وقت زندہ ہو لیکن یہ شرط اس جگہ مفقود ہے۔
2۔اگر معلوم ہو گیا کہ ایک شخص دوسرے سے پہلے فوت ہوا تھا اس میں کوئی بھول یا شک شبہ نہ ہو تو متاخر شخص مقدم کابالا جماع وارث ہو گا کیونکہ مورث کی موت کے بعد وارث کا زندہ ہو نا ضروری ہے جو یہاں ثابت شدہ ہے۔
3۔بعض افراد کی موت بعض سے متاخر واقع ہوئی لیکن یہ علم نہ ہو کس کہ پہلے کون مرا اور بعد میں کون ۔
4۔یہ معلوم تھا کہ فلاں پہلے مرا اور فلاں بعد میں لیکن یہ ترتیب یاد نہ رہی۔
5۔موت کے واقعے کا بروقت علم نہ ہوسکا چنانچہ معلوم نہ ہوا کہ سب بیک وقت فوت ہوئے یا یکے بعد دیگرے۔
آخری تین حالتوں میں احتمال کی گنجائش ہے جس میں نظرو فکر سے اجتہاد کی ضرورت ہے۔ اس کے بارے میں علمائے کرام کے دو قول ہیں۔
ان مذکورہ تینوں صورتوں میں مرنے والے باہم وارث نہیں ہوں گے۔ یہ قول صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی ایک جماعت کا ہے۔ ان میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ شامل ہیں۔ آئمہ ثلاثہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ،مالک اور شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا یہی مسلک ہے۔ اور یہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک کے بھی مطابق ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ورثہ پانے کی شرائط میں ہے کہ مورث کی وفات کے بعد وارث زندہ ہو اور یہ شرط یہاں یقینی نہیں بلکہ مشکوک ہے اور شک سے حق وراثت ثابت نہیں ہوتا۔ نیز جنگ یمامہ، جنگ صفین اور جنگ حرہ کے مقتولوں کو ایک دوسرے کا وارث نہیں بنایا گیا تھا۔
ہر ایک دوسرے کا وارث ہو گا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے حضرت عمر بن خطاب اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے قائل ہیں۔امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا ظاہر مذہب بھی ہے۔ اس قول کی بنیاد یہ ہے کہ ہر ایک کا زندہ ہو نا یقین سے ثابت ہے جو اصل ہے۔ اصل یہ ہے کہ اسے دوسرے کی موت کے بعد زندہ سمجھا جائے۔ نیز سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور حکومت میں شام میں طاعون کی وبا پھیل گئی تو لوگ یکے بعد دیگر ے مرنے لگے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ ایک دوسرے کا وارث بنایا جائے۔
ان کی توریث کے لیے یہ شرط لگائی جاتی ہے کہ ورثاء اس قسم کی مشتبہ اموات میں اختلاف نہ کریں کہ ہر کوئی دعوی کرے کہ ہمارا مورث بعد میں مرا ہے جبکہ ان میں سے دلیل کوئی بھی پیش نہ کرے اختلاف کی صورت میں ورثاء قسمیں اٹھائیں گے لیکن ایک دوسرے کے وارث نہیں بنیں گے۔
اس قول کے مطابق تقسیم وراثت اس طرح ہو گی کہ ہر میت کا وہ مال تقسیم ہو گا جو اس کا ذاتی قدیم مال ہے نہ کہ وہ مال جو اسے اس شخص کے ترکہ سے ملا ہے جو اس کے ساتھ فوت ہوا تھا۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اس اجتماعی موت میں ہر ایک کو اولاً یہ فرض کیا جائے گا کہ وہ پہلے فوت ہوا تھا لہٰذا اس کا ذاتی ترکہ مال قدیم اس کے زندہ ورثاء میں اور جو اس کے ساتھ فوت ہوئے تھے ان میں تقسیم کیا جائےگا۔ باقی رہا وہ مال جو اسے اپنے ساتھ فوت ہونے والوں کی طرف سے ملا ہے وہ صرف زندہ ورثاء کے درمیان تقسیم ہوگا تاکہ ہر ایک اپنے ہی مال کا خود وارث نہ ہو۔پھر اس عمل کو دہرایا جائے گا کہ کسی شخص کو یہ فرض کیا جائے گویا وہ بعد میں فوت ہوااور اسے دوسری میت کا بحیثیت وارث اسی طرح حصہ ملے گا جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے۔
