سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(11) مریض اور مالی تصرفات

  • 23733
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-30
  • مشاہدات : 2040

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مریض اور مالی تصرفات


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

انسان کی حالت صحت ،حالت مرض سے اس اعتبار سے مختلف ہوتی ہے کہ اس کے شرعی حدود میں رہ کر سمجھداری کی حالت میں کئے ہوئے مالی تصرفات معتبر ہوتے ہیں اور اس پر کوئی پکڑ اور استدراک نہیں کر سکتا لہٰذا حالت صحت میں صدقات و خیرات کرنا حالات مرض کے صدقات و خیرات سے گئی گنا زیادہ ثواب کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَأَنفِقوا مِن ما رَزَقنـٰكُم مِن قَبلِ أَن يَأتِىَ أَحَدَكُمُ المَوتُ فَيَقولَ رَبِّ لَولا أَخَّرتَنى إِلىٰ أَجَلٍ قَريبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُن مِنَ الصّـٰلِحينَ ﴿١٠ وَلَن يُؤَخِّرَ اللَّهُ نَفسًا إِذا جاءَ أَجَلُها وَاللَّهُ خَبيرٌ بِما تَعمَلونَ ﴿١١﴾... سورة المنافقون

"اور جو کچھ ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے (ہماری راه میں) اس سے پہلے خرچ کرو کہ تم میں سے کسی کو موت آ جائے تو کہنے لگے اے میرے پروردگار! مجھے تو تھوڑی دیر کی مہلت کیوں نہیں دیتا؟ کہ میں صدقہ کروں اور نیک لوگوں میں سے ہو جاؤں (10) اور جب کسی کا مقرره وقت آجاتا ہے پھر اسے اللہ تعالیٰ ہر گز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے اللہ تعالیٰ بخوبی باخبر ہے" [1]

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے پوچھا گیا کہ افضل صدقہ کون سا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"أَنْ تَصَدَّقَ وَأَنْتَ صَحِيحٌ شَحِيحٌ تَخْشَى الْفَقْرَ وَتَأْمُلُ الْغِنَى وَلا تُمْهِلُ حَتَّى إِذَا بَلَغَتْ الْحُلْقُومَ قُلْتَ لِفُلانٍ كَذَا وَلِفُلانٍ كَذَا وَقَدْ كَانَ لِفُلانٍ"

"تم ایسی حالت میں صدقہ کرو کہ تم تندرست اور مال کے خواہشمند ہو غنی کی امید ہو، فقرکا ڈر ہو۔ اور اسے (صدقے کو) اس قدر مؤخر نہ کرو کہ جب جان حلق تک آجائے تو کہوں فلاں کا اتنا حصہ ہے اور فلاں کا اتنا جبکہ وہ تو فلاں فلاں کا ہو ہی چکا ۔"[2]

مرض دو قسم کا ہوتا ہے:

1۔ایسا مرض جس میں عموماً موت کا خوف نہیں ہوتا مثلاً: ڈاڑھ آنکھ یا سر میں معمولی درد ہونا ایسے مریض کے مالی تصرفات کا حکم اسی طرح ہے جس طرح حالت صحت میں ہے۔اس حالت میں آدمی تمام مال بطور عطیہ دے سکتا ہے۔ اگر کسی کا ایسا معمولی مرض بڑھ کر خطرناک صورت اختیار کر گیا کہ اس کی موت واقع ہو گئی تو اس حالت کا صدقہ و عطیہ حالت صحت کے صدقے کے حکم میں ہے۔

2۔ایسا مرض جس میں عموماً موت کا خطرہ ہے ایسے مریض کو صدقات و عطیات میں کل مال کا تہائی حصہ دینے کا اختیار ہے لہٰذا اگر اس کی تبرعات وعطا یا تہائی مال یا اس سے کم کی ہے تو ان کا نفاذ ہو گا۔ اور اگر اس مقرر مقدار سے زیادہ کی ہیں تو موت کے بعد ان کا نفاذ اس کے ورثاء کی اجازت و رضا مندی کے بغیر نہ ہو گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

"إنَّ اللَّهَ تَصَدَّقَ عَلَيْكُمْ عِنْدَ وَفَاتِكُمْ بِثُلُثِ أَمْوَالِكُمْ زِيَادَةً لَكُمْ فِي أَعْمَالِكُمْ "

"اللہ تعالیٰ نے تمھیں بوقت وفات اپنے اموال میں سے تہائی مال کی وصیت کی اجازت دے کر مہربانی فرمائی تاکہ تم اپنے نیک اعمال میں اضافہ کر سکو۔"[3]

 یہ حدیث اور اس موضوع کی دیگر احادیث شریفہ سے وضاحت ہوتی ہے کہ انسان کو بوقت وفات اپنے کل مال میں سے ایک تہائی مال اپنی رضا مندی سے خرچ کرنے کا اختیار ہے۔ جمہورعلماء کا یہی مسلک ہے اور اس لیے کہ وہ اب اس خطرناک بیماری کی حالت میں ہے جس سے غالباً موت واقع ہو جاتی ہے تو کل مال کا عطیہ ورثاء کے لیے نقصان دہ ہے اس بناپر اس کا عطیہ وصیت کی طرح ثلث کی طرف لوٹایا گیا۔

مذکورہ بالاصورت کی طرح اس حالت کا بھی حکم ہے جس میں موت کا خطرہ سامنے ہومثلاً: کسی شہر میں کوئی خطرناک وبا پھوٹ پڑے۔ یا کوئی شخص لڑائی میں شریک ہو یا کوئی سمندری طوفان کے وقت موجوں کی زد میں آگیا ہو تو ان حالات میں بھی تہائی مال سے زیادہ عطیہ کرنا جائز نہیں ۔مگر یہ کہ ورثاء اس کی اجازت دیں۔ اس حال میں اگر وہ کسی ایک وارث کو عطیہ دے کر مرجاتا ہے تو دوسرے وارثوں کی اجازت کے بغیر وہ نافذ نہیں ہو گا اگر مریض خطرے کی حالت سے نکل گیا تو اس کے تمام عطیات نافذ اور جاری ہوں گے کیونکہ مانع موجود نہیں رہا۔

جو شخص کسی دائمی مرض میں مبتلا ہے لیکن صاحب فراش نہیں تو ایسے شخص کے صدقات تندروست آدمی کے صدقات کی طرح ہوں گے اور وہ اپنا تمام مال فی سبیل اللہ خرچ کر سکتا ہے کیونکہ اس طرح کی بیماری میں موت جلدی آنے کا خوف نہیں ہوتا تو یہ بڑھاپے کی طرح ہے۔ لیکن اگر کوئی دائمی مرض کی وجہ سے صاحب فراش بھی ہے تو وہ اس شخص کے حکم میں ہے جسے خطرناک مرض لاحق ہو۔وہ تہائی مال سے زیادہ کی وصیت نہیں کر سکتا جو غیر وارث کے حق میں ہو گی۔ ہاں وارث کے حق میں اس کی وصیت تب درست ہے جب دیگر ورثاء کی اجازت ہو۔

تہائی مال کی مقدار کا اعتبار عند الموت ہو گا کیونکہ وصیتوں کے لزوم اور ان کے استحقاق کا یہی وقت ہوتا ہے اور ثلث مال سے وصیت اور عطیہ بھی اسی وقت نافذ  ہوگا۔اگر ترکہ کم ہو توعطیات وصایا پر مقدم ہوں گے کیونکہ وہ مریض کے حق میں لازم ہیں جیسا کہ حالت صحت میں عطیہ دینا وصیت پر مقدم ہے۔وصیت اور عطیے میں (فقہاء کے نزدیک) چار لحاظ سے فرق ہے:

وصیت میں اس بات کو مدنظر نہیں رکھا جاتا کہ جس کے حق میں پہلے وصیت کی اسے پہلے دیا جائے پھر دوسرے کو کیونکہ وصیت موت کے بعد ایک تبرع ہے جو یکبار گی کا تقاضا کرتا ہے البتہ عطیے میں مقدم و مؤخر کا لحاظ ہو گاکہ جس کو پہلے عطیہ کیا گیا ہے اسے پہلے دیا جائے گا اس لیے کہ عطیہ دینے والے کے حق میں لازم ہو چکا ہے۔

2۔ عطیے پر قبضہ کر لیا جائے تو عطیہ دینے والا اسے واپس نہیں لے سکتا بخلاف وصیت کے ۔کہ یہ موت کے بعد لازم ہوتی ہے لہٰذا موصی (وصیت کرنے والا) زندگی میں وصیت سے رجوع کر سکتا ہے۔

