مزارعت اور مساقات کے احکام
مساقات اور مزارعت ان کاموں میں سے ہے جو لوگوں میں زمانہ قدیم سے جاری و ساری ہیں۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص کچھ درختوں کا مالک ہوتا ہے لیکن ان کا پھل لینے کے لیے ان کی مناسب دیکھ بھال اور محنت نہیں کر سکتا یا کسی کے پاس زرعی زمین ہوتی ہے لیکن اس سے پیداوار حاصل کرنے کے لیے کماحقہ محنت اور رکھوالی نہیں کر سکتا جبکہ کسی دوسرے شخص کی ملکیت میں نہ درخت ہوتے ہیں اور نہ زمین کا کوئی ٹکڑا ، البتہ اگر اسے درخت یا زمین مہیا ہو جائے تو اس محنت کر کے ان کا پھل یا زمین سے پیداوار حاصل کر سکتا ہے۔
اس صورت حال کے پیش نظر شریعت نے فریقین کو مزارعت اور مساقات کی اجازت دے دی کیونکہ اس میں دونوں کی مصلحت اور فائدہ ہے نیز نقصان سے بچاؤ ہے۔ درحقیقت شریعت کے ہر حکم کی بنیاد عدل و انصاف اور مصلحت کے حصول اور نقصان سے بچاؤ پر ہے۔
فقہاء نے مساقات کی یوں تعریف کی ہے۔"کسی کام کرنے والے کو پھلدار درختوں کا قبضہ دینا اور اسے کہنا کہ ان کی دیکھ بھال کر پانی لگا حتی کہ یہ پھل دینے لگیں تو اس کی آمدنی میں سے اتنا حصہ تیرا اور باقی مالک کا ہوگا۔"
ایک شخص اپنی زمین دوسرے کو دیتا ہے کہ وہ اس میں کاشت کرے یا زمین اور بیج دونوں کاشت کرنے والے کو دے تاکہ وہ اس زمین میں بیج ڈالے اور اس کی نگرانی کرے تو آمدن میں سے ایک (غیر مخصوص ) حصے کا وہ مستحق ہو گا باقی آمدن مالک کی ہوگی۔یہ "مزارعت" کے نام سے معروف ہے۔
مساقات و مزارعت کے جواز کی دلیل سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے۔
"بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل خیبر سے طے کیا تھا کہ جو پھل اور غلہ ان کی زمینوں اور باغات سے حاصل ہوگا۔ نصف نصف تقسیم کیا جائے گا۔"[1]
صحیح مسلم میں ہے۔
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی کھجوروں کے درخت اور زمین یہودیوں کے حوالے کر کے نصف حصہ بٹائی پر معاملہ طے کرلیا۔"[2]
اس مضمون کی ایک روایت امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی مسند میں بیان کی ہے۔[3]
امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:"خیبر کا قصہ مساقات اور مزارعت کے جواز پر دلیل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک یہ معاہدہ قائم رہا منسوخ نہیں ہوا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین کا اس پر تعامل رہا۔ اس معاہدے کی بنیاد اجرت پر نہ تھی بلکہ اس کا تعلق مشارکت سے تھا اور مضاربت کے مثل معاملہ تھا۔[4]
ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"اسی پر خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اپنی اپنی خلافت میں عمل کیا اور کسی سے اس کا انکار بھی ثابت نہیں"[5]تو یہ اجماع ہے۔
نیز امام موصوف فرماتے ہیں:"جو بات حدیث اور اجماع کے مخالف ہو اس پر اعتماد نہیں ہو سکتا ۔ کھجور یا دیگر درختوں کے اکثر مالکان ان کو پانی دینے سے قاصر ہوتے ہیں اور نہ کسی کو اجرت پر رکھ سکتے ہیں۔ اور بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں کہ ان کے پاس درخت نہیں لیکن وہ پھل کے ضرورت مند ہوتے ہیں تو اس مزارعت کی مشروعت میں دونوں کی ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں اور دونوں فریقوں کو فائدہ ہو جاتا ہے۔"[6]
فقہائے کرام نے مساقات کی درستی کے لیے لازم قراردیا ہے کہ وہ درخت پھل داروں نیز ان کا پھل کھانے کے قابل ہو لہٰذا جو درخت پھلدار نہ ہو یا اس کا پھل کھایا نہ جاتا ہو۔ اس میں عقد مساقات درست نہیں کیونکہ اس پر کوئی شرعی نص نہیں۔
مالک یا عامل کو پھل کا جو حصہ دیا جائے وہ طے شدہ اور معلوم ہو اگرچہ وہ کم ہو یا زیادہ مثلاً تہائی یا چوتھائی وغیرہاگر دونوں نے یہ شرط عائد کی کہ سارا پھل صرف ایک فریق کو ملے گا دوسرے کو نہیں تو یہ معاہدہ ناجائز ہےکیونکہ اس میں ایک فریق کو غلہ کے ساتھ خاص کر دیا گیا ہے ۔اگر عامل یا مالک کو مخصوص صاع (مثلاً: دس یا بیس صاع) دینے کا معاہدہ ہو تو بھی جائز نہیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ سارا پھل اتنی ہی مقدار میں ہو۔اسی طرح اگر مساقات میں عامل کے لیے متعین دراہم مقرر کیے گئے تو یہ بھی جائز نہیں کیونکہ ہو سکتا ہے غلےکی مقدار مقررہ دراہم کےمساوی نہ ہو۔ اسی طرح کسی فریق کے لیے ایک یا زیادہ مخصوص درختوں کا پھل ملنے کی شرط لگائی گئی تو مساقات درست نہیں کیونکہ ہو سکتا ہے ان درختوں پر پھل ہی نہ لگے یا صرف انھی پر پھل لگے اور کوئی ایک فریق آمدن سے محروم ہو جائے نیز اس میں دھوکے اور نقصان کا پہلو بھی ہے۔
اور صحیح بات جس پر جمہور علماء قائم ہیں یہ ہے کہ مساقات ایسا معاہدہ ہوتا ہے جس پر عمل کرنا لازمی ہے اور اس کا فسخ دوسرے فریق کی رضا مندی کے بغیر جائز نہیں ۔
مدت معاہدے کی تعیین ضروری ہے اگرچہ وہ مدت لمبی ہی کیوں نہ ہو بشرطیکہ درخت اتنا عرصہ باقی رہیں۔
عامل کے ذمے وہ سب کام ہیں جو عرفاً کھجوروں اور دیگر درختوں کی درستی و آبادی اور پھلوں کی اصلاح کے لیے ضروری ہیں مثلاً: زمین کی اصلاح اور اسے پانی دینا اسی طرح پھلوں کو خشک کرنا پانی کی نالیوں کو صاف کرنا اور انھیں درست رکھنا اور پانی درختوں تک پہنچانا وغیرہ۔
مالک پر لازم ہے کہ وہ اصل مال (درختوں) کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری چیزوں کا بندوبست کرے مثلاً: کنواں بنوانا باغ کی چار دیواری کروانا اور درختوں کو مضبوط اور بہتر کرنے کے لیے کھاد وغیرہ مہیا کرنا۔ٍٍٍٍٍٍٍ
مزارعت کی درستی کے لیے یہ شرط نہیں کہ مالک عامل کو بیج بھی مہیا کرے۔ اگر مالک نے صرف زمین عامل کے حوالے کر دی تاکہ وہ بیج ڈالے تو عقد مزارعت درست ہے جیسا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی ایک جماعت کی رائے تھی نیز آج تک لوگوں کا اسی پر عمل رہا ہے۔ مزارعت کے جواز میں قصہ خیبر کی جو دلیل پیش کی جاتی ہے اس میں قطعاً یہ ذکر نہیں کہ بیج مہیا کرنا مسلمانوں کے ذمے تھا۔
علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" جن لوگوں نے مزاراعت میں بیج مہیا کرنے کی ذمے داری مالک پر شرط قراردی ہے انھوں نے اسے مضاربت پر قیاس کیا ہے حالانکہ یہ قیاس سنت صحیحہ اور اقوال صحابہ کے مخالف ہونے کے ساتھ ساتھ قیاس فاسد ہے کیونکہ مضاربت میں مال مالک کو واپس مل جاتا ہے اور نفع دونوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ اسی طرح مزارعت میں زمین مالک کو واپس مل جاتی ہے لیکن بیج اسے اسی حالت میں واپس نہیں ملتا بلکہ وہ زمین کے نفع (پیداوار ) کی صورت میں دونوں میں تقسیم ہو جاتا ہے لہٰذا بیج کو نفع میں شامل کرنا زمین کے ساتھ شامل کرنے کی نسبت زیادہ درست ہے۔(الغرض مزارعت کو مضاربت پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے)[7]
مزارعت کو مخابرہ اور مواکرہ بھی کہا جاتا ہے جیسا کہ عامل کو مزارع مخابرہ اور مواکر کا نام دیا جاتا ہے۔
مزارعت کے جواز کی نقلی اور عقلی دلیل اس باب کے شروع میں بیان ہو چکی ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"مزارعت اجارے (اجرت) سے زیادہ اصلیت رکھتا ہے کیونکہ نفع یا نقصان کی تقسیم میں دونوں مشترک ہیں:"
امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"انسان مزارعت میں ظلم و نقصان سے اجارے کی نسبت زیادہ دور رہتا ہے کیونکہ اجارے میں ایک کو فائدہ یقینی ہے جبکہ مزارعت میں اگر پیداوار ہوئی تو اس میں دونوں شریک ہوں گے وگرنہ دونوں محروم ہوں گے۔[8]
مزارعت کی درستی کے لیے شرط ہے کہ عامل یا مالک کے لیے غلے کی مقدار متعین بطریق مشاع ہو۔ مثلاً: زمین کی پیداوار کا تہائی یا چوتھائی حصہ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر والوں سے نصف پیداوار کا معاہدہ کیا تھا۔" [9]اگر ایک فریق کا حصہ معلوم ہو جائے تو باقی مال دوسرے فریق کا حصہ ہو گا کیونکہ غلہ دونوں کا ہے۔
اگر ایک فریق کے حصے کی تعیین یوں ہوئی کہ اسے مقررہ دس صاع یا زمین کے مخصوص حصے کی آمدن ملے گی اور باقی دوسرے فریق کا حصہ ہوگا تویہ مزارعت درست نہیں یا مالک زمین نے شرط عائد کی کہ بیج کا خرچہ غلے کی صورت میں الگ وصول کرے گا اور باقی پیداوار دونوں میں تقسیم ہو گی تویہ بھی درست نہیں کیونکہ کبھی بیج کے خرچ کے مساوی پیداوار ہو سکتی ہے تو دوسرا فریق محروم رہے گا سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:
"(حضرت حنظلہ بن قیس کہتے ہیں: ) میں نے رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے زمین کو سونے چاندی (درہم و دینار)کے عوض کرائے پر دینے سے متعلق پوچھا تو انھوں نے فرمایا: اس میں کوئی حرج نہیں لوگ عہد نبوی میں اپنے کھیتوں کو اس شرط پر کاشت کے لیے دیتے تھے کہ پانی کی گزرگاہ کے قریب کا حصہ یا جس سمت سے پانی آتا ہے ادھر کا حصہ یا مخصوص حصے کی پیداوار ہماری ہو گی چنانچہ کبھی اس حصے کی پیداوار تباہ ہو جاتی اور دوسرے حصے کی سلامت رہتی اور کبھی اس کی پیداوار سلامت رہتی اور اس حصے کی تباہ ہو جاتی ۔ لوگوں میں یہی مزارعت معروف اور رائج تھی اس لیے اس سے منع فرما دیا۔"[10]
یہ روایت مزارعت کی ایسی صورت کو حرام قرار دیتی ہے جس میں نقصان اور جہالت ہو اور لوگوں کے درمیان نزاع و اختلاف پیدا کرے۔
ابن منذر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے متعدد روایات مروی ہیں اور ان میں وہ علل موجود ہیں جو اس وقت موجود تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان علل کی بنیادپر زمین کو کرائے پر دینے سے منع کر دیا تھا۔ چنانچہ سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے:"ہم زمین کو کرائے پر دیتے تھے اس شرط پر کہ زمین فلاں حصے کی پیداوار ہمارے لیے اور فلاں حصے کی پیداوار تمھارے لیے ہوگی چنانچہ کبھی اس ایک حصے میں پیداوار ہوتی اور اس دوسرے حصے میں پیداوار نہ ہوتی۔"[11]
اجارہ ایک ایسا معاہدہ ہے جس کی ضرورت تقریباً ہر انسان کو مختلف مصلحتوں اور فوائد کے حصول کے لیے باربارپیش آتی ہے جس میں ایک انسان دوسرے کے ساتھ روزانہ، ماہانہ یا سالانہ اجرت کا معاملہ طے کرتا ہے اس کی اہمیت کے پیش نظر اس کے بارے میں اسلامی احکام کی معرفت انتہائی ضروری ہے کیونکہ مختلف مقامات اور اوقات میں جو معاملہ بھی لوگوں کے درمیان اسلامی اصولوں کے مطابق طے ہو گا۔ اس میں فوائد کا حصول زیادہ اور نقصانات کا اندیشہ نہایت کم ہو گا۔
لغوی اعتبار سے اجارہ"اجر"سے مشتق ہے جس کے معنی "معاوضہ"کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
"موسیٰ کہنے لگے اگر آپ چاہتے تو اس پر اجرت لے لیتے۔"[12]
شریعت اسلامی میں "معلوم مدت یا عمل کے لیے کسی متعین یا واجب الادایسی چیز سے جس کی ذات یا صفات معلوم ہوں۔ فائدہ حاصل کرنے اور نقد رقم کی صورت میں اس کی اجرت ادا کرنے کے معاہدے کا نام" اجارہ" ہے۔"
درج بالا تعریف اجارے کی اہم شرائط اور اس کی انواع پر مشتمل ہے یعنی درج بالا تعریف کی روشنی میں ثابت ہوا۔
1۔"فائدہ حاصل کرنے کا معاہدہ "ان الفاظ سے معلوم ہوا کہ کسی چیز کی ذات کے بارے میں معاہدہ اجارہ نہیں بلکہ بیع ہے۔
2۔"منفعت کا مباح ہونا (ضروری ہے)" لہٰذا حرام منفعت پر عقد اجارہ ناجائز ہے بلکہ ایسا معاہدہ اجارہ نہیں کہلاتا مثلاً: زنا وغیرہ۔
3۔"منفعت کا متعین ہونا ضروری ہے۔" لہٰذا مجہول منفعت پر عقد ناجائز ہو گا۔
4۔"کام کی مدت متعین ہو" مثلاً ایک دن ایک مہینہ۔
5۔اجرت متعین ہو۔
معین ذات یا موصوف فی الذمہ یا معلوم عمل جیسے الفاظ سے اجارے کی دو قسمیں سامنے آتی ہیں۔