اس مسئلے میں راجح قول پہلا قول ہےکہ بیک وقت فوت ہونے والے زیادہ افراد باہم ایک دوسرے کے وارث نہ ہوں گے کیونکہ احتمال اور شک سے حق وراثت ثابت نہیں ہوتا جبکہ اس واقعے میں کسی کی موت کو مقدم اور کسی کی موت کو مؤخر قرار دینا صرف لاعلمی کی بنیاد پر ہےجو کالعدم ہے نیز کسی زندہ شخص کو میراث اس لیے ملتی ہے تاکہ وہ مورث کے بعد اس سے فائدہ اٹھالے اور یہ چیز یہاں مفقود ہے۔ علاوہ ازیں انھیں باہم وارث قراردینے میں تناقص پایا جاتا ہے اور وہ اس طرح کہ کسی کو وارث قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ وفات میں متاخر ہے اور پھر اس کے ترکے کا کسی دوسری میت کو وارث قراردینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ وفات میں مقدم ہے۔ ایک ہی شخص کو موت میں بیک وقت مقدم اور مؤخر قرار دینا تناقص ہے۔
الغرض راحج قول کے مطابق مال ترکہ صرف ان ورثاء کو ملے گا جو زندہ ہوں گے اور جو اس کے ساتھ ہی فوت ہوئے ہیں انھیں کچھ حصہ نہ ملے گا۔ اس عمل کی بنیاد یقین پر ہے نہ کہ شک و شبہ پر واللہ اعلم۔
"رد" کے لغوی معنی پھیرنے اور لوٹانے کے ہیں دین حق سے پھر جانے کو بھی"ارتداد"اسی وجہ سے کہتے ہیں جبکہ اصطلاح میراث میں "رد " سے مراد ہے" اصحاب الفرائض کے حصص کی ادائیگی کے بعد جو سہام باقی بچ جائیں اور کوئی عصبہ وارث نہ ہو انھیں دوبارہ اصحاب الفرائض نسبیہ پر لوٹا دینا۔"
اللہ تعالیٰ نے بعض ورثاء کے حصے جیسے نصف چوتھائی آٹھواں دو تہائی اور چھٹا مقرر فرمادیے ہیں۔
علاوہ ازیں عصبات مردوں یا عورتوں کے لیے طریقہ تقسیم بھی بیان کر دیا ہے۔ ارشاد نبوی ہے۔
"اصحاب الفروض کوان کے حصے دو۔ پھر جو بچ جائے وہ قریبی مرد(عصبہ) کو دو۔"[1]
یہ حدیث قرآن مجید کے حکم کی وضاحت کرتی ہے اور ورثاء کی دونوں قسموں میں تقسیم ترکہ میں ترتیب مقرر کرتی ہے۔لہٰذا جب اصحاب الفرائض اور عصبہ ورثاء کی دونوں قسمیں موجود ہوں تو حدیث مذکورہ کی روشنی میں حکم واضح ہے کہ اولاً اصحاب الفرائض کو ان کے مقررہ حصص دیے جائیں اور جو ترکہ باقی بچ جائے وہ عصبہ کو دیا جائے ۔ اگر باقی کچھ نہ بچے تو عصبہ محروم ہو گا۔ اور اگر صرف عصبات وارث ہوں تو وہ سارا مال اپنی تعداد کے مطابق بانٹ لیں گے۔
اشکال اس صورت میں ہے کہ جب اصحاب الفرائض کو ان کے مقررہ حصص دے کر ترکہ بچ جائے اور عصبہ میں سے بھی کوئی موجود نہ ہو جسے باقی ترکہ مل جائے تو اس کا حل یہ ہے کہ بچا ہوا ترکہ بھی اصحاب الفرائض پر ان کے سہام کے مطابق دوبارہ لوٹا دیا جائے گا ا۔لبتہ خاوند یا بیوی میں سے کوئی موجود ہو تو اس پر رد نہ ہو گا۔ اس کےدلائل درج ذیل ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"اور اللہ کے حکم میں رشتے ناتے والے ان میں سے بعض بعض سے زیادہ نزدیک ہیں۔"[2]
چونکہ اصحاب الفرائض بھی میت کے رشتے دار ہیں لہٰذا وہ اس کے باقی ترکہ کے(عصبات کے سوا) دوسروں کی نسبت زیادہ حقدار ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
"جو شخص مال چھوڑ گیا وہ اس کے ورثاء کا حق ہے۔"[3]