3۔عطیے کے قبول کا اس وقت اعتبار ہو گا جب عطیہ دیا جائے کیونکہ یہ فوری ملکیت کانام ہے۔ اس کے برعکس وصیت میں موت کے بعد تملیک ثابت ہوتی ہے لہٰذا اس میں قبول کا اعتبار تب ہو گا جب موت واقع ہو جائے۔

4۔ عطیہ قبول کرتے ہی ملکیت ثابت ہو جائے گی بخلاف وصیت کے کہ اس میں موت سے قبل ملکیت ثابت ہو گی کیونکہ اس کی تملیک موت کے بعد ہوتی ہے پہلے نہیں۔

وصیت احکام

وصیت کے لغوی معنی" ملانے"کے ہیں کیونکہ اس کے ذریعے سے زندگی کے (بعض معاملات ) کو موت کے بعد (بعض معاملات )سے ملایا جاتا ہے اور وصیت کرنے والے نے بھی اپنے بعض تصرفات جو اس کی زندگی میں جائز تھے ملادیے تاکہ وہ زندگی کے بعد بھی جاری رہیں۔

فقہاء کی اصطلاح میں وصیت کے معنی ہیں۔" ترکے کا ایک مخصوص حصہ موت کے بعد (کسی شخص یا جگہ میں)صرف کرنے کا حکم دینا۔"یا دوسرے لفظوں میں یہ"موت کے بعد مال کے ذریعے سے تبرع کرنا"ہے۔

وصیت کی مشروعیت کتاب اللہ ، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اور اجماع سے ثابت ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

﴿ كُتِبَ عَلَيكُم إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ المَوتُ إِن تَرَكَ خَيرًا الوَصِيَّةُ لِلو‌ٰلِدَينِ وَالأَقرَبينَ بِالمَعروفِ حَقًّا عَلَى المُتَّقينَ ﴿١٨٠﴾... سورة البقرة

"تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کوئی مرنے لگے اور مال چھوڑے جا رہا ہو تو اپنے ماں باپ اور قرابت داروں کے لیے اچھائی کے ساتھ وصیت کر جائے۔ پرہیز گاروں پر یہ حق اور ثابت ہے۔"[4]

نیز فرمایا:

﴿مِن بَعدِ وَصِيَّةٍ يوصىٰ بِها أَو دَينٍ... ﴿١٢﴾... سورة النساء

"(یہ تقسیم ) اس کی وصیت پر عمل یا قرض ادا کرنے کے بعد ہو گی۔"[5]

فرمان نبوی ہے:

"إِنَّ اللَّهَ تَصَدَّقَ عَلَيْكُمْ بِثُلُثِ أَمْوَالِكُمْ عِنْدَ وَفَاتِكُمْ؛ زِيَادَةً فِي حَسَنَاتِكُمْ"

"اللہ تعالیٰ نے تم پر مہربانی کی کہ بوقت وفات تہائی مال خرچ کرنے کا حکم دیا تاکہ تمھاری نیکیاں زیادہ ہو جائیں۔[6]

وصیت کے جواز پر علمائے امت کا اجماع ہے۔

وصیت کرنا کبھی واجب ہوتا ہے اور کبھی مستحب ۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ ہر اس حق کے بارے میں وصیت کرنا واجب ہے جو اس کا لوگوں پر ہے یا لوگوں کا اس پر ہے یعنی ان کے ساتھ لین دین ہے اور اس بارے میں کوئی ثبوت نہیں۔ ایسے حقوق کے بارے میں وصیت لازمی ہے تاکہ ان کا ضیاع نہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے۔

"مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ ، لَهُ شَيْءٌ يُوصَى فِيهِ ، يَبِيتُ لَيْلَتَيْنِ إِلَّا وَوَصِيَّتُهُ عِنْدَهُ مَكْتُوبَةٌ "

"کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ(اگر) وہ کسی چیز کی وصیت کرنا چاہتا ہو تو اس میں دوراتیں گزاردے مگر اس حال میں کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی ہونی چاہیے۔"[7]

لہٰذا اگر اس کے پاس لوگوں کی امانتیں ہیں یا اس نے ان کے حقوق ادا کرنے ہیں تو اس پر ان کا لکھنا اور واضح کرنا واجب ہے۔

اور مستحب وصیت یہ ہے کہ ایک شخص اپنے مال کا ایک مخصوص حصہ کسی نیکی کے کام میں لگانے کی وصیت کرے تاکہ بعد از وفات اسے اجرو ثواب ملتا رہے۔ ایسے موقع پر شریعت اسلامی نے زیادہ سے زیادہ تہائی مال تک وصیت کرنے کی اجازت دی ہے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی سراسر مہر بانی ہے تاکہ انسان زیادہ سے زیادہ نیکیاں  جمع کر سکے۔

سمجھ دار بچے کی وصیت درست ہے جیسا کہ اس کی نماز درست ہے۔جب موصی یعنی وصیت کرنے والا اپنی وصیت پر کسی کوگواہ بنادے یا بقلم خود تحریر کردے وصیت ثابت ہو جاتی ہے۔

وصیت کے احکام میں سے یہ بھی ہے کہ وہ تہائی مال یا اس سے کم کی ہو جبکہ بعض علماء کے نزدیک مستحب یہ ہے کہ تہائی مال سے کم کی وصیت ہو۔ یہ رائے حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی ہے۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان :

﴿وَاعلَموا أَنَّما غَنِمتُم مِن شَىءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ...﴿٤١﴾... سورة الانفال

"اور (اے مسلمانوں!)جان لو کہ تم جو کچھ بھی غنیمت حاصل کرو۔ اس میں سے پانچواں حصہ یقیناً اللہ کا ہے۔"[8]

کی بنا پر خمس(پانچویں حصے) کی وصیت پسند کرتا ہوں۔"[9]

سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا قول ہے کہ" میں چوتھائی مال کی نسبت پانچویں حصے کی وصیت کرنا زیادہ بہتر خیال کرتا ہوں۔"[10]

سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں:" کاش! لوگ تہائی مال کے بجائے چوتھائی مال کی وصیت کیا کریں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے۔

"الثُّلُثُ وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ "

"ایک تہائی کی وصیت درست تو ہے لیکن تہائی مال ہے زیادہ۔"[11]

جس شخص کے وارث موجود ہوں اسے تہائی مال سے زیادہ کی وصیت کرنا جائز نہیں البتہ ورثاء کی رضا مندی اور اجازت سے تہائی مال سے زیادہ کی وصیت جائز ہے کیونکہ تہائی مال سے زیادہ پر ورثاء کا حق ہے۔اگر کوئی صاحب حق اپنے حق سے دستبردار ہوتا ہے تو درست ہے اور ان کی اس اجازت کا اعتبار موت کے بعد ہو گا۔

احکام وصیت میں سے یہ حکم بھی ہے کہ ورثاء میں سے کسی وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے۔

"لَاوَصِيَّةَ لِوَارِثٍ" 

"وارث کےحق میں وصیت نہیں۔[12]

شیخ تقی الدین ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:"امت کا اس مسئلے پر اجماع ہے۔"[13]اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  فر ماتے ہیں:"یہ حدیث متواتر ہے۔"مزید فرماتے ہیں کہ ہم نے اہل فتوی کو اور ان اہل علم کو جن سے ہم نے علم حاصل کیا ہے قریش وغیرہ قریش میں سے ایسے پایا ہے کہ ان میں اسبات پر کوئی اختلاف نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فتح مکہ کے موقع پر فرمایا:وارث کے لیے وصیت نہیں ہے:" اور اسی کو وہ اہل علم سے  نقل کرتے ہیں جن سے ان کی ملاقات ہوئی ہے۔[14] البتہ ورثاء کی اجازت ہو تو ایسا کرنا درست ہے کیونکہ وہ خود اپنا حق کسی بخوشی دے رہے ہیں اور اسی طرح غیر وارث کے حق میں وصیت اور وارث کے حق میں ایک تہائی کی وصیت کی اجازت ورثاء کی طرف سے اس وقت معتبر ہو گی جب مرنے والا مرض الموت میں مبتلا ہو یا وفات پا چکا ہو۔"

احکام وصیت میں سے یہ بھی ہے کہ وصیت وہ شخص کرے جس کے پاس مال کثیر مقدار میں ہے اور اس کے ورثاء محتاج نہ ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

﴿كُتِبَ عَلَيكُم إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ المَوتُ إِن تَرَكَ خَيرًا الوَصِيَّةُ...﴿١٨٠﴾... سورة البقرة

""تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کوئی مرنے لگے اور مال چھوڑے جا رہا ہو تو وصیت کر جائے۔[15]