1۔ کسی معین چیز سے نفع حاصل کرنے کا معاہدہ ہو مثلاً :"میں نے تجھے یہ گھر اجرت (کرایہ) پر دیا۔"یا کسی ایسی شے کا معاہدہ ہو جس کے اوصاف کا تذکرہ ہو مثلاً:"میں نے تجھے بار برداری کے لیے ایک ایسا اونٹ دیا جس میں فلاں فلاں وصف ہیں۔"
2۔اجارہ کسی متعین عمل پر ہومثلاً وہ اسے فلاں جگہ تک سوار کر کے لے جائے گا یا اس کی یہ دیوار بنائے گا۔
اجارہ قرآن مجید سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع امت سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
" پھر اگر وہی (مائیں بچے کو) دودھ پلائیں تو تم انھیں ان کی اجرت دے دو۔"[13]
نیز فرمایا:
"موسیٰ کہنے لگے اگر آپ چاہتے تو اس پر اجرت لے لیتے۔"[14]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر ہجرت میں راستے کی راہنمائی کے لیے ایک آدمی کو اجرت پر ساتھ لیا تھا۔
ابن منذر رحمۃ اللہ علیہ نے اجارے کے جواز پر علماء کا اجماع نقل کیا ہے علاوہ ازیں لوگوں کی حاجت و ضرورت اس کے جواز کی متقاضی ہے یعنی جس طرح انھیں اشیاء کی ضرورت ہے اسی طرح منافع کی حاجت و ضرورت بھی ہے۔
کسی آدمی کو اجرت دے کر اس سے کوئی متعین کام لینا جائز ہے مثلاً کسی سے کپڑا سلوانا ،دیوار بنوانا ، کا کسی سے راستے کی راہنمائی لینا جیسا کہ سفر ہجرت کے بارے میں اُم المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث صحیح بخاری میں ہے۔وہ فرماتی ہیں۔
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بنو دیل سے راستوں کا ماہر آدمی (عبد اللہ بن اریقیط) اجرت پر لیا۔"[15]
گھروں ، دکانوں اور جگہوں کو معصیت کے کاموں کے لیے کرائے پر دینا جائز نہیں مثلاً : شراب کی بیع کے لیے یا حرام مال مثلاً: سگریٹ ،تمباکو،ناجائز تصاویر وغیرہ کی خریدو فروخت کے لیے کیونکہ اس میں گناہ اور معصیت پر تعاون پایا جاتا ہے۔
جس نے کوئی شے کرائے پر حاصل کی پھر وہ شخص وہی شے کسی دوسرے شخص کو کرائے پر دے سکتا ہے جو اس کا قائم مقام ہو کر فائدہ حاصل کرے۔ کیونکہ یہ فائدہ اس کی ملکیت ہے خواہ وہ بذات خود اس سے مستفید ہو یا نیابتاً مستفید ہو۔ جائز ہے لیکن شرط یہ ہے کہ مستاجر ثانی کا فائدہ مستاجر اول کے فائدے کے مساوی ہو یا اس سے کم ہو۔ یعنی مالک شے کو زیادہ نقصان نہ پہنچایا جائے مثلاً ایک شخص نے رہائش کے لیے کسی سے کرائے پر مکان لیا تو وہ کسی دوسرے کو بھی رہائش کے لیے وہی مکان دے سکتا ہے البتہ یہ جائز نہیں کہ وہ کسی کو وہی جگہ کار خانے یا فیکٹری وغیرہ کے لیے دے دے۔
قربت الٰہی اور عبادت کے اعمال پر اجرت لینا دینا جائز نہیں مثلاً :حج یا اذان وغیرہ کیونکہ یہ اعمال اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے ادا کیے جاتے ہیں لہٰذا اجرت لینے سے اصل مقصد فوت ہوجاتا ہے البتہ اگر کسی کے نیک اعمال (اذان دینے امامت کروانے اور کتاب و سنت کی تعلیم دینے ) سے دوسروں کو فائدہ پہنچ رہا ہو تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ بیت المال سے ضروریات زندگی کے لیے تنخواہ وصول کرے۔ واضح رہے کہ یہ معاوضہ نہیں ہے بلکہ یہ نیکی اور اطاعت کے کاموں میں اعانت ہے اس سے نہ اجرو ثواب متاثر ہو گا اور نہ خلوص میں خلل سمجھا جائے گا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہی موقف ہے۔
مالک پر لازم ہے کہ جو شے اجرت پر دے رہا ہے وہ بالکل درست ہو۔ یعنی مطلوب نفع دینے کے قابل ہو۔ مثلاً: کرائے پر دی گئی گاڑی کا سفر اور بوجھ اٹھانے کے قابل ہونا مکان کا ٹھیک حالت میں ہونا۔ اور اگر اس کی کوئی چیز ٹوٹ پھوٹ گئی ہو تو اس کی مرمت کرنا مالک کی ذمے داری ہے تاکہ مستاجر اس سے مکمل فائدہ حاصل کر سکے۔
جس نے کوئی شے اجرت پر لی اس پر لازم ہے کہ وہ اسی حالت میں مالک کو واپس کرے جس حالت میں کرائے پر لی تھی دوران استعمال میں کوئی خرابی پیدا ہو گئی تو کرایہ دار اسے دور کرے۔
اجارہ فریقین (مالک اور مستاجر) کے درمیان ایک معاہدے کا نام ہے جو بیع ہی کی ایک قسم ہے لہٰذا اس کا حکم بھی بیع والا ہے کسی فریق کے لیے جائز نہیں کہ وہ دوسرے کی رضا مندی کے بغیر یہ معاہدہ فسخ قراردے البتہ اگر معاہدے کے بعد اس چیز میں کسی عیب کا علم ہوا تو مستاجر کو فسخ کا حق حاصل ہے۔
مالک کو چاہیے کہ وہ مستاجر کو متعین شے حوالے کر دے اور اسے اس سے مکمل طور پر نفع اٹھانے کا اختیار دے۔
اگر ایک ایک شخص نے کوئی چیز کرائے پر دی مگر مستاجر کو اس سے فائدہ حاصل کرنے سے روک دیا تو جتنی رکاوٹ رہے گی اس کا کرایہ ساقط ہو جائے گا۔ اور اگر مستاجر خود اس سے فائدہ حاصل نہیں کر رہا تب اس کو پورا کرایہ دینا ہو گا کیونکہ اجارہ ایک معاہدہ تھا جس کی پابندی ہر ایک پر لازم ہے اور وہ یہ کہ مالک اجرت لے اور مستاجر فائدہ حاصل کرے۔
درج ذیل امور کی وجہ سے اجارے کا معاہدہ ختم ہو جائے گا۔
1۔کرائے پر دی ہوئی چیز تلف اور ضائع ہو جائے مثلاً:اگر اجرت پر جانوردیا تھا تو وہ ہلاک ہو گیا یا گھر کرائے پردیا تھا لیکن وہ منہدم ہو گیا یا کاشت کے لیے زمین اجرت پر لی تھی لیکن اس کا پانی خشک یا منقطع ہو گیا۔
2۔ایک مقصد کے حصول کی خاطر اجارہ ہوا لیکن معاہدہ اجارہ پر عمل سے قبل ہی مقصد حاصل ہو گیا مثلاً کسی ڈاکٹر سے ایک مریض کے علاج کی خاطر اجرت طے کی گئی لیکن علاج شروع کرنے سے پہلے مریض ٹھیک ہو گیا لہٰذا اب معاہدے کو پورا کرنے کی ضرورت نہیں۔
کسی نے اپنے پاس ایک متعین کام کے لیے مزدور رکھا جو دوران کام میں بیمار ہو گیا تو مزدور کو چاہیے کہ کوئی اپنا قائم مقام مقرر کرے جسے طے شدہ اجرت کے تحت معاوضہ ادا کیا جائے گا البتہ اگر اسی سے کام لینے کی شرط طے ہوئی تھی تو نائب سے کام لینے سے مقصد حاصل نہ ہوگا لہٰذا آجر پر لازم نہیں کہ وہ دوسرے مزدور کے کام کو قبول کرے بلکہ اسے اختیار ہے کہ وہ صبر کرے اور مزدور کے تندرست ہونے کا انتظار کرے یا اپنا حق وصول نہ ہونے کی وجہ سے معاہدہ اجارہ فسخ قراردے۔