یہ حکم نبوی اس تمام مال کے بارے میں ہے جو میت چھوڑ جائے حتی کہ اصحاب الفرائض کو دینے کے بعد جو مال بچ جائے وہ بھی اس حکم میں داخل ہے۔ لہٰذا جب عصبات نہ ہوں تو اصحاب الفرائض اپنے مورث کے مال کے زیادہ حقدار ہیں۔
حدیث شریف میں ہے کہ جب سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایام بیماری میں ان کی بیمار پرسی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو انھوں نے کہا:اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے ترکہ کی وارث صرف میری ایک بیٹی ہے۔ سیدنا سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی اکیلی بیٹی کو کل ترکہ کا وارث قراردیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بات کو غلط قرار نہیں دیا۔ اگر یہ بات غلط ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو ٹوک دیتے چنانچہ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اگر صاحب فرض اپنا مقرر حصہ وصول کر لے اور مال ترکہ باقی بچ جائے اور عصبہ وارث نہ ہو تو صاحب فرض باقی مال بھی سمیٹ لے گا اور یہی "رد" ہے۔
تمام اصحاب الفرائض پر رد ہوتا ہے سوائے زوجین کے کیونکہ زوجین کبھی نسبی رشتے دار نہیں ہوتے لہٰذا وہ اللہ تعالیٰ کے فرمان:
[4] کے عمومی حکم میں شامل نہیں۔
اہل علم کا اتفاق ہے کہ زوجین پر رد نہیں ہوتا۔ البتہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں جو روایت آتی ہے کہ انھوں نے خاوند پر رد کیا تھا تو ممکن ہے انھوں نے رد کے سوا کسی اور صورت میں دیا ہو۔ مثلاً :وہ عصبہ یاذ و رحم بھی ہو۔
علم میراث کی اصطلاح میں"ذی رحم"ہر وہ رشتے دار ہے جو نہ صاحب فرض ہواور نہ عصبہ ہو۔ ذوی الارحام کی اجمالا چار اقسام ہیں۔
1۔جو میت کی طرف سے منسوب ہوں جیسے بیٹیوں کی اولاد پوتیوں کی اولاد نیچے تک۔
2۔جس کی طرف میت منسوب ہو جیسے جد فاسد ،یعنی ماں کا باپ دادی کا باپ اور جدہ فاسدہ یعنی نانا کی ماں۔
3۔جو میت کے والدین کی طرف منسوب ہو جیسے بہنوں کی اولاد (بھانجے بھانجیاں ) بھائیوں کی بیٹیاں (بھتیجیاں )اخیافی بھائیوں کی اولاد اور نیچے تک جو بھی ان کے ساتھ میت کی طرف نسبت کرے۔
4۔جو میت کے دادا، نان یا دادی و نانی کی طرف منسوب ہو۔ مثلاً:اخیافی چچے ،پھوپھیاں، چچوں کی بیٹیاں ، ماموں اور خالائیں اگرچہ دور کے ہوں اور ان کی اولاد۔
تنبیہ: یہ تمام مذکورہ ورثاء اور ان کے علاوہ جوان کے واسطے سے میت سے قرابت رکھے وہ ذوی الارحام میں شمار ہوگا۔
ذوی الارحام تب وارث ہوں گے جب(زوجین کے سوا) کوئی صاحب فرض اور عصبہ نہ ہو۔ اس کے دلائل حسب ذیل ہیں۔
ارشاد الٰہی ہے:
"اور اللہ کے حکم میں رشتے ناتے والے ان میں سے بعض بعض سے زیادہ نزدیک ہیں۔"[5]
اللہ تعالیٰ کا عمومی فرمان ہے:
"ماں باپ اور خویش واقارب کے ترکہ میں مردوں کا حصہ بھی ہے اور عورتوں کا بھی(جو مال ماں باپ اور خویش و اقارب چھوڑ کر مریں۔)[6]
ان آیات میں عام مردوں اور عورتوں کے لیے میراث کا ذکر ہے وہ صاحب فرض ہو یا عصبہ یا ذوی الاحارم۔
آیت میں جو تخصیص کا دعوی کرتا ہے اس کے ذمے دلیل ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
"جس کاکوئی (صاحب فرض اور عصبہ )وارث نہ ہو اس کا وارث ماموں ہے۔"[7]
وجہ دلالت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس میت کا وارث صاحب فرض یا عصبہ نہ ہو اس کے ماموں کو ذوی الاحارم میں سے ہے۔ وارث قراردیا ہے لہٰذا حدیث شریف کا اطلاق ماموں کی طرح دوسرے ذوی الاحارم پر بھی ہوگا۔
