امانتوں کے احکام
امانت اس شے کو کہتے ہیں جو کسی کے پاس رکھی جائے اور وہ اس کی بلامعاوضہ حفاظت کرے،نیز مالک جب چاہے اسے واپس لے سکے۔
مال کی حفاظت کرنے میں امانت دار کی حیثیت ایک وکیل کی سی ہوتی ہے،اس لیے اس کا عاقل وبالغ اور سمجھ دار ہونا ضروری ہے۔
امانت کی حفاظت کی ذمے داری وہی شخص قبول کرے جسے اپنے بارے میں یقین اور اعتماد ہو کہ اس کی حفاظت کرسکے گا۔واضح رہے یہ انتہائی درجے کا ثواب کا کام ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"اللہ تعالیٰ بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرنے میں مصروف رہتا ہے۔"[1]
نیز یہ لوگوں کی حاجت اور ضرورت بھی ہے جس شخص کو اپنے بارے میں علم ہو کہ وہ امانت کی حفاظت کرنے کی قدرت نہیں رکھتا ایسے ایسی ذمے داری ہرگز قبول نہیں کرنی چاہیے۔
1۔امانت کے ضائع ہونے کی صورت میں مودع(جس کے پاس امانت رکھی گئی ہے) ضامن نہیں ہوگا بشرط یہ کہ اس نے ذمے داری میں کوتاہی نہ کی ہو۔یہ ایسے ہی ہے جیسے اس کا ا پنا مال ضائع ہوجائے،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"امانت جس کے حوالے کی گئی اس پر ضمان نہیں۔"[2]
ایک روایت میں ہے:
"امین پر(امانت ضائع ہونے کی) ذمے داری نہیں۔"[3]
ایک اور روایت میں ہے:
"خیانت نہ کرنے والے امین پر تاوان نہیں۔[4]
اس میں حکمت یہ ہے کہ امانت دار شخص اجروثواب کی خاطر امانت کی حفاظت کرتا ہے۔اگر بلاوجہ اس پر امانت کے ضیاع کا تاوان ڈال دیا جائے تولوگ اس ذمے داری کو قبول کرنے میں پس وپیش کریں گے جس سے کئی لوگوں کا نقصان ہوگا،نیز فوائد کے حصول کے لیے یہ باعث رکاوٹ ہے۔
اگرامانت دار نے امانت کے تحفظ میں کوتاہی سے کام لیا تو تاوان اس پر ڈالا جائے گا کیونکہ اس نے اپنی غلطی سے کسی کا مال ضائع کیا ہے۔
امانت دار کو چاہیے۔کہ امانت کو کسی محفوظ جگہ میں اس طرح سنبھال کر رکھے جس طرح وہ اپنا مال رکھتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے(عندالطلب) ادا کرنے کا حکم دیا ہے،چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:
"اللہ تمھیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انھیں پہنچاؤ۔"[5]
ظاہر بات ہے کہ امانت کی صحیح صحیح ادائیگی تبھی ممکن ہے جب اسے سنبھال کررکھا جائے گا۔علاوہ ازیں جب امانت دار نے ایک امانت کو رکھنا قبول کرلیا تو اس پر لازم ہے کہ اس کی حفاظت میں پورا پورا التزام واہتمام کرے۔
2۔اگرامانت جانور کی صورت میں ہے تو امانت دار پر لازم ہے کہ اسے چارہ وغیرہ ڈالے۔اگر اس نے اسے چارہ وغیرہ نہ ڈالا حتیٰ کہ وہ جانور مر گیا یا بیمار پڑ گیا تو وہ ضامن ہوگا کیونکہ(مالک کاحکم ہو یا نہ ہو) جانور کو چارہ ڈالنا اس کی ذمے داری میں شامل تھا،لہذا وہ نہ صرف ضامن ہوگا بلکہ اسے کھلانے پلانے میں کوتاہی کرنے کی وجہ سے عنداللہ گناہ گار بھی ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جانور کا اس پر حق تھا۔
3۔امانت دار کسی کی امانت کو(عادت معمول کےمطابق) آگے کسی ایسے شخص کے پاس حفاظت کے لیے رکھ سکتا ہے جس کے پاس امانت رکھنے کا اس کا عام معمول ہے،مثلاً:اس کی اپنی بیوی،غلام،خزانچی یا خادم۔اگر ان مذکورہ اشخاص میں سے کسی کے ہاں امانت ضائع ہوگئی تو وہ ضامن نہ ہوگا بشرط یہ کہ یہ نقصان اس کی کوتاہی اور سستی سے نہ ہوا ہوکیونکہ اس کے لیے جائز ہے کہ وہ خود مال کی حفاظت کرے یا کسی اور پر ذمے داری ڈال دے جیسا کہ عموماً ہوتا ہے۔