مزدور دو قسم کا ہوتا ہے(1)خاص (2)مشترک۔
خاص مزدور وہ ہے جسے ایک مقررہ مدت کے لیے مزدور رکھا گیا ہو وہ مقررہ کام کے لیے مزدور رکھا گیا ہو وہ مقررہ کام کرے گااور آجر ہی اکیلا فائدہ لینے کا مستحق ہوگا۔اس میں کوئی دوسرا شریک نہ ہوگا۔ اگر اس سے کوئی کام غلطی سے بگڑ گیا یا کوئی نقصان ہو گیا تو یہ ضامن نہ ہوگا مثلاً: جس آلے سے کام کر رہا تھا وہ ٹوٹ گیا۔ عدم ضمان کی وجہ یہ ہے کہ وہ وکیل کی طرح مالک کا نائب ہے ہاں !اگر اس نے خود تعدی و زیادتی کی تو نقصان کا ضامن ہو گا۔
مشترک مزدور وہ ہے جس کے لیے کام کی اجرت طے ہوئی تھی لیکن وہ صرف اسی کاکام نہیں کرتا بلکہ اس نے بیک وقت متعدد افراد کے کام کی ذمے داری قبول کی ہوئی ہے اجیر مشترک نقصان کا ضامن ہوگا کیونکہ وہ کام کیے بغیر اجرت کا مستحق نہیں ہوتا۔ لہذا اس کے کام کی ذمے داری اسی پر ہے۔
"اجرت "عقد" کے ساتھ ہی لازم ہو جاتی ہے البتہ ادائیگی اس وقت لازم ہو گی جب وہ اپنا کام مکمل کرے گا ۔یا آجر منفعت حاصل کرے گا یا کرائے پر دی ہوئی شے واپس کرے گا۔ نیز مدت معاہدہ گزر جائے اور مانع بھی کوئی نہ ہو کیونکہ اجیر اجرت تب لے گا جب وہ اپنا کام مکمل کر لے گا۔ واضح رہے اجرت ایک معاوضہ ہے اور معاوضہ تبھی ملتا ہے جب کام مکمل ہو۔
اجیر (مزدور) پر لازم ہے کہ وہ کام کو اچھی طرح مکمل کرے ۔ اس پر حرام ہے کہ کام میں دھوکہ دے یا خیانت کرے جیسا کہ اس پر واجب ہے کہ طے شدہ مدت کے اندر اندر تسلسل سے کام کرے اور وقت ضائع نہ کرے۔
اپنے کام کی ادائیگی میں خوف خدا رکھے۔
مستاجر (مالک) پر لازم ہے کہ وہ کام مکمل ہونے پر مکمل اجرت ادا کردے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔
"مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو۔"[16]
سید نا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: تین آدمی ایسے ہوں گے کہ میں روز قیامت ان سے جھگڑوں گا(اور جس کے ساتھ میں قیامت کے دن جھگڑا کروں گا تو غالب آ جاؤں گا) (1)وہ شخص جس نے مجھ سے عہد و پیمان کیا پھر دھوکا دے دیا۔
2۔وہ آدمی جس نے آزاد آدمی کو (غلام قرار دے کر ) بیچ دیا اور اس کی قیمت کھا گیا۔
(3)وہ آدمی جس نے کسی کو مزدور رکھا اس سے کام پورا لیا لیکن اس کی مزدوری نہ دی۔"[17]
کام "اجیر " کے ذمے امانت ہے لہٰذا اس کا خیال رکھنا اسے مکمل کرنا اور خیر خواہی کرنا اجیر لازم ہے۔ اسی طرح اجیر کی اجرت آجر (مالک) کے ذمے قرض ہے اور حق ہے جسے کسی ٹال مٹول اور کمی کے بغیر کر دینا واجب ہے۔
مقابلہ بازی سے مراد جانوروں کی دوڑ لگانا یا تیر اندازی جیسے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے۔
مقابلہ بازی کا جواز کتاب و سنت رسول اور اجماع امت سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
"اور تم ان کے مقابلے کے لیے اپنی مقدور بھر قوت تیار رکھو۔"[18]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"خبر دار! قوت تیر اندازی سے ہے۔[19]
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"ہم تو آپس میں دوڑ کا مقابلہ کرنے لگے تھے۔"[20]
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"صرف اونٹ ،گھوڑے اور تیر میں مقابلہ بازی (اور انعام ) جائز ہے۔"[21]
علماء نے بالاتفاق اس کے فی الجملۃ جواز کا فتوی صادر کیا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" گھوڑوں کی دوڑیا تیر اندازی اور جنگی آلات کے ذریعے سے وہ مقابلے جن کے جواز کا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم صادر فرمایا ہے۔ ان کا مقصد اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہادی قوت کی استعداد حاصل کرنا ہے۔"
نیز فرمایا:" دوڑ اور کشتی کے مقابلے وغیرہ بھی اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری ہے بشرطیکہ ان کا مقصد دین اسلام کی مدد نصرت ہو۔ اس طرح ان میں انعامات دینا یا وصول کرنا جائز ہے۔ مزید برآں ایسا کھیل اور شغل جس میں نقصان کی بجائے فائدہ ہو جائز ہے البتہ ار جوحہ کے ذریعے کھیلنا مکروہ ہے۔"
آگے چل کر شیخ موصوف فرماتے ہیں:" جو کھیل یا کام اللہ تعالیٰ کے اوامر سے روکنے اور مشغول رکھنے کا باعث ہو ممنوع ہے اگرچہ وہ بذت خود حرام نہ بھی ہو مثلاً بیع تجارت وغیرہ اسی طرح ایسے کھیل اور مقابلے اور ان کے آلات جن سے دین اسلام کو یا انسانی وجود کوکوئی فائدہ نہ ہو بلکہ احکام الٰہی کی پیروی سے غافل کریں بالا تفاق حرام ہیں۔"
علمائے کرام نے اس باب کے مسائل کو "فروسية" کا عنوان دیا ہے اور اس کے احکام بیان کرنے میں دلچسپی لی ہے بلکہ اس موضوع پر ان کی مشہور تصانیف بھی ہیں۔
"فروسية" کی چار اقسام ہیں:
1۔گھوڑے کی سواری کرنا اسے دوڑانا اور حملہ کرنے کی ٹریننگ دینا وغیرہ ۔
2۔تیر اندازی کرنا اور وقت کے جدید اسلحہ سے آگاہی حاصل کرنا۔
3۔تلوار کے استعمال میں تربیت لینا ۔
جس شخص نے یہ چار مراحل طے کر لیے اس نے "فروسیہ" میں کمال حاصل کر لیا۔"[22]
انسانوں ،جانوروں اور گاڑیوں وغیرہ میں دوڑ کا مقابلہ کرانا(اور انھیں انعام دینا) جائز ہے۔ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں۔:"گھوڑوں وغیرہ میں دوڑلگانا یا لوگوں کے درمیان دوڑ میں مقابلہ کرانا جائز ہے۔ اسی طرح تیر اندازی یا دیگر اسلحہ میں مقابلہ بازی درست ہے کیونکہ اس میں جنگ و جہاد کی تربیت حاصل ہوتی ہے۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے دوڑ لگائی تھی۔"[23]
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکانہ سے کشتی لڑی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بچھاڑکر جیت لی۔[24]
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک انصاری شخص سے دوڑ میں مقابلہ کیا تھا۔[25]