اور عرفا "خیر"سے مراد "مال کثیر"ہےاگر صورت حال اس کے برعکس ہوتو وصیت کرنا مکروہ ہے کیونکہ اس سے محتاج اقارب کو چھوڑ کر غیروں کو نوازنا لازم آتا ہے جو درست نہیں ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو فرمایا تھا۔

"إِنَّكَ أَنْ تَذَرَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَذَرَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ "

"اپنے ورثاء کو مالدار بنا کر چھوڑجانا بہتر ہے اس سے کہ انھیں ایسی حالت میں چھوڑو کہ وہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلائیں۔"[16]

امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ  کا قول ہے:" اجرو ثواب کے اعتبار سے سب سے افضل مال وہ ہے جو کوئی اپنی اولاد کے لیے چھوڑ جائے۔ جس سے وہ لوگوں سے مستغنی ہو جائیں۔"[17]سیدنا علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے ایک شخص سے فرمایا:"تم جو معمولی مال چھوڑ کر جا رہے ہو تو اسے اپنے ورثاء کے لیے رہنے دینا۔" [18]علاوہ ازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے متعدد صحابی کرام  رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے کوئی وصیت نہیں کی تھی۔

اگر کوئی موصی وصیت کے ذریعے سے ورثاء کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے تو یہ کام حرام اور گناہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔

"غَيْرَ مُضَارٍّ "

"جبکہ وہ کسی کو نقصان پہنچانے والا نہ ہو۔"[19]

حدیث میں ہے:

"إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ وَالْمَرْأَةُ بِطَاعَةِ اللَّهِ سِتِّينَ سَنَةً ثُمَّ يَحْضُرُهُمَا الْمَوْتُ فَيُضَارَّانِ فِي الْوَصِيَّةِ فَتَجِبُ لَهُمَا النَّارُ "

"بے شک ایک مرد اور عورت اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں ساٹھ سال عمل کرتے رہتے ہیں پھر انھیں موت کا وقت آتا ہے تو وصیت کے ذریعے سے ورثاء کو نقصان پہنچاتے ہیں تو ان پر جہنم کی آگ لازم ہو جاتی ہے۔"[20]

سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں۔

" الإضرار في الوصية من الكبائر "

"وصیت کے ذریعے سے کسی وارث کو نقصان پہنچانا کبیرہ گناہ ہے۔"۔[21]

امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:"اللہ تعالیٰ کے فرمان "غَيْرَ مُضَارٍّ " کا مطلب یہ ہے کہ موصی ایسی وصیت کر جائے جس میں ورثاء کا کسی بھی طریقے سے نقصان نہ ہو مثلاً: کسی ایسی چیز کا اقرار کرے جو درحقیقت  اس کے ذمے نہ تھی یا وصیت کا مقصد محض ورثاء کو نقصان پہنچانا ہو یا کسی وارث کے حق میں مطلق وصیت کر جائے یا غیر وارث کے حق میں تہائی مال سے زائد کی وصیت کرے جس پر ورثاء رضا مند نہ ہوں۔[22]یہ تمام صورتیں باطل  اور مردود ہیں جو کسی صورت میں نافذ ہوں گی وہ ثلث کی وصیت ہو یا اس سے کم کی ہویا اس سے کم کی ہو۔واللہ اعلم۔

احکام وصیت میں سے ایک حکم یہ ہے کہ جس شخص کا کوئی وارث نہ ہو وہ اپنے کل مال کی وصیت کر سکتا ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو فرمایا تھا:

"إِنَّكَ أَنْ تَذَرَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَذَرَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ "

"اگر تو اپنے ورثاء کو مالدار چھوڑ کر جائے تو یہ اس بات سے بہتر ہے کہ انھیں ایسی حالت میں چھوڑے کہ وہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلائیں۔[23]

اس روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سارے مال کی وصیت کرنے سے جو روکا ہے وہ ورثاء کی وجہ سے ہے کہ وہ تنگ دست نہ ہوجائیں لیکن اگر کسی کے ورثاء نہ ہوں تب سارے مال کی وصیت کرنا جائز ہو گی کیونکہ اس سے کسی وارث یا قرض خواہ کے حق کا تعلق نہیں پھر یہ ایسے ہی ہے جیسے صحت کی حالت میں سارا مال صدقہ کیا۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے بھی اس کا جواز منقول ہے نیز علمائے کرام کی ایک جماعت اس کی قائل ہے۔

امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:"درست بات یہی ہے(جس کا کوئی وارث نہ ہو۔) اس کو جمیع مال کی وصیت کرنے کا اختیار ہے۔ایک تہائی سے زائد کی وصیت کرنے سے شریعت نے وارثوں کی موجودگی کی بنا پر روکا ہے۔

جس کا کوئی وارث ہی نہیں تو اس کے مالی تصرفات پر کسی قسم کا اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔"[24]

وصیت کا ایک حکم یہ بھی ہے کہ اگر موصی نے تہائی مال کی وصیت کی لیکن وہ مال"موصي لهم" (جن افراد کے حق میں وصیت ہوئی) کو حسب وصیت پورا نہیں مل رہا بلکہ کم پڑ رہا ہے نیز ورثاء وصیت کردہ تہائی مال سے زائد مال خرچ کرنے کی اجازت بھی نہیں دے رہے تو ہر ایک موصیٰ لہ کو وصیت سے کم مال ملے گا اور باہمی نسبت بھی قائم رہے گی اس میں مقدم یا مؤخر کا لحاظ نہ ہو گا کیونکہ ہر ایک کو موصی کی موت کے بعد تبرعاً مال مل رہا ہے لہٰذا سب میں مال یکبار گی تقسیم ہو گا لیکن اصل حصے سے کم جیسا کہ مسئلہ عائلہ میں ہر وارث کو اس کے مقرر حصے سے کم ملتا ہے۔

مثال کے ذریعے سے وضاحت

اگر کسی نے ایک شخص کو سوروپے دینے کی اور دوسرے کو بھی سوروپے جب کہ تیسرے کو پچاس روپےچوتھے کو تیس روپے اور پانچویں کو بیس روپے دینے کی وصیت کی جب کہ ترکے کا تہائی مال صرف سوروپے ہے اور وصیتوں کی مجموعی رقم تین سوروپے بنتی ہے تو اس تناسب سے ہر موصیٰ لہ کو اس کے لیے کی گئی وصیت کا تیسرا حصہ ملے گا یعنی سوسوروپے والوں کو تینتیس تینتیس روپے تیسرے والے کو دس روپے  ۔علی ھذا القیاس۔

وصیت کی درستی یا غیر درستی کا اعتبار بوقت موت ہو گا۔ اگر کسی نے وارث کے حق میں وصیت کر دی لیکن بوقت موت وہی شخص وارث نہ رہا تو اس کے حق میں وصیت جائز ہو گی۔ مثلاً:بھائی جو پہلے وارث تھا اس کے حق میں وصیت کر دی گئی (جوناجائز تھی) پھر میت کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو اب بھائی وارث نہ رہا لہٰذا اس کے حق میں کی گئی وصیت جائز ہے۔

اس کے برعکس اگر کسی کے حق میں غیر وارث سمجھ کر وصیت کر دی گئی لیکن بوقت موت وہی شخص وارث بن گیا تو ورثاء کی اجازت کے بغیر اس کے حق میں وصیت جائز نہ ہو گی مثلاً:بیٹے کی موجودگی میں بھائی کے حق میں وصیت کی گئی جو جائز تھی لیکن موصیٰ کی موت سے قبل موصیٰ کا بیٹا فوت ہو گیا تو اب بھائی وارث قرار پایا لہٰذا ورثاء کی اجازت کے بغیر اس بھائی کے حق میں وصیت جائز نہ رہی۔

درج بالا حکم سے یہ بھی واضح ہوا کہ وصیت کو قبول کرنا وصیت کردہ پر قبضہ کرنا موصیٰ کی موت کے بعد ہو گا پہلے نہیں کیونکہ موصی کی موت کے وقت ہی حق ثابت ہو گا لہٰذا قبضہ بھی موت کے بعد ہو گا۔

ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:"ہمیں نہیں معلوم کہ اہل علم کے درمیان اس بات میں اختلاف ہو کہ وصیت کا اعتبار موت کے ساتھ ہوتا ہے۔ اگر وصیت کا تعلق غیر معین افراد سے ہے مثلاً: فقراءو مساکین یا لاتعدادافراد ،مثلاً: بنو تمیم قبیلے کے لیے وصیت یا کسی مصلحت کے لیے مثلاً :مساجد کے لیے تو اس کے لیے قبول کی شرط نہیں محض موت واقع ہونے کے ساتھ ہی وصیت پر عمل کرنا لازم ہو گا۔اگر اس کے برعکس ہو یعنی معین فرد کے لیے وصیت ہے تو بعد از موت قبول کرنے سے عمل لازم ہو گا۔"[25]