4۔اگراس نے کسی کی امانت کسی اجنبی شخص کے حوالے کردی جو اس سے ضائع ہوگئی تو پہلا امانت دار ادائیگی کا ضامن ہوگا کیونکہ بلاوجہ اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا،البتہ اگر امانت کواجنبی شخص کے حوالے کیے بغیر چارہ نہ ہو،مثلاً:کسی کا وقت موت آگیا یا اس نے سفرکا ارادہ کرلیا اور وہ امانت اپنے ساتھ لے جانا نہیں چاہتا تو اس میں کوئی حرج نہیں۔تلف ہونے کی صورت میں وہ ضامن نہ ہوگا۔
5۔اگر کوئی خوف ہو یا کوئی امانت دار سفر پر روانہ ہونا چاہتا ہوتو اسے چاہیے کہ اسے مالک یا وکیل کے حوالے کر جائے وگرنہ اپنے ساتھ لے جائے بشرط یہ کہ کوئی خطرہ نہ ہواگر سفر میں امانت کےضائع ہونے کاخطرہ ہوتو حاکم کے حوالے کر جائے۔اگر دیانت دار اور امین حاکم میسر نہ ہوتو کسی بااعتماد ،ثقہ شخص کے حوالے کردے جو اصل مالک تک پہنچادے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے موقع پر لوگوں کی امانتیں ام ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حوالے کردی تھیں۔اور سیدناعلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا تھا کہ ان کے مالکوں کے حوالے کردے۔[6]
6۔اس طرح جس کو موت آجائے اوراس کے پاس لوگوں کی امانتیں ہوں تو اس پر واجب ہے کہ ان کے مالکوں کو واپس کرے اگر مالک نہ مل رہے ہوں توحاکم کے پاس یا جس پر اس کواعتماد ہواس کے پاس رکھ دے۔
7۔اگرکسی نے امانت کی حفاظت میں کوتاہی یا تعدی سے کام لیا جس کے نتیجے میں امانت ضائع ہوگئی تو امین شخص پر ضمان لازم ہے،مثلاً:کسی نےجانور بطور امانت اپنے ہاں رکھ لیا اور اس پر چارہ کھلانے اور پانی پلانے کے علاوہ کے لیے سواری کی یا امانت کے طور پررکھا ہواکپڑا خرابی سے بچانے کے علاوہ کے لیے پہن لیا یا دراہم جو تھیلی میں محفوظ تھے انھیں باہر نکال لیا یا تھیلی کا تسمہ کھول لیا۔ان احوال میں اگرامانت ضائع ہوگئی تو ہو ضامن ہوگا کیونکہ اس نقصان میں اس کی تعدی کو دخل ہے۔
8۔امانت داردعویٰکرے کہ اس نے امانت اس کے مالک یا اسکے قائم مقام کو لوٹادی ہے یا امانت دار دعویٰ کرے کہ اس کے ہاں جو امانت تھی اس کےضائع ہونے میں اس کی کوتاہی نہ تھی تو دونوں صورتوں میں امانت دارکی بات کااعتبار قسم کے ساتھ ہوگا کیونکہ وہ امین ہے۔اور جو کچھ اس کے پاس تھا وہ اللہ تعالیٰ کےفرمان:
"اللہ تمھیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انھیں پہنچاؤ۔"[7]
كے مطابق "امانت" تھی نیز اصل یہ ہے کہ کسی انسان کو سچا ہی سمجھاجاتا ہے الا یہ کہ اس کے جھوٹا ہونے کی دلیل مل جائے۔
اسی طرح اگرامانت دار نے دعویٰ کیا کہ"امانت" آگ لگنے سے یا کسی اور حادثے میں ضائع ہوگئی ہے تو اس کی بات تب قبول ہوگی جب وہ اس حادثے کے واقعہ کے گواہ پیش کرے گا۔
9۔ صاحب مال جب بھی امانت دار سے اپنی امانت کی واپسی کا مطالبہ کرے تو اسے فوراً ادا کردی جائے۔اگر اس نے ٹال مٹول کی اورامانت رکھی ہوئی چیز ضائع ہوگئی تو امانت دارضامن ہوگا کیونکہ اس نے بوقت مطالبہ ادا نہ کرک حرام کام کاارتکاب کیاہے۔واللہ اعلم۔
[1]۔صحیح مسلم الذکر والدعاء باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن وعلی الذکر حدیث 2699،ومسند احمد 2/296۔
[2]۔(ضعیف) سنن ابن ماجہ الصدقات باب الودیعۃ حدیث 2401۔
[3]۔(ضعیف)(سنن الدارقطنی 3/40 حدیث 2938۔
[4]۔(ضعیف) سنن الدارقطنی 3/40حدیث 2939۔
[5]۔النساء:4/58۔
[6]۔المغنی والشرح الکبیر 7/280۔
[7]۔النساء:4/58۔