درج بالا دلائل ان حضرات کے ہیں جو ذوی الاحارم کو وارث بنانے کے قائل ہیں۔ یہی رائے بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی تھی ان میں سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شامل ہیں۔ حنابلہ اور حنفیہ کا بھی یہی مسلک ہے۔ مذہب شافعیہ کی جدید رائے یہی ہے بشرطیکہ بیت المال کا انتظام نہ ہو۔
ذوی الاحارم کو وارث بنانے کے قائلین نے آپس میں طریقہ تقسیم میں اختلاف کیا ہے چنانچہ اس کے بارے میں اہل علم کے مشہور درج ذیل دو قول ہیں۔
1۔پہلا قول بمنزلہ گرداننے کا ہے اس قول والوں کے نزدیک ذوی الاحارم خود بلا واسطہ وارث نہیں ہوتے ۔ یہ حضرات ذوی الاحارم کو ان اصحاب الفرائض اور عصبات کے قائم مقام بناتے ہیں جن کے واسطے سے ان کی میت سے رشتے داری اور قرابت ہے۔ اور پھر انھی والا حصہ دیتے ہیں مثلاً ان کے نزدیک بیٹیوں کی اولاد اور پوتیوں کی اولاد اپنی ماؤں کے قائم مقام ہوگی۔ اور اخیافی چچا اور پھوپھیاں باپ کے قائم مقام ہوں گی۔ اسی طرح ماموں خالائیں اور نانا ماں کے قائم مقام ہوں گے اور بھتیجیاں اور بھائیوں کی پوتیاں اپنے باپوں کے قائم مقام ہوں گی۔علی ھذا القیاس۔
2۔ ذوی الاحارم میں ترکہ کی تقسیم عصبات کی طرح ہوگی جس کی بنیاد الاقرب فالا قرب ہے ۔ واللہ اعلم۔
یہ امر واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عقد زوجیت کو وارث بننے کا ایک سبب قراردیا ہے۔ارشاد الٰہی ہے۔
"تمھاری بیویاں جوکو کچھ چھوڑ مریں اور ان کی اولاد نہ ہو تو آدھا (نصف) تمھارا ہے۔"اور اگر ان کی اولاد ہو تو ان کو چھوڑے ہوئے مال میں سے تمھارےلیے چوتھائی حصہ ہے اس وصیت کی ادائیگی کے بعد جو وہ کر گئی ہوں یا قرض کے بعد۔"اور جو(ترکہ) تم چھوڑ جاؤ اس میں ان کے لیے چوتھائی ہے اگر تمھاری اولاد نہ ہو۔اور اگر تمھاری اولاد ہو انھیں تمھارےترکہ کا آٹھواں حصہ ملے گا اس وصیت کے بعد جو تم کر گئے ہو اور قرض کی ادائیگی کے بعد۔"[8]
جب تک عقد زوجیت قائم ہے تب تک حق میراث باقی ہےالایہ کہ کوئی مانع ارث حائل ہو جائے۔
جب زوجیت کی گرہ مکمل طور پر کھل جائے جس کی صورت طلاق بائن ہے تو حق میراث ختم ہو جاتا ہے کیونکہ سبب موجود نہ رہا تو مسبب بھی جاتا رہا۔ البتہ طلاق رجعی کی صورت میں عورت عدت کے دوران میں حق میراث سے محروم نہ ہوگی ۔مطلقہ کی میراث کی توضیح میں فقہائے کرام نے کتب میراث میں ایک مستقل باب قائم کیا ہے۔مطلقات کی اجمالاً تین قسمیں ہیں۔
1۔ مطلقہ رجعیہ: جس عورت کو رجعی طلاق ہو۔ ایسی طلاق طلاق دینے والے کی حالت صحت میں دی گئی ہو یا حالت مرض الموت میں دونوں کا ایک ہی حکم ہے۔
2۔مطلقہ بائنہ: جسے حالت صحت میں ایسی طلاق دی گئی ہو جس میں رجوع کا حق نہیں رہتا۔
3۔مطلقہ بائنہ: یعنی جسے حالت مرض الموت میں طلاق دی گئی ہو جس میں رجوع کا حق نہیں رہتا۔
پہلی قسم کی عورت بالا جماع"حق میراث"رکھتی ہے بشرطیکہ طلاق دینے والا فوت ہو جائے اور مطلقہ اپنی عدت طلاق کے اندر ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک مطلقہ عدت میں ہو وہ طلاق دینے والے کی بیوی ہی شمار ہوتی ہے۔لہٰذا اسے بیوی کے حقوق بھی حاصل ہوں گے۔
جس عورت کو شوہر نے حالت صحت میں طلاق بائن دی وہ بالا جماع وارث نہیں کیونکہ طلاق بائن سے زوجیت کا تعلق ختم ہو جاتا ہے۔اس میں شوہر پر الزام بھی نہیں لگ سکتا کہ اس نے بیوی کو محروم رکھنے کے لیے طلاق دی ہے۔اسی طرح اگر مرد بیوی کو اپنی ایسی بیماری میں طلاق بائن دے جس میں موت کا اندیشہ نہ ہو اس کا بھی درج بالا حکم ہے۔
جس عورت کو اس کے شوہر نے مرض الموت میں طلاق بائن دی۔ اور اس پر بیوی کو بلاوجہ میراث سے محروم کرنے کا الزام بھی نہیں لگایا جا سکتا تو ایسی عورت بھی وارث نہ ہوگی۔ اور اگر شوہر پر یہ الزام آتا ہو کہ اس نے مرض الموت میں اس لیے طلاق بائن دی کہ اسے میراث سے محروم کر دے تو مطلقہ عورت عدت میں ہو یا عدت گزار چکی ہو وارث ہو گی بشرطیکہ اس نے دوسرے جگہ شادی نہ کی ہو یا مرتد نہ ہو چکی ہو۔
مرض الموت میں طلاق بائن کی صورت میں جبکہ خاوند پر شک کیا جا سکتا ہو۔ مطقلہ کو وارث بنانے کی دلیل یہ ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سیدنا عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی کو وارث قراردیا تھا جب انھوں نے حالت مرض الموت میں طلاق بائن دی تھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے کسی نے بھی اس مشہور فتوے کی مخالفت نہیں کی تھی۔ نیز اس سے فساد کا دروازہ بند ہو جاتا ہے کہ کوئی شخص مرتے وقت بیوی کو اس کے حق میراث سے محروم کر جائے۔ اسی لیے یہ کہنا درست نہیں کہ مطلقہ بائنہ عدت کے دوران اپنے شوہر کی میراث کا حق رکھتی ہے بعد از عدت نہیں۔ واللہ اعلم۔
انعقاد نکاح کے بعد زوجین ایک دوسرے کے وارث قرارپاتے ہیں۔ رخصتی ہو یا نہ ہو اور خلوت ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو کیونکہ آیت کریمہ کے حکم میں عموم ہے۔ ارشاد الٰہی ہے۔
"تمھاری بیویاں جوکو کچھ چھوڑ مریں اور ان کی اولاد نہ ہو تو آدھا (نصف) تمھارا ہے۔"اور اگر ان کی اولاد ہو تو ان کو چھوڑے ہوئے مال میں سے تمھارےلیے چوتھائی حصہ ہے اس وصیت کی ادائیگی کے بعد جو وہ کر گئی ہوں یا قرض کے بعد۔"اور جو(ترکہ) تم چھوڑ جاؤ اس میں ان کے لیے چوتھائی ہے اگر تمھاری اولاد نہ ہو۔اور اگر تمھاری اولاد ہو انھیں تمھارےترکہ کا آٹھواں حصہ ملے گا اس وصیت کے بعد جو تم کر گئے ہو اور قرض کی ادائیگی کے بعد۔"[9]
اس کی وجہ یہ ہے کہ زوجیت کا رشتہ نہایت اہم بااعتماد اور مقدس ہے جس پر بہت سے احکام مرتب ہوتے ہیں نیز اس پر عظیم مصلح کا دارومدا رہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کے لیے دوسرے کے مال سے بعد از موت ایک حصہ مقرر کر دیا ہے جیسا کہ اس کے اقرباء کا حق ہے۔ اس میں یہ حکمت بھی ہے کہ ہر ایک دوسرے کو احترام و توقیر کی نگاہ سے دیکھے۔
دین اسلام کے دن جملہ احکام میں خیرو برکت ہے۔ اللہ تعالیٰ اسی پر ہمیں زندہ رکھے اور اسی پر موت دے۔
[1] ۔صحیح البخاری،الفرائض باب میراث الولد ایہ وامہ حدیث6732۔وصحیح مسلم الفرائض باب الحفوالفرائض بالھلھا فما بقی فلاولیٰ رجل ذکر حدیث 1615۔
[2] ۔الانفال:8/75۔
[3] ۔صحیح البخاری الکفالۃ باب الدین حدیث2298 وصحیح مسلم الفرائض باب من ترک مالا فلورثتۃ حدیث 1619 واللفظ لہ۔
[4] ۔الانفال:8/75۔
[5] ۔الانفال:8/75۔
[6] ۔النساء:4/7۔
[7] ۔سنن ابی داؤد الفرائض باب فی میراث ذوی الاحارم حدیث2899وجامع الترمذی ،الفرائض باب ماجاء فی میراث الخال حدیث 2104۔
[8] ۔النساء:4۔12۔
[9] ۔النساء:4۔12۔