موصی اپنی وصیت سے کلی یا جزوی طور پر رجوع کر سکتا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا قول ہے:" آدمی اپنی وصیت میں حسب خواہش ترمیم کر سکتا ہے۔"[26]اہل علم کا اس پر اتفاق ہے چنانچہ اگر وہ کہے:"میں نے وصیت سے رجوع کیا۔"یا" میں نے وصیت کالعدم کر دی ۔" تو وہ کالعدم ہو جائے گی کیونکہ قبول کرنے وصیت کے لازم ہونے میں موصی کی موت کا اعتبار ہے تو اسی طرح وصیت کرنے والا زندگی میں رجوع کر سکتا ہے مثلاً:اگر اس نے کہا:"اگر زید آگیا تو جو کچھ میں نے عمرو کے حق میں وصیت کی ہے وہ اسے (زید کو)دے دینا۔"اب اگر زید وصیت کرنے والے کی زندگی میں آگیا تو وصیت کا مال ملے گا کیونکہ وصیت کرنے والے نے عمر والی وصیت سے رجوع کر لیا ہے لیکن اگر زید وصیت کرنے والے کی وفات کے بعد آیا تو وصیت عمر وہی کے لیے ہو گی کیونکہ جب اس کے آنے سے پہلے موصی فوت ہو گیا تو وصیت اول (عمرو) کے لیے متعین ہو گئی۔

وصیت کے نفاذ سے قبل لوگوں کے قرض اور اللہ تعالیٰ کے قرضے یعنی واجبات شرعیہ مثلاً:زکاۃ، حج ، نذر اور کفارے ادا کیے جائیں اگرچہ اس نے ان کی وصیت نہیں کیا تھی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

﴿مِن بَعدِ وَصِيَّةٍ يوصىٰ بِها أَو دَينٍ... ﴿١٢﴾... سورة النساء

"یہ حصے اس وصیت کی تکمیل کے بعد ہیں جو مرنے والا کر گیا ہو یا ادائے قرض کے بعد۔"[27]

سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا کہنا ہے:

"إن النبي صلى الله عليه وسلم قضى بالدين قبل الوصية "

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے وصیت سے قبل قرض ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔"[28]

اس روایت سے واضح ہوا کہ قرضوں کی ادائیگی وصیت کے اجرا پر مقدم ہے۔ صحیح بخاری میں ہے:

"اقْضُوا اللَّهَ ، فَاللَّهُ أَحَقُّ بِالْوَفَاءِ "

"اللہ تعالیٰ کے قرض ادا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے قرضوں کا ادا کرنا زیادہ حق رکھتا ہے۔"[29]

الغرض اول قرض کی ادائیگی ہو گی پھر اجرائے وصیت پھر تقسیم  ترکہ۔ اس ترتیب پر علماء کا اجماع ہے۔

اگرچہ  وصیت کا نفاذ ادائیگی قرض سے مؤخر ہے لیکن قرآن مجید میں وصیت کا ذکر مقدم ہے اس میں یہ حکمت پنہاں ہے کہ وصیت میراث کی طرح بلا عوض ہوتی ہے جس کی وجہ سے وصیت کا حصہ نکالنا انسان پر گراں ہو تا ہے

(جبکہ قرض خواہ اپنا قرض قوت سے بھی حاصل کر سکتا ہے نیز انسان کو اس کی فکر بھی لا حق ہوتی ہے) قرآن  مجیدمیں وصیت کا ذکر رغبت دلانے اور اس کی اہمیت کے پیش نظر مقدم رکھا گیا ہے۔ آیت میں(أَوْ)کا لفظ استعمال ہوا  ہے جس کے معنی" برابر"کے ہیں یعنی وصیت اور قرض اہمیت میں دونوں ہی برابر ہیں اگرچہ قرض ادائیگی میں وصیت پر مقدم ہے۔

وصیت کا معاملہ نہایت اہم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں وصیت نافذ کرنے پر نہایت رغبت دلائی ہے۔اسی وجہ سے تذکرے میں اسے مقدم رکھا ہے۔ جائز وصیت کے نفاذ میں جو شخص کوتاہی کا مرتکب ہو یا کسی شرعی گنجائش (دلیل) کے بغیر ترمیم کرے اس کے لیے سخت وعید آئی ہے۔ ارشاد الٰہی  ہے۔

﴿فَمَن بَدَّلَهُ بَعدَ ما سَمِعَهُ فَإِنَّما إِثمُهُ عَلَى الَّذينَ يُبَدِّلونَهُ إِنَّ اللَّهَ سَميعٌ عَليمٌ ﴿١٨١﴾... سورة البقرة

"اب جو شخص اسے سننے کے بعد بدل دے اس کا گناہ بدلنے والے ہی پر ہو گا واقعی اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔[30]

اس آیت کی تفسیر میں امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ  اپنی تفسیر میں رقم طراز ہیں۔"تبدیل تغیر کو کہتے ہیں آیت میں مذکور اس تبدیل و تغیر کے نتیجے میں یہ وعید اس شخص کے لیے ہے جو ایسی وصیت کو بدلتا ہے جو حق کے مطابق ہواور اس میں کسی قسم کی زیادتی یا نقصان نہ ہو۔ لہٰذا بدلنے والا گناہ گار ہے البتہ موصی پر اس کا کوئی بوجھ نہ ہو گا کیونکہ وہ وصیت میں حق بجانب تھا۔"[31]

وصیت ہر اس شخص کے لیے جائز ہے جو مالک بننے کا اہل ہو۔ وہ مسلمان ہو یا کافر ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

﴿إِلّا أَن تَفعَلوا إِلىٰ أَولِيائِكُم مَعروفًا... ﴿٦... سورةالاحزاب

"(ہاں) مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہو۔"[32]

حضرت محمد بن حنفیہ فرماتے ہیں:"اس آیت میں یہودی یا نصرانی کے لیے مسلمان کی وصیت کا جواز ثابت ہو تا ہے۔[33]

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اپنے مشرک بھائی کو لباس دیا تھا۔[34]

سیدہ اسماہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے اپنی مشرکہ ماں سے جو رغبت رکھتی تھی صلہ رحمی کی تھی۔[35]

اُم المؤمنین سیدہ صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے اپنے یہودی بھائی کے حق میں تہائی ترکہ کی وصیت کی تھی۔[36]

اس کے جواز میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

﴿لا يَنهىٰكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذينَ لَم يُقـٰتِلوكُم فِى الدّينِ وَلَم يُخرِجوكُم مِن دِيـٰرِكُم أَن تَبَرّوهُم وَتُقسِطوا إِلَيهِم إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ المُقسِطينَ ﴿٨﴾... سورة الممتحنة

"جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں لڑی اور تمھیں جلا وطن نہیں کیا ان کے ساتھ سلوک و احسان کرنے اور منصفانہ بھلے برتاؤ کرنے سے اللہ تمھیں نہیں روکتا۔ بلکہ اللہ تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔"[37]

کسی معین کافر کے حق میں مسلمان کا وصیت کرنا درست ہے جیسا کہ پیچھے گزر چکا ہے غیر معین کافر کے حق میں وصیت کرنا درست نہیں مثلاً: کسی مسلمان کا یہودو نصاری یا ان کے فقراء کے حق میں وصیت کرنا اسی طرح کسی معین کافر کو بصورت وصیت کسی ایسی چیز کا مالک بنانا جن کا ان کو مالک بنانا جائز نہیں ناجائز ہے مثلاً: اسے نسخہ قرآن یا مسلمان غلام یا اسلحہ دینے کی وصیت کرنا۔

ماں کے پیٹ میں موجود بچے کے حق میں وصیت جائز ہے بشرطیکہ وقت وصیت اس کا پیٹ میں ہو نا ثابت ہو۔ اس کا علم تب ہو گا اگر حاملہ وقت وصیت سے چھ ماہ کے پورے ہونے سے قبل اسے جنے بشرطیکہ اس کا شوہر یا مالک موجود ہو۔ اگر وہ شوہر یا آقاوالی نہ ہو تو وہ چار سال سے کم مدت کے اندر اندر جنے کیونکہ جب ایسا حمل وارث قرارپاتا ہے تو اس کے حق میں وصیت بالاولی جائز ہے۔[38]اگر بچہ ہو تو اس کے حق میں کی گئی وصیت باطل ہو جائے گی۔

ایسے بچے کے حق میں وصیت کرنا درست نہیں جس کا وجود بوقت وصیت پیٹ میں نہ ہو۔مثلاً: کوئی کہے میں اس حمل کے حق میں وصیت کرتا ہوں جو فلاں عورت کے پیٹ میں آئندہ ہوگا۔

اگر کسی نے مال کی بڑی مقدار کے بارے میں وصیت کرتے ہوئے کہا کہ "اس مال سے میری طرف سے حج کیا جائے۔"تو اس مال سے بار بار حج کروایا جائے یا متعدد افراد روانہ کیے جائیں حتی کہ وہ رقم ختم ہو جائے۔ اگر رقم کم ہو تو جس قدر وہ حج میں کام دے استعمال میں لائی جائے۔ اگر موصی نے کہا کہ میری اس قدر کثیر رقم ایک ہی حج میں استعمال کی جائے تو اسے ایک ہی حج میں خرچ کیا جائے گا کیونکہ موصی کا مقصد حج کرنے والے کو زیادہ سے زیادہ فائدہ راحت و آرام پہنچانا ہے۔

جس شخص کو وصیت نافذ کرنے کی ذمے داری سونپی گئی ہے وہ اس مال وصیت سے حج نہیں کر سکتا اسی طرح جس شخص کا وراثت میں حصہ ہے وہ بھی اس وصیت سے مستفید نہیں ہو سکتا کیونکہ وصیت کرنے والے کا مقصد بظاہر اس کے علاوہ دوسروں کو فائدہ پہنچانا ہے۔

جس میں مالک بننے کی اہلیت نہیں اس کے حق میں وصیت جائز نہیں مثلاً: جن چوپایہ یا میت وغیرہ۔

معصیت کے کاموں میں وصیت کرنا جائز نہیں مثلاً: گر جا گھروں یا کافروں اور مشرکوں کے معبد خانے کی تعمیر سے متعلق وصیت کرنا۔ اسی طرح مزاروں کی تعمیر ان پر چراغاں کرنے یا ان کے مجاوروں  کے لیے وصیت کرنا اس کے بارے میں موصیٰ کا فر ہو یا مسلمان برابر ہیں۔

شیخ الاسلام  ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  رقم طراز ہیں۔" اگر کسی ذمی نے اپنا مال اپنی کسی عبادت گاہ کے لیے وقف کرنے کی وصیت کی تو مسلمانوں کے لائق نہیں کہ اس کے جواز کا فتوی دیں کیونکہ انھیں وہ فتوی دینا چاہیے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اور حکم الٰہی یہ ہے کہ کفرو فسق اور نافرمانی کے امور میں باہمی تعاون نہ کرو۔لہٰذا کفر و عصیاں کی جگہوں کے لیے مال وقف کرنے میں تعاون کس طرح جائز ہو سکتا ہے۔؟"

منسوخ شدہ کتب مثلاً: تورات انجیل یا گمراہ کن کتب کی طباعت واشاعت کی وصیت کرنا بھی درست نہیں مثلاً: زندیقوں اور ملحدوں کی کتب۔

احکام وصیت میں سے ایک حکم یہ ہے کہ موصیٰ یہ( جس چیز کی وصیت کی گئی ہے) مال کی شکل میں ہو یا اس سے جائز منافع حاصل ہو اگرچہ اس کی سپرد گی سے وہ عاجز ہو مثلاً:فضا میں موجود پرندے کے بارے میں وصیت کرنا یا (جانور کے) پیٹ میں موجود بچے کے بارے میں وصیت یا جانور کے تھنوں میں موجود دودھ کے بارے میں وصیت کرنا یا معدوم چیز کے بارے میں وصیت کرنا مثلاً: کسی نے وصیت کی کہ اس کے جانور کے پیٹ میں جو بچہ ہو گا یا فلاں درخت کا پھل ہمیشہ کے لیے ایک سال کے لیے تمھارا ہوگا۔ اگر معدوم شے سے کچھ حاصل ہوا تو وہ موصیٰ لہ کا ہے ورنہ وصیت باطل قرار پائے گی کیونکہ وصیت نافذ ہونے کا محل موجود نہیں رہا۔

مجہول شے کی وصیت کرنا درست ہے مثلاً کسی نے کسی کو غلام یا بکری دینے کی وصیت کی تو موصیٰ لہ کوکوئی غلام یا بکری مہیا کی جائے گی۔

وصیت کے احکام میں یہ بھی ہے کہ اگر موصیٰ (وصیت کرنے والے )نے تہائی مال کی وصیت کی پھر وصیت کے بعد مزید مال حاصل ہوا تو تہائی میں نیا مال بھی شامل ہو گا کیونکہ تہائی مال سے مراد اس مال کی تہائی ہے جو عند الموت موجود ہے نہ کہ بوقت وصیت ۔

وصیت کا ایک حکم یہ بھی ہے کہ اگر موصیٰ نے کسی شخص کو اپنے مال میں سے کوئی مخصوص شے دینے کی وصیت کی لیکن وہ چیز موصیٰ کی موت سے قبل یا بعد میں ضائع ہو گئی تو وصیت باطل ہو جائے گی کیونکہ وصیت کردہ چیز کے ضائع  ہونے کی وجہ سے موصیٰ لہ کا حق ختم ہو گیا۔

احکام وصیت میں یہ بھی ہے اگر کسی نے وصیت میں مال کی حد مقرر نہ کی اور یوں کہا:" میرے مال کا ایک سہم (حصہ ) فلاں شخص کو دیا جائے توکل ترکہ میں سے چھٹا حصہ مراد ہو گا کیونکہ کلام عرب میں "سہم "سے مراد چھٹا حصہ ہی ہوتا ہے۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سیدنا عبداللہ مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی یہی رائے ہے علاوہ ازیں مرد کے لیے چھٹا حصہ (وراثت کے) فرض حصوں میں سے کم ازکم ہے لہٰذا وصیت میں یہی مراد لیا جائے گا۔ اگر وصیت کرنے والے نے کہا:"فلاں شخص کو کچھ مال دیا جائے لیکن اس کی مقدار متعین نہ کی تو موصیٰ لہ کو اس قدر مال دیا جائے گا۔

جسے عرف میں مال کہا جائے کیونکہ لغت عرب  میں اور شریعت میں شے کی کوئی مقرر حد نہیں لہٰذا موصیٰ لہ کو کم ازکم اس قدر مال دیا جائے گا کہ وہ مالدار ہو جائے ۔ورنہ مقصد حاصل نہ ہوگا۔ واللہ اعلم۔ 

وصی کے احکام

"وصی"یا موصیٰ الیہ"سے مراد وہ شخص ہے جس پر میت نے اپنی وصیت کے نفاذ میں ان امور کی ذمے داری ڈالی ہو جن کو وہ خود اپنی زندگی میں انجام دیتا تھا اور ان میں نیابت بھی ہو سکتی تھی کیونکہ"موصیٰ الیہ" وصیت کے نفاذ میں موصیٰ (وصیت کرنے والے ) کا نائب ہو تا ہے۔

وصیت کرنے والے کی نیابت قبول کرنا "موصیٰ الیہ" کے لیے مستحب ہے اور اجرو ثواب کا باعث ہے لیکن اس ذمے داری کو وہ شخص قبول کرے جس میں وصیت کو نافذ کرنے کی قدرت و طاقت ہو نیز اسے اپنی امانت داری پر اعتماد ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَتَعاوَنوا عَلَى البِرِّ وَالتَّقوىٰ...﴿٢﴾... سورة المائدة

"نیکی اور پرہیز گاری میں ایک دوسرے کی امداد کرو۔[39]

نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے۔

"وَاللَّهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ "

"اللہ تعالیٰ بندے کی مدد کرتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مددمیں مشغول رہتا ہے۔[40]

علاوہ ازیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کی ایک جماعت نے سیدنا زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو اپنی وصیت کے نفاذ میں نائب بنایا تھا اسی طرح سیدنا عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  پر اپنی وصیت کے اجرا کی ذمہ داری ڈالی تھی۔سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اپنی بیٹی سیدہ حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کو وصیت کے نفاذ میں ذمےدار بنایا تھا۔[41]

اور سیدنا حفصہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کے بعد اپنی بڑی اولاد کو اس کا ذمے دار قرار دیا۔

جو شخص موصیٰ کی وصیت پر عمل درآمد نہیں کروا سکتا یا اسے اپنی امانت داری پر اعتماد نہیں اسے یہ ذمے داری ہر گزقبول نہیں کرنی چاہیے۔

وصی کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔ کسی کافر پر ایسی اہم ذمہ داری ڈالنا درست نہیں ہے۔

وصی مکلف ہونا بھی ضروری ہے یعنی وہ عاقل و بالغ ہولہٰذا بچے کم عقل اور پاگل شخص پر  یہ ذمے داری ہر گز نہ ڈالی جائے کیونکہ یہ لوگ مالی معاملات میں ولی بننے اور تصرف کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے ۔البتہ بچے کو "وصی بناتے وقت یہ شرط عائد کردینا کہ وہ وصیت پر عمل عب کروائے جب بالغ ہو جائے تو یہ درست ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تھا۔

"أميركم زيد بن حارثة، فإن قتل فجعفر بن أبى طالب"

"تمھارا امیر زید بن حارثہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ہے اگر وہ شہید ہو جائے تو جعفر بن ابی  طالب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو امیر بنالینا ۔"[42]

عورت کو وصی بنایا جا سکتا ہے بشرطیکہ وہ امور وصیت اور اس کے احکام کو سمجھتی ہو نیز وصیت کو نافذ کر سکتی ہو۔ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے سیدہ حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کو اپنا وصی بنایا تھا۔[43]اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر عورت مرد کی طرح شہادت دے سکتی ہے تو وہ وصی بھی بن سکتی ہے۔

اگر کوئی شخص وصیت پر عمل در آمد کی طاقت نہیں رکھتا لیکن وہ فکر سلیم اور عقل و دانش کا مالک ہے تو اسے وصی بنایا جا سکتا ہے البتہ بطور معاون اس کے ساتھ ایسا شخص مقرر کیا جائے جو وصیت کے نفاذ کی قدرت رکھتا ہو اور امانت دار ہو۔

وصی ایک سے زیادہ افراد بھی ہو سکتے ہیں۔ انھیں یکبارگی وصی مقرر کیا گیا ہو یا ایک ایک کر کے جبکہ پہلے کو معزول بھی نہ کیا ہو۔

اگر ایک سے زیادہ افراد کو وصی مقرر کیا گیا ہو تو نفاذ وصیت کے عمل میں سبھی شریک ہوں گے۔ ان میں کوئی بھی دوسرے کے بغیر مال میں تصرف نہ کرے۔ اگر ایک کہیں غائب ہو گیا تو حاکم کو چاہیے کہ اس کی جگہ کسی اور کو مقرر کر دے جو امور وصیت کو اچھی طرح نبھا سکے۔

وصی(جس کو وصیت کی گئی)موصی (وصیت کرنے والا) کی وصیت کو اس کی زندگی میں یا اس کی موت کے بعد قبول کر سکتا ہے نیز وہ موصی کی زندگی میں یا اس کی موت کے بعد (جب چاہے)اس ذمے داری سے الگ ہو سکتا ہے۔ اسی طرح موصی وصی کو جب بھی چاہے وصیت کی ذمے داری سے معزول کر سکتا ہے کیونکہ اس کی حیثیت ایک وکیل کی سی ہوتی ہے۔

وصی کسی دوسرے شخص کو وصی نہیں بنا سکتا الایہ کہ موصی نے اسے اجازت دی ہو۔ مثلاً:موصی وصی کو کہے :"میں تمھیں اجازت دیتا ہوں کہ تم جسے چاہو وصی بنالو۔"

جب کسی پر مالی وصیت کے نفاذ کی ذمے داری ڈالی  جائے تو وہ مال واضح اور متعین ہونا چاہیے تاکہ وصی اس کی اچھی طرح حفاظت و نگرانی اور اس میں تصرف کر سکے۔

جس کام کی وصیت کی گئی ہے وہ ایسا ہونا چاہیے جو موصی کے لیے کرنا جائز ہو۔ مثلاً: موصی کے قرض کی ادائیگی کرنا تہائی مال کا تقسیم کرنا یا موصی کے بچوں کی نگہداشت کرنا وغیرہ ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وصی بغیر اجازت شے میں تصرف کا مجاز نہیں۔ لہٰذا موصی جس مال کا مالک نہیں اس میں وصی کے لیے تصرف جائز نہیں جیسے وکالت میں ہو تا ہے۔نیز موصی اصل ہے اور وصی اس کی فرع اور نائب ۔ جس کام کا اصل شخص کو اختیار نہیں اس کے نائب کو بھی اس کا اختیار نہیں سکتا ۔ مثلاً:کسی عورت کا اپنے چھوٹے بچوں کی نگہداشت کے لیے ان کے باپ کی موجودگی میں کسی کو وصی بنانا جائز نہیں کیونکہ بچوں کی سر پرستی ان کے باپ کے علاوہ اور کسی شخص پر نہیں ہوتی۔

جس چیز کی وصیت میں کسی کو وصی مقرر کیا جائے اس کی ذمے داری صرف اسی چیز تک محدود ہے۔ موصی پر دوسری چیزوں کی ذمے داری نہ ہو گی۔مثلاً: کسی نے اپنے قرضوں کی ادائیگی میں ایک شخص کو وصی مقرر کیا تو وہ موصی کی اولاد کے امور میں وصی نہ ہو گا کیونکہ وہ ایک ایسا وکیل ہے جس کے اختیارات محدود ہوتے ہیں یعنی جن میں اجازت حاصل ہے صرف انھیں ہی نبھائے گا۔

کافر کسی مسلمان شخص کو اپنا وصی بنا سکتا ہے بشرطیکہ اس کا ترکہ مباح ہو۔ اگر غیر مباح یعنی شراب یا خنزیر وغیرہ حرام اشیاء پر اسے وصی بنایا گیا تو درست نہیں بلکہ اسے انکار کر دینا چاہیے کیونکہ ایسی ذمے داری قبول کرنا مسلمان کے لیے شرعاً جائز نہیں۔

اگر موصی نے اپنے وصی سے کہا کہ میرے ترکہ کا ایک تہائی حصہ جہاں چاہو خرچ کر دینا تو وصی کے لیے جائز نہیں کہ اس میں سے کچھ اپنے لیے رکھ لے کیونکہ اس کی اسے اجازت نہیں دی گئی نیز یہ بھی جائز نہیں کہ وہ مال اپنی اولاد پر اپنے ورثاء کو دے کیونکہ ممکن ہے عام لوگ اس پر شک کریں کہ اس نے وصیت کے خلاف ذاتی مفاد حاصل کیا ہے۔احکام وصیت میں سے ایک حکم یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی جنگل میں فوت ہو جائے جہاں کوئی حاکم نہ ہو اور نہ کوئی وصی مقرر کیا گیا ہو تو جو مسلمان بھی مرنے والے کے پاس ہو وہ اس کے ترکہ کی تقسیم کا ذمے دار بن جائے اور وہ کام کرے جو اس کے لیے مفید ہو۔ مثلاً:بیع وغیرہ اس لیے کہ اس کی ضرورت ہے وگرنہ مال ترکہ ضائع ہو جائے گا اور مال ترکہ کی حفاظت فرض کفایہ ہے۔

اور اسی ترکہ سے میت کی تجہیز وتکفین کرے۔

احکام وراثت

وراثت کا موضوع نہایت اہم اور قابل اعتناء ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بہت سی احادیث میں اس علم کو سیکھنے اور سکھانے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"تَعَلَّمُوا الْفَرَائِضَ وَعَلِّمُوهَا فَإِنَّهُ نِصْفُ الْعِلْمِ، وَهُوَ يُنْسَى، وَهُوَ أَوَّلُ شَيْءٍ يُنْزَعُ مِنْ أُمَّتِي" 

 "علم فرائض سیکھو اور اسے (لوگوں کو) سکھاؤ کیونکہ یہ نصف علم ہے اور اسے بھلا دیا جائے گا۔ اور علم میں سے یہی وہ پہلی شے ہو گی جسے میری امت سے اٹھا لیا جائے گا۔"[44]

ایک روایت میں ہے:

"فَإِنِّي امْرُؤٌ مَقْبُوضٌ وَالْعِلْمُ سَيُقْبَضُ وَتَظْهَرُ الْفِتَنُ حَتَّى يَخْتَلِفَ اثْنَانِ فِي فَرِيضَةٍ لَا يَجِدَانِ أَحَدًا يَفْصِلُ بَيْنَهُمَا"

"میں ایسا انسان ہوں جس کی روح قبض کرلی جائے گی اور بے شک علم اٹھالیا جائے گا۔فتنے ظاہر ہوں گے حتی کہ دو آدمی مسئلہ وراثت میں اختلاف کریں گے۔ لیکن کوئی فیصلہ کرنے والا نہ پائیں گے۔[45]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے جیسے فرمایا تھا اب ویسی ہی صورت حال نظر آرہی ہے۔ علم میراث نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اکثر لوگ اسے بھول چکے ہیں ۔آج مساجد و مدارس میں شاذ ونادر ہی اسے پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے۔اگر کہیں پڑھایا بھی جاتا ہے تو ایسے ناقص اور سرسری انداز میں کہ حقیقی مقصد نہیں ہو رہا اور نہ اس سے اس کی بقا کا یقین حاصل ہوتا ہے۔

مسلمانوں کا فرض ہے کہ اس علم کو زندہ کرنے کے لیے کمر بستہ ہوں اور اس کے محافظ بنیں ۔ مساجد و مدارس اور جامعات میں اس کی تعلیم کا اہتمام کریں کیونکہ لوگوں کو اس علم کی اشدضرورت ہے۔ خصوصاً اہل علم پر اس کی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"الْعِلْمُ ثَلَاثَةٌ ، وَمَا سِوَى ذَلِكَ فَهُوَ فَضْلٌ : آيَةٌ مُحْكَمَةٌ ، أَوْ سُنَّةٌ قَائِمَةٌ ، أَوْ فَرِيضَةٌ عَادِلَةٌ "

"(بنیادی)علم تین ہیں ان کے سوا سب علوم ایک زائد فضیلت کا باعث ہیں:" محکم آیات کا علم سنت صحیحہ ثابتہ کا علم یا علم الفرائض جس کی بنیاد عدل و انصاف پر ہے۔[46]

سیدنا عمر بن خطاب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا قول ہے:

"تَعَلَّمُوا الْفَرَائِضَ فَإِنَّهَا مِنْ دِينِكُمْ"

"علم فرائض سیکھو کیونکہ یہ تمھارے دین کا حصہ ہے۔"[47]

سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا فرمان ہے:

"مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ، فَلْيَتَعَلَّمْ الْفَرَائِضَ"

"جو شخص قرآن مجید کا علم حاصل کرے وہ فرائض کا علم بھی سیکھے۔"[48]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ارشاد گرامی :"علم فرائض نصف علم ہے۔"کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کی دوحالتیں ہیں ایک حالت حیات اور دوسری حالت موت علم فرائض کا تعلق موت کے بعد کے احکام سے ہے جبکہ بقیہ علوم حیات سے متعلق ہیں۔ بعض علماء نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ تمام لوگوں کو اس علم سے واسطہ پڑتا ہے یعنی لوگ تقسیم ترکہ میں علم فرائض کے زیادہ محتاج ہیں۔ اسی طرح بعض علماء نے اس کے اور بھی مطالب بیان کیے ہیں۔ الغرض مقصد یہ ہے کہ اس علم کی تعلیم و تدریس میں اہتمام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

اس علم کو علم الفرائض کہا جاتا ہے۔فرائض فریضہ کی جمع ہے جو فرض سے ماخوذ ہے۔ فرض کے لغوی معنی مقرر کرنے کے ہیں اس لیے کہ اس علم میں ورثاء کے حصے مقرر شدہ ہوتے ہیں۔فریضۃ وہ مقرر حصہ ہے۔جو شریعت نے مستحق شخص کے لیے مقرر کیا ہے۔

علم فرائض کی تعریف یوں کی جاتی ہے۔"فقہ و حساب سے متعلق ان اصولوں کو جاننا جن کے ذریعے سے ترکہ میں سے وارثوں کے حصے معلوم ہوں۔"

میت کے ترکہ سے متعلق چار[49] حقوق ہیں۔

1۔تجہیز و تکفین : سب سے پہلے میت کے ترکہ میں سے کفن سے لے کر دفن تک تمام اخراجات ادا ہوں گے۔

2۔ادائیگی قرض: پھر مطلق قرض ادا ہوں گے۔ وہ قرض اللہ تعالیٰ کا ہو مثلاً: زکاۃ کفارات نذر اور حج واجب یا کسی انسان کا حق ہو۔

3۔ اجرائے وصیت: پھر میت کے مال میں سے زیادہ سے زیادہ ایک تہائی (3/1)سے وصیتیں پوری کی جائیں گی۔

4۔تقسیم ترکہ مذکورہ حقوق ادا کرنے کے بعد جو مال بچے گا اسے کتاب وسنت کے مطابق ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا۔ ترکہ کی تقسیم اصحاب الفروض سے شروع ہوگی پھر اگر مال باقی بچ گیا تو وہ عصبات (ورثاء) کو ملے گا جن کی تفصیل آگے آئے گی۔

شریعت کے وضع کردہ احکام میراث میں کسی قسم کا تغیر جائز نہیں ان میں تغیر کرنا اللہ عزوجل کے ساتھ کفر کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿تِلكَ حُدودُ اللَّهِ وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسولَهُ يُدخِلهُ جَنّـٰتٍ تَجرى مِن تَحتِهَا الأَنهـٰرُ خـٰلِدينَ فيها وَذ‌ٰلِكَ الفَوزُ العَظيمُ ﴿١٣ وَمَن يَعصِ اللَّهَ وَرَسولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدودَهُ يُدخِلهُ نارًا خـٰلِدًا فيها وَلَهُ عَذابٌ مُهينٌ ﴿١٤﴾... سورة النساء

"یہ حدیں اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی فرمانبرداری کرے گا اسے اللہ تعالیٰ جنتوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وه ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے (13) اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی نافرمانی کرے اور اس کی مقرره حدوں سے آگے نکلے اسے وه جہنم میں ڈال دے گا جس میں وه ہمیشہ رہے گا، ایسوں ہی کے لئے رسوا کن عذاب ہے"[50]

امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ  اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں:" اللہ کے فرمان "تِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ"میں سابقہ احکام میراث کی طرف اشارہ ہے اور انھی کو حدود اللہ کہا ہے کیونکہ حد تجاوز کرنا درست نہیں ہوتا۔ اور"وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ "میں میراث کی تقسیم کی طرف اور شرعی احکام کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ آیت کے الفاظ"يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ"کا عموم بھی اسی پر دال ہے۔ سنن ابن ماجہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"من قطع ميراث وارثه؛ قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة"  "جس نے کسی وارث کو اس میراث سے محروم کیا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے روزاسے جنت کی میراث سے محروم کردے گا۔"[51]

شرعی احکام میراث میں تصرف وتغیر کی صورت یہ ہے کہ غیر وارث کو وارث قراردینایا کسی وارث کو اس کے تمام حصے سے یا کچھ حصے سے محروم کر دینا یا مرد اور عورت کا حصہ میراث برابر کو دینا جیسا کہ بعض کفر یہ قوانین میں موجود ہے جو سراسر اللہ تعالیٰ کے حکم:"مرد کے لیے دو عورتوں کے برابر حصہ ہے۔"کے مخالف ہے۔ ایسی ترامیم کرنے والا شخص کافر ہے اور وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنمی ہے الایہ کہ وہ موت سے قبل توبہ کرلے۔

دور جاہلیت میں لوگ عورتوں اور بچوں کو حق میراث سے محروم رکھتے تھے اور ان بالغ مردوں کو حق دار سمجھتے تھے جو گھوڑے پر سوار ہونے کے قابل ہوں اور اسلحہ اٹھا(کر جنگ  کر) سکتے ہوں۔اسلام نے اس قانون کو باطل قراردیا اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿لِلرِّجالِ نَصيبٌ مِمّا تَرَكَ الو‌ٰلِدانِ وَالأَقرَبونَ وَلِلنِّساءِ نَصيبٌ مِمّا تَرَكَ الو‌ٰلِدانِ وَالأَقرَبونَ مِمّا قَلَّ مِنهُ أَو كَثُرَ نَصيبًا مَفروضًا ﴿٧﴾... سورة النساء

 ("ماں باپ اور قرابت داروں کے ترکہ میں مردوں کا حصہ بھی ہے اور عورتوں کا بھی جو مال ماں باپ اور قرابت دار چھوڑ کر مریں خواہ مال کم ہو یا زیادہ (اس میں)حصہ مقرر کیا ہوا ہے۔"[52]

اس آیت میں عورتوں اور بچوں کو میراث نہ دینے کا قانون جاہلیت ختم کر دیا گیا۔ اور اللہ تعالیٰ کے فرمان :

﴿يوصيكُمُ اللَّهُ فى أَولـٰدِكُم...﴿١١﴾... سورة النساء

"اللہ تمھیں تمھاری اولاد کے بارے میں تاکیدی حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے۔"[53]

اور فرمان الٰہی :

﴿ وَإِن كانوا إِخوَةً رِجالًا وَنِساءً فَلِلذَّكَرِ مِثلُ حَظِّ الأُنثَيَينِ... ﴿١٧٦... سورة النساء

"اور اگر کئی بھائی بہن ،یعنی مرد بھی اور عورتیں بھی ہوں تو مرد کے لیے دو عورتوں کے مثل حصہ ہے۔[54]

میں جدید جاہلی دعووں کو باطل قراردیا گیا ہے جن میں عورت کو مرد کے برابر میراث دے کر اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی مخالفت اور حدود اللہ سے تجاوز کیا گیا ہے۔

واضح رہے قدیم جاہلیت کے قانون میں عورتیں حق میراث سے محروم ہوتی تھیں جبکہ جدید جاہلیت کے قانون میں عورتوں کو ان کے جائز حق سے زیادہ دے دیا گیا ہے۔ حالانکہ دین اسلام نے عورت سے عدل و انصاف کیا ہے۔ اور اسے یہ مقام عزت بخشا کہ اسے جائز حق دیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کفار و منافقین اور ملحدین کو تباہ و برباد کرے جن کے عزائم وارادے اللہ تعالیٰ نے یوں بیان کیے ہیں۔

﴿يُريدونَ لِيُطفِـٔوا نورَ اللَّهِ بِأَفو‌ٰهِهِم وَاللَّهُ مُتِمُّ نورِهِ وَلَو كَرِهَ الكـٰفِرونَ ﴿٨﴾... سورة الصف

"وہ (کافر) چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ سے بجھا دیں اور اللہ انکاری ہے مگر اسی بات کا کہ اپنا نور پورا کرے گا کافر ناخوش رہیں۔[55]


[1] ۔المنفقون:63۔10۔11۔

[2] ۔صحیح البخاری الوصایا باب الصدقہ عند الموت حدیث 2748وصحیح مسلم۔ الزکاۃ باب بیان ان افضل الصدقۃ الصحیح الشیخ حدیث 1032۔

[3] ۔سنن ابن ماجہ الوصایا باب الوصیۃ بالثک حدیث 2709ومسند احمد 6/441440۔وسنن الدارقطنی 4/149حدیث 4245بلفظ ۔"زِيَادَةً فِي حَسَنَاتِكُمْ ، لِيَجْعَلَهَا لَكُمْ زَكَاةً فِي أَعْمَالِكُمْ"

[4] ۔البقرۃ:2/180۔

[5] ۔النساء:4/11۔

[6] ۔(ضعیف )سنن ابن ماجہ الوصایا باب الوصیہ بالثک حدیث 2709۔وسنن الدارقطنی 4/149حدیث 4245۔

[7] ۔صحیح البخاری الوصایا باب الوصایا حدیث 2738وصحیح مسلم الوصیہ باب وصیہ الرجل مکتوبۃ عندہ حدیث:1627۔

[8] ۔الانفال: 8/41۔

[9]۔(ضعیف) السنن الکبری للبیہقی 6/270۔ وارواء الغلیل 6/85حدیث 1649۔

[10] ۔(ضعیف) السنن الکبری للبیہقی 6/270۔وارواء الغلیل 6/85حدیث 1650۔

[11] ۔سنن ابی داؤد الوصایا باب ماجاءفی الوصیہ للوارث 2870،وجامع الترمذی الوصایا باب ماجاءفی الاوصیہ لوارث ۔حدیث 2120۔ومسند احمد 4/186۔187۔

[12] ۔صحیح البخاری الجنائز باب رثاء النبی  صلی اللہ علیہ وسلم  سعد بن خولہ حدیث 1295۔ السنن الکبری للبیہقی :6/269۔ 

[13] ۔ منہاج السنہ النبویہ 2/160۔

[14] المجموع للنووی 16/374۔

[15] ۔البقرۃ:2/180۔

[16] ۔صحیح البخاری الجنائز باب رثاء النبی  صلی اللہ علیہ وسلم  سعد بن خولہ حدیث 1295۔

[17] ۔المغنی والشرح الکبیر 6۔447۔

[18] ۔تفسیر ابن کثیر1/180۔البقرۃ:2/180۔

[19] ۔النساء:4/12۔

[20] ۔(ضعیف)سنن ابی داؤد الوصایا باب ماجاءفی کراھیۃالاضرارفی الوصیہ حدیث2867وجامع الترمذی الوصایا باب ماجاءفی الضرر فی الوصیۃ حدیث 2117واللفظ لہ وسنن ابن ماجہ الوصایا باب الحیففی الوصیہ حدیث2754۔ومسند احمد 2/278۔

[21] ۔ السنن الکبری للنسائی:6/320۔

[22] ۔تفسیر فتح القدیر:1/487۔

[23] ۔۔صحیح البخاری الجنائز باب رثاء النبی  صلی اللہ علیہ وسلم  سعد بن خولہ حدیث 1295۔

[24] اعلام الموقعین:4/35۔

[25] ۔المغنی والشرح الکبیر:6/460۔473۔

[26] ۔سنن الدارمی الوصایا باب الرجوع الوصیۃ حدیث 32123211۔والتلخیص

الجیر 3/96حدیث :1380۔

[27] ۔النساء:4/11۔

[28] ۔صحیح البخاری الوصایا باب "مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَىٰ بِهَا أَوْ دَيْنٍ"  قبل حدیث 2750۔وجامع الترمذی الوصایا باب ماجاء یدا یالدین قبل الوصیۃ حدیث 2122 ومسند احمد۔1/79۔131۔

[29] ۔صحیح البخاری جزاء الصید باب الحج والنذور عن المیت۔حدیث۔1852۔

[30] ۔البقرۃ:12۔18۔

[31] ۔تفسیر فتح القدیر1/195۔

[32] ۔الاحزاب:33۔6۔

[33] ۔تفسیر الطبری :21/124۔

[34] ۔ صحیح مسلم اللباس والزینہ باب تحریم لیس الحریر وغیر ذلک للرجا ل حدیث 2068۔

[35]۔ صحیح البخاری الھیۃ وفضلہا باب الھدیہ للمشرکین حدیث 2620۔

[36] سنن الدارمی الوصایا باب  الوصیۃ حدیث الاھل الذمۃ حدیث 3299۔والتلخیص الجیر 3/93حدیث :1380۔ 

[37] الممتحنہ:60۔8۔

[38] ۔یہ مسئلہ محل نظر ہے۔

[39] ۔المائدۃ5۔2۔

[40] ۔صحیح مسلم الذکر والدعاء باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن وعلی الذکر حدیث2699۔

[41] ۔سنن الدارمی الوصایا باب الوصیۃ للنساء حدیث 3298۔

[42] ۔الشہید لا بن عبدالبر:8/388۔

[43] ۔سنن الدارمی الوصایا باب الوصیہ للنساء حدیث 3298۔

[44]۔(ضعیف)سنن ابن ماجہ الفرائض باب الحث علی تعلیم الفرائض حدیث2719۔وسنن الدارقطنی۔4/66حدیث4014۔

[45]۔(ضعیف) جامع الترمذی الفرائض باب ماجاء فی تعلیم الفرائض حدیث 2091وسنن الدارمی المقدمۃ باب الاقتداء بالعلماء حدیث 227 واللفظ لہ۔

[46] ۔(ضعیف) سنن ابی داؤدالفرائض باب ماجاء تعلیم الفرائض 2885 وسنن ابن ماجہ السنۃ (المقدمۃ) باب اجتناب الری والقیاس  حدیث54۔

[47] ۔السنن الکبری اللبیہقی 6/209۔

[48] ۔السنن الکبری اللبیہقی 5/209۔

[49] ۔اصل کتاب میں پانچ لا لفظ ہے اور یہ تصحیح علم وراثت کی معتبر کتاب السراجی اور فقہ المواریث سے کی ہے۔

[50] ۔النساء:4۔13۔14۔

[51] ۔تفسیر فتح القدیر النساء 4/13۔14۔واللفظ لہ و سنن ابن ماجہ بلفظ "مَنْ فَرَّ مِنْ مِيرَاثِ ...."الوصایا باب الحیف فی الوصیۃ حدیث 2703۔ (یہ روایت ضعیف ہے)

[52] ۔النساء:4۔7۔

[53] ۔النساء:4/11۔

[54] النساء:4۔176۔

[55] ۔التوبہ:9/32۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

قرآن وحدیث کی روشنی میں فقہی احکام و مسائل

وراثت کے مسائل:جلد 02: صفحہ 168

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