اونٹ گھوڑے اور تیر اندازی میں مقابلہ جیتنے پر انعام دیا جا سکتا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"صرف اونٹ ،گھوڑے اور تیر میں مقابلہ بازی (اور انعام ) جائز ہے۔"[26]
اس کی وجہ یہ ہے کہ چیزیں آلات حرب میں شامل ہیں لہٰذا ان کا سیکھنا اور ان کے استعمال میں مہارت حاصل کرنا نہایت ضروری ہے تاکہ مسلمانوں کی جہادی قوت و استعداد بڑھ سکے۔
واضح رہے کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور رکانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قصے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر اس مقابلے میں انعام رکھنا جائز ہے جس سے دین اسلام کو نفع حاصل ہو۔[27]حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے کہ" ہر اس مقابلہ بازی میں انعام رکھنا جس میں اسلام کی شان و شوکت کے دلائل اور براہین کا ظہور ہو وہ گھڑدوڑ اور تیراندازی کے مقابلے سے زیادہ اولی بالجواز ہے۔"
انعامی مقابلہ بازی کی درستی کے لیے پانچ شرائط ہیں:
1۔اونٹ ،گھوڑا وغیرہ جانور متعین ہو، مثلاً: فلاں فلاں گھوڑا مقابلے میں شریک ہو گا۔
2۔جن کے مابین مقابلہ ہووہ اونٹ یا گھوڑا وغیرہ ایک ہی جنس کے ہوں۔ اسی طرح تیراندازی متعین ہوں کیونکہ مقابلے کا مقصد شرکاء کی قابلیت اور مہارت کا اندازہ کرنا ہے۔
3۔وہ مسافت جہاں تک دوڑنا ہے محدود ہوتا کہ آگے بڑھنے والے کا علم ہو سکے
4۔انعام جائز اور متعین ہو۔
5۔مقابلہ جوئے کے شائبے سے پاک ہو۔ انعام مقابلے میں شریک فریقین کے علاوہ تیسرے فریق یا شخص کی جانب سے ہو۔ البتہ اگر مقابلہ کرنے والوں میں سے کوئی ایک فریق یا فرد انعام لگادے تو بالا تفاق جائز ہے۔[28] اگر دونوں فریق انعام مقرر کرتے ہیں تو علماء کا اس کے جواز میں اختلاف ہے۔ بعض علماء اس کے جواز کے قائل ہیں جبکہ بعض کے نزدیک اس کے جواز کی ایک شرط یہ ہے کہ ان کے ساتھ ایک تیسرا فریق بھی مقابلہ میں شریک ہو۔جو انعام دینے والوں میں سے نہ ہو۔ البتہ اگر وہ غالب آجائے تو انعام کا مستحق ہو۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے تیسرے شخص کی دخل اندازی کو شرط قرار نہیں دیا۔وہ لکھتے ہیں:" تیسرے فریق کی دخل اندازی کے بغیر مقابلہ ہونا زیادہ انصاف کی بات ہے اور وہ اسی طرح کہ انعام دونوں میں سے ایک کی طرف سے ہو۔ اس سے مقابلے کا مقصود بہتر طور پر حاصل ہوتا ہے یعنی دوسرے کی شکست واضح ہو جاتی ہے اس صورت میں انعام لینا حلال کمائی ہے۔ نیز انھوں نے فرمایا: میرے علم کے مطابق تیسرے فریق کی دخل اندازی کا قائل حابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے کوئی نہ تھا البتہ معروف تابعی حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ اس کے قائل تھے۔ بعض نے اس کی رائے کو قبول کر لیا۔"
گزشتہ بحث کا حاصل یہ ہے کہ دو قسم کی مقابلہ بازی جائز ہے۔
1۔ جس میں دین اسلام کو قوت اور فائدہ حاصل ہو۔ مثلاً: جہاد وقتال کے لیے ٹریننگ لینا یا دینی معلومات و مسائل میں پختگی حاصل کرنا۔ اس قسم میں انعام لینا اور دینا جائز ہے۔
2۔ایسا مقابلہ جس سے مقصود صرف کھیل ہو جو نقصان دہ نہیں ہے ایسا مقابلہ جائز ہے بشرطیکہ اسلامی عبادات اور دینی فرائض وواجبات کی ادائیگی میں رکاوٹ کا باعث نہ ہو۔ اس قسم کے مقابلے میں انعام لینا اور دینا درست نہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ اس دوسری قسم میں زیادہ دلچسپی لینے لگے ہیں اور بھاری رقوم کا انعام دیتے ہیں بہت زیادہ قیمتی وقت ضائع کرتے ہیں حالانکہ مسلمانوں کو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں محفوظ رکھے۔
"مستعار" وہ چیز ہے جو کسی کو محدود وقت کے لیے جائز فائدہ حاصل کرنے کی خاطر دی جائے اور فائدہ حاصل کرلینے کے بعد مالک کوواپس کردی جائے۔
اس تعریف کی روشنی میں جس چیز سے فائدہ حاصل کرنا ناجائز ہو،وہ مستعار نہیں دی جاسکتی۔اسی طرح جو چیز فائدہ حاصل کرنے سے ختم ہوجاتی ہو وہ چیز بھی کسی کو عاریتاً دینے میں شامل نہیں اور اسے عاریت نہیں کہتے،مثلاً:کھانے پینے کی اشیاء۔
اشیاء عاریتاً دینے کی مشروعیت کتاب وسنت اور اجماع سے ثابت ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"اور برتنے کی چیز روکتے ہیں۔"[29]
اس آیت میں ان لوگوں کی مذمت کی گئی ہے جو دوسروں کو عام استعمال کیا اشیاء عاریتاً نہیں دیتے۔علاوہ ازیں علماء نے اس آیت سے عاریتاً چیز دینے کا"وجوب" ثابت کیا ہے بشرط یہ کہ مالک مالدار اور مستغنی ہو۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہی مسلک ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے گھوڑا عاریتاً لیا تھا۔[30]اسی طرح صفوان بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے زرہیں عاریتاً لی تھیں۔[31]
الف۔کسی ضرورت مند کو اس کی ضرورت کی اشیاء عارتیاً دینا بہت بڑے اجرثواب کا باعث ہے کیونکہ نیکی اور تقوے میں تعاون کے عموم میں یہ کام بھی شامل ہے۔
ب۔کسی چیز کا عاریتاً دینا تب جائزہے جب درج ذیل شرائط کا لحاظ ہو:
1۔عاریتاً شے دینے والا رضا ورغبت سے شے دینے کی اہلیت رکھتا ہو اور بااختیار ہو،لہذا بچہ،مجنون اورکم عقل کسی چیز کو عاریتاً دینے کے اہل نہیں ہیں۔
2۔مستعیر (عاریتاً حاصل کرنے والا) بااختیار ہو کہ اس کا قبول کرنا درست ہو،یعنی اس میں بھی درج بالا اوصاف موجود ہوں۔
3۔عاریتاً دی گئی چیز سے فائدہ اٹھانا جائز ہو،لہذا مسلمان غلام کسی کافر شخص کو عاریتاً دینا جائز نہیں یا کسی کو ایسا ہتھیار دینا جس سے وہ کسی کو قتل کرسکے جائز نہیں۔ارشادباری تعالیٰ ہے:
"گناہ اور ظلم وزیادتی میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔"[32]
4۔جو چیز عاریتاً دی جائے اس سے فائدہ لینا ممکن ہو،نیز وہ اپنی حالت پر قائم بھی رہے جیسا کہ اوپر ذکر کیا جاچکا ہے۔
ج۔ جس شخص نے کوئی شے عاریتاً دی ہے وہ جب چاہے اسے واپس لے سکتا ہے الا یہ کہ جب مستعیر کا نقصان ہو رہاہو تو درست نہیں،مثلاً: کسی کو کشتی عاریتاً دی گئی تاکہ اس سے باربرداری کاکام لیا جائے تو جب تک کشتی سمندر میں ہے تب تک معیر"عاریتاً دینے والا" واپس نہیں لے سکتا۔اسی طرح اگر ایک انسان نے شہتیر رکھنے کے لیے عاریتاً دیوار دے دی تو جب تک لکڑی دیوار پر رہے،مُعیر رجوع نہیں کرسکتا کیونکہ اس میں مستعیر کا نقصان ہے۔
د۔مستعیر کا فرض ہے کہ عاریتاً چیز کی حفاظت اپنے ذاتی مال سے بڑھ کر کرے تاکہ اسے مالک کی طرف صحیح سالم حالت میں لوٹا سکے۔
اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
"اللہ تمھیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انھیں پہنچاؤ۔"[33]
اس آیت کااطلاق جس طرح امانت کو واپس کرنے پر ہوتا ہے اس طرح مستعار کو لوٹانے پر بھی ہوتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"جو کوئی شے لیتا ہے اس کی ادائیگی اسی کے ذمے ہے۔"[34]
اور ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
"جس کی امانت ہے اسے(عندالطلب) لوٹادے۔"[35]
ان احادیث کا اطلاق جہاں امانتوں کو لوٹانے پر ہوتا ہے وہیں مستعار اشیاء کو واپس کرنے پر بھی ہوتا ہے کیونکہ مستعار شے بھی ایک قسم کی امانت ہی ہوتی ہے۔اگراس سے استفادہ کرنا جائز قراردیا گیا ہے تو وہ بھی معروف حدود کے اندر اندر ہے۔اس کے استعمال میں اس حد تک اسراف وزیادتی کرناکہ وہ ضائع ہوجائے قطعاً جائز نہیں،نیز اس کا استعمال ناجائز مقام پر بھی نہ کیا جائے کیونکہ مالک نےایسے ایسی اجازت نہیں دی۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"احسان كا بدلہ احسان کے سواکیا ہے؟"[36]
اگر مستعیر نے شے کاناجائز استعمال کیا اور وہ ضائع ہوگئی تو وہ اس کاضامن ہوگا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"جو کوئی شے لیتا ہے اس کی ادائیگی اسی کے ذمے ہے۔"[37]
اگر وہ شے معروف طریقے سے استعمال کرتے ہوئے تلف ہوگئی تو وہ ضامن نہ ہوگا کیونکہ مُعیر نے اسے استعمال میں لانے کے لیے ہی اجازت دی تھی تو جب وہ اجازت والے کام میں استعمال کرتے ہوئے تلف ہوگئی تو اس کی ضمانت نہیں ہے۔
ر۔عاریتاً لی ہوئی چیز کسی دوسرے کو عاریتاً نہیں دی جاسکتی کیونکہ جو شے ایک شخص کے لیے بطور استعمال مباح قراردی گئی،اسے نہیں چاہیے کہ وہ آگے کسی دوسرے کے لیے مباح قراردے۔اس صورت میں شے کے ضائع ہونے کا خطرہ بھی ہے۔
س۔اگر عاریتاً لینے والے نے چیز کو،جس مقصد کے لیے لی تھی،اس کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے استعمال کیا کہ جس کی وجہ سے وہ ضائع ہوگئی تو اس میں علمائے کرام کی دورائے ہیں۔علماء کے ایک فریق کا کہنا ہے کہ اس شے کے تلف ہونے میں کوتاہی یا زیادتی ہوئی ہو یا نہ ہو بہرصورت وہ ضامن ہوگا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"جو کوئی شے لیتا ہے اس کی ادائیگی اسی کے ذمے ہے۔"[38]
مثلاً: کسی نے ایک شخص سے جانور عاریتاً لیا جودوران انتفاع مرگیا یا کپڑا لیا جو جل گیا یا چوری ہوگیا۔اس میں مستعیر مالک کو اس کی مثل یا قیمت ادا کرے گا۔
فریق ثانی کا نکتہ نظریہ ہے کہ اگر اس کے استعمال میں کوتاہی وزیادتی نہ ہوئی تو ضامن نہیں کیونکہ ضمانت تو کوتاہی کی صورت میں ہوتی ہے۔یہ قول درست معلوم ہوتا ہے کیونکہ عاریتاً شے امانت کے حکم میں ہوتی ہے۔
ش۔مستعیر پر لازم ہے کہ وہ عاریتاً لی ہوئی شے کی حفاظت کرے اور استفادے کے بعدمالک کو جلد لوٹادے ۔اس کی ادائیگی میں اس قدر تاخیر نہ کرے کہ وہ ضائع ہوجائے یا اس میں نقص پیدا ہوجائے کیونکہ یہ شے اس کے پاس ایک امانت ہے،نیزمالک نے اسے دے کر احسان کیا ہے،لہذا احسان کا بدلہ احسان سےدے۔
اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
"احسان كا بدلہ احسان کے سواکیا ہے؟"[39]
"غصب"کےلغوی معنی" کسی شے پر ظالمانہ قبضہ کرنے" کے ہیں۔فقہاء کی اصطلاح میں"غصب" کسی کے حق پر زبردستی ناحق قبضہ جمانے کا نام ہے۔
غصب کے حرام ہونے پر اہل اسلام کا اجماع ہے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھایا کرو۔"[40]
"غصب"باطل طریقے سے مال کھانے کا بہت بڑا اور بُرا حربہ ہے،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"تمہارے خون،تمہارے اموال اور تمہاری عزتیں تم پر حرام ہیں۔"[41]
نیز فرمایا:
"خبردار کسی مسلمان آدمی کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے مال میں سے کچھ لے مگر جو اس کی خوش دلی کے ساتھ ہو۔"[42]
مغصوب(غصب كياگیا) مال"غیرمنقول" ،یعنی زمین،مکان وغیرہ بھی ہوسکتا ہے اور"منقول"(رقم،جانور وغیرہ) بھی ،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"جوشخص کسی کی زمین میں سے ایک بالشت کے برابر ناجائز قبضہ کرے گا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے سات زمینوں کا طوق پہنائے گا۔"[43]
غاصب پر لازم ہے کہ وہ طلب معافی کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے اور غصب کردہ شے مالک کو لوٹائے اور اس سے بھی معافی مانگے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"اگر کسی شخص پر اس کے مسلمان بھائی کا کوئی حق ہے جواس نے اس پر اس کی عزت یا کسی بھی حوالے سے کیا ہےتو اسے اسی دنیا میں ادا کردے(یا معاف کروالے) اس دن کے آنے سے پہلے پہلے جس دن اس کے پاس کوئی دینار ودرہم نہ ہوگا۔اگر اس کی نیکیاں ہوں گی تو اس سے لے کر مظلوم کو اس پر ظلم کے بقدر دے دی جائیں گی اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوں گی تو مظلوم کے گناہ ظالم پرلادیے جائیں گے۔"ایک روایت کے الفاظ ہیں:"اس پر ڈال دیے جائیں گے"[44]صحیح مسلم کے ا لفاظ ہیں:
"(گناہ) اس پر ڈالے جائیں گے بالآخر اسے بھی جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔"[45]
(1)۔اگر مغصوب شے موجود ہو تو اسے اسی حالت میں واپس کرے اور اگر ضائع ہوگئی ہوتو اس کا مثل دے(اگر اس کی مثل نہیں تو قیمت اداکرے) ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر علماء کا اجماع نقل کیا ہے کہ اگر مغصوب شے اپنی حالت پر ہوتو اس کا لوٹاناواجب ہے۔
(2)۔اگر مغصوب شے سے کوئی آمدن یا اضافہ ہوا ہے تو وہ بھی واپس کرے،وہ متصل اضافہ ہو(جیسے درختوں کا پھل یا جانوروں کی اون وغیرہ) یا منفصل ہو(جیسے جانور کا بچہ) اصل مال کی طرح یہ اضافہ بھی مالک ہی کا ہے۔
(3)۔اگر کسی نے مغصوب زمین پر کوئی عمارت تعمیر کرلی یا اس میں باغ لگادیا۔اگرمالک کا مطالبہ ہوتو غاصب عمارت منہدم کرے اور درخت ہوں تو انھیں کاٹ لے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"اس میں ظالم کی رگ(کھیتی وغیرہ) کاکوئی حق نہیں ہے۔"[46]
اگر زمین متاثر ہوئی ہوتو غاصب پر حسب نقص تاوان ادا کرنا لازم ہے ،نیز اس پر لازم ہے کہ وہاں سے درختوں یا عمارت کاملبہ اٹھا کر مالک کو اصلی حالت میں زمین واپس کرے۔"[47]
(4)۔غاصب پر لازم ہے کہ شے کے غصب سے لے کر مالک کو لوٹانے تک جتنا عرصہ گزرا ہے اس قدر مغصوب شے کاکرایہ اجرت ادا کرے کیونکہ اس نے اس دوران میں مالک کو فائدہ اٹھانے سے ناحق روک رکھاتھا۔
(5)۔اگر غاصب نے غصب شدہ چیز کو اتنا عرصہ روک کررکھا کہ بازار میں اس کی قیمت کم ہوگئی تودرست بات یہی ہے کہ غاصب اس نقصان کاذمہ دار ہے۔
(6)۔اگر مغصوب شے کسی دوسری ایسی جنس سے مخلوط ہوگئی جو الگ ہوسکتی ہو،جیسے گندم میں جو کی ملاوٹ تو غاصب پر لازم ہے کہ اسے الگ کرکے مالک کو اس کی شے واپس کرے۔اگروہ ہم جنس کے ساتھ مخلوط ہوئی جو الگ نہیں ہوسکتی،مثلاً:ایک قسم کی گندم میں دوسری قسم کی گندم ملادی تو مغصوب شے کی مثل(وزن یاماپ میں) واپس لوٹانا لازم ہے۔اور اگر ایسی جنس کے ساتھ مل گئی جو قیمت میں اس سے کم یا زیادہ ہو یا اس میں دوسری جنس کی ملاوٹ کردی جو الگ نہیں ہوسکتی توغاصب اس مخلوط شے کو فروخت کرے اور مالک کو اس کی شے کی صحیح قیمت ادا کرے۔اگرمغصوب کی قیمت کم ملی تو غاصب اس کمی کو تاوان کی صورت میں پوراکرے۔
(7)۔فقہائے کرام کا کہنا ہے:"غصب شدہ جن جن ہاتھوں میں گئی ہے اس کے تلف ہونے کی صورت میں سب ضامن ہوں گے۔"(بشرط یہ کہ انھیں غصب کا علم ہو وگرنہ غاصب اول ہی ضامن ہوگا۔)
(8)۔اگر مغصوب شے ان اشیاء میں سے ہو جو عموماً کرایہ واجرت پر دی جاتی ہوں تو وہ شے جتنی مدت غاصب کے پاس رہی ہووہ اس کی اجرت وکرایہ سمیت اصل شے واپس کرے کیونکہ اشیاء کےمنافع کی قیمت لگائی جاسکتی ہے،لہذا اصل شے کی طرح اس کے کرائے کی ذمے داری بھی غاصب پر ہوگی۔
(9)۔غاصب کے مغصوب شے میں جملہ تصرفات باطل اور ناجائز ہیں کیونکہ اس میں مالک کی اجازت شامل نہیں۔
(10)۔اگر غاصب نے کوئی شے چھین لی اب اسے معلوم نہیں کہ اس کا اصل مالک کون ہے اور اسے مالک کوواپس کرنا ممکن نہیں تو غاصب وہ شے حاکم وہ قاضی کےحوالے کردے جو اسے کسی صحیح مصرف میں استعمال کرلے یا اس کا صدقہ کردے۔صدقہ کرنے کی صورت میں اجروثواب مالک کو ملے گا اور غاصب بری ہوجائے گا۔
(11)۔اموال کاغصب صرف قوت سے ناجائز قبضہ کرنے ہی سے نہیں بلکہ ناجائز طور پر دعویٰ کرکے یا زبان کی تیزی کے بل بوتے پر یا جھوٹی قسم کے ذریعے سے حاصل کردہ مال بھی غصب ہی میں شامل ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھایا کرو، نہ حاکموں کو رشوت پہنچا کر کسی کا کچھ مال ظلم وستم سے اپنا کر لیا کرو، حالانکہ تم جانتے ہو"[48]
نیز فرمایا:
"بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں، ان کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں، اللہ تعالیٰ نہ تو ان سے بات چیت کرے گا نہ ان کی طرف قیامت کے دن دیکھے گا، نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے"[49]
فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
"جوشخص کسی کی زمین میں سے ایک بالشت کے برابر ناجائز قبضہ کرے گا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے سات زمینوں کا طوق پہنائے گا۔"[50]
نیز فرمایا:
"اگر میں کسی کو(اس کی زبان کی تیزی کیوجہ سے فیصلے میں)اس کے بھائی کا کچھ حق دے دوں تو اسے نہ لے کیونکہ میں اسے آگ کا ٹکڑا کاٹ کردے رہا ہوں۔"[51]
اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے اموال میں ظلم وزیادتی کرنے اور انھیں ناحق ضائع کرنے سے منع کیا ہے۔اگر کسی شخص نے کسی کا مال ناجائز ضائع کردیا تو اس ضمان وتاوان دینے کا حکم دیاگیا ہے اگرچہ یہ ضیاع خطا کی صورت ہی میں کیوں نہ ہو۔
جس شخص نے کسی کا مال اس کی اجازت کے بغیر ضائع کردیا تو اس پر شرعاً ضمانت واجب ہے۔
شیخ ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"ہمیں علم نہیں کہ کسی نے اس مسئلے میں اختلاف کیا ہو(توگویا تمام علمائے کرام کا اتفاق ہے) کہ نقصان کسی نے قصداً کیا ہو یا سہواً،نیز نقصان کرنے والا ،خواہ عاقل وبالغ ہو یا غیر عاقل اور بچہ وغیرہ۔"
1۔جو شخص کسی کے مال کو ضائع کرنے کا سبب بنا،اس پر بھی ضمان ہے،مثلاً: کسی نے بند دروازہ کھول دیا تو جو پرندہ اس میں تھا وہ ہاتھوں سےنکل گیا ،یا کسی نے بند مشکیزے کا منہ کھول کر اس میں موجود شے بہا کر ضائع کردی تو وہ ضامن ہوگا۔اسی طرح کسی نے جانور کی رسی یازنجیر کھول دی اور وہ جانور بھاگ گیا یاگم ہوگیا یاکسی نے تنگ گلی یا راستے میں جانور باندھ دیا اوراس کی گوبر گندگی سے کوئی انسان پھسل گیا یا جانور نے ٹانگ مارکر نقصان پہنچادیا تو جانور باندھنے والاضامن ہوگا کیونکہ اس نے راستے میں جانور باندھ کر زیادتی کی ہے ۔کسی نے راستے میں گاڑی کھڑی کردی جس کے نتیجے میں اس سے کوئی دوسری کار یا کوئی شخص ٹکرا گیا تو نقصان کی صورت میں گاڑی کامالک ضامن ہوگا۔ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جس شخص نے مسلمانوں کے عام راستے میں یا بازار میں جانور کھڑا کیا اور اس نے کسی کو اپنے ہاتھ یا پاؤں تلے روند دیا تو مالک ضامن ہوگا۔"[52]
اگر کسی نے راستے میں مٹی،لکڑی یا پتھر پھینک دیا یاگڑھا کھودا جس کی وجہ سے راستے میں سے گزرنے والے کو نقصان پہنچایا کسی نے راستے میں خربوزے وغیرہ کا چھلکا پھینک دیا راستے میں پانی ڈال کر کیچڑ کردیاجس سے کوئی پھسل گیا اور نقصان پہنچا توان تمام صورتوں میں کام کرنے والا نقصان کا ذمہ دار ہوگا کیونکہ یہ سراسر اس کی زیادتی ہے۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ لوگ آج کے دور میں مندرجہ بالا امور میں انتہائی سستی اور لاپروائی کررہے ہیں،چنانچہ اکثر دیکھاگیا ہے کہ لوگ راستوں میں گہرے گڑھے کھودیتے ہیں،مختلف اشیاء یا سامان رکھ کر استے بند کردیتے ہیں۔مختلف مواقع پر اپنے مقاصد کے لیے سڑکیں بلاک کردیتے ہیں اورگزرنے والوں کو تنگی وتکلیف میں ڈالتے ہیں۔ان کا نقصان کرتے ہیں اور انھیں اس بات کا قطعاً پروا نہیں ہوتی کہ وہ کتنے بڑے گناہ کا ارتکاب کررہے ہیں۔
2۔اگر کسی کے کاٹنے والے کتے نے کسی راہ گزر شخص کو کاٹ کر نقصان پہنچایا تو مالک نقصان کا ضامن ہوگا کیونکہ اس نے ایسے کتے کو کیوں رکھا ہے۔
3۔کسی نے کسی مقصد کے لیے اپنی زمین میں کنواں کھودا تو اگر کسی کا نقصان ہوگیا تو کنواں کھودنے والاذمے دار ہوگا۔کیونکہ اس نے اس کی حفاظت کے لیے دیوار وغیرہ بنا کر اسے محفوظ نہیں کیا،لہذا یہ اس کی کوتاہی ہے جس وجہ سے وہ ضامن ہے۔
4۔جانور رات کے وقت کھول دیا گیا اور اس نے کسی کوکھیت کا نقصان کردیا تو مالک ضامن ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے"
"دن کو کھیت والے حفاظت کریں اور رات کو جانور نقصان کرجائیں تو ان کے مالک ذمے دار ہیں۔"[53]
اس روایت سے ثابت ہوا کہ اگر ایک شخص کا جانور دوسرے کے کھیت کو دن کے وقت نقصان پہنچادے تو اس پر ضمان نہیں،البتہ اگر کسی نے قصداً جانور کھول کرچھوڑدیا جس سے کسی کے نقصان کا واضح امکان تھا تو جانور کامالک ذمے دار ہوگا۔
امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"اہل علم کی یہ رائے ہے کہ اگر کسی کے جانور نے دن کے وقت کسی کھیت کا نقصان کردیا تو مالک ضامن نہ ہوگا۔اوراگررات کو نقصان کیا تو مالک ذمے دارہوگا کیونکہ عموماً یہ ہوتا ہے کہ کھیت یا باغ کے مالک دن کے وقت اپنے کھیت وباغ کی حفاظت کرتے ہیں جبکہ جانوروں کے مالک جانوروں کی حفاظت رات کو کرتے ہیں۔جس نے ایسی عادت ومعمول کی خلاف ورزی کی،زیادتی کی صورت میں ذمے داری اسی پر ہوگی۔واضح رہے یہ تب ہے جب جانور کا مالک جانور کے ساتھ نہ ہوگا وگرنہ جانور کا مالک نقصان کا ذمے دار ہوگا۔"[54]
اللہ تعالیٰ نے سیدنا داود علیہ السلام کا ایک قصہ یوں بیان کیا:
"اور داؤد اور سلیمان (علیہما السلام) کو یاد کیجئے جبکہ وه کھیت کے معاملہ میں فیصلہ کر رہے تھے کہ کچھ لوگوں کی بکریاں رات کو اس میں چر چگ گئی تھیں، اور ان کے فیصلے میں ہم موجود تھے (78) ہم نے اس کا صحیح فیصلہ سلیمان کو سمجھا دیا۔ ہاں ہر ایک کو ہم نے حکم وعلم دے رکھا تھا اور داؤد کے تابع ہم نے پہاڑ کر دیئے تھے جو تسبیح کرتے تھے اور پرند بھی۔ ہم کرنے والے ہی تھے۔" [55]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" اللہ تعالیٰ نے سیدنا سلیمان علیہ السلام کی ضمان بالمثل( ہلاک شدہ شے کی مثل تاوان) کے فیصلے کی تعریف فرمائی ہے ۔قرآن کے لفظ(نَفَشَتْ) کے معنی رات کو بکریاں چراناہے۔جس جگہ بکریوں نےنقصان کیا تھا وہ انگوروں کا باغ تھا۔ سیدناداود علیہ السلام نے ہلاک شدہ کھیتی کی قیمت ادا کرنے کافیصلہ کیا،چنانچہ جب بکریوں کی قیمت کااندازہ لگایا تو وہ ہلاک شدہ کھیتی کی قیمت کے بقدر تھا توبکریاں کھیت والے کو دے دیں،البتہ سیدنا سلیمان علیہ السلام نے ضمان بالمثل(تباہ شدہ چیز کی مثل تاوان) کا فیصلہ دیا وہ اس طرح کہ بکریوں والے باغ کی اصلاح کریں یہاں تک کہ وہ پہلی حالت میں لوٹ آئے،اس طرح کھیت کے خراب ہونے سے لے کر اس کے درست ہونے تک کا اس کا فائدہ ضائع نہیں ہوا بلکہ باغ والے کو بکریاں دے دیں تاکہ وہ ان کے اضافے سےکھیت کے اضافے کے بقدر حاصل کرلے اور اس کے کے کھیت کا جو نقصان ہوا ہے اس کا تاوان بکریوں کے اضافہ سے پورا کرلے۔ان دونوں تاوانوں کاجب اندازہ لگایا تو وہ دونوں برابر تھے۔یہ وہی علم ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انھیں خاص کیا ہے اور اس کی تعریف فرمائی ہے۔"[56]
1۔اگر جانور کی لگام یا نکیل سوار یا کوچوان کے ہاتھ میں ہوتو جانور کے اگلے حصے(پاؤں یامنہ) کے ذریعے سے پہنچنے والے نقصان کا ذمے دار جانور کا مالک ہوگا،البتہ جانور کے پچھلے پاؤں کا نقصان ضائع ہے،[57]اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:"بے زبان جانور کے(پچھلے) پاؤں کا نقصان ضائع ہے۔" جانور کو"عجماء" اس لیے کہتے ہیں کہ وہ کلام نہیں کرسکتا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"ہرجانور عجماء کلام نہ کرنے والا ہوتا ہے جیسے گائے ،بکری وغیرہ۔
ان جانوروں کے نقصان کی ضمانت نہیں ہے جب یہ خود کوئی غلط کام کرلیں جیسا کہ یہ جانور اپنے مالک کے ہاتھ سے چھوٹ جائے اور کسی کا نقصان کردے تو اس کی ذمے داری کسی پر نہیں،ہاں! اگر جانور زخمی کرنے والا(ہڑکایا) ہوتو اس کے مالک کی ذمے داری بنتی ہے کہ نہ تو وہ رات کو اس کی حفاظت میں کمی کرے اورنہ بازار میں چلتے ہوئے اس سے غافل رہے۔اسی طرح جہاں مسلمانوں کا اجتماع ہووہاں بھی اس کی حفاظت کرے۔یہی مسئلہ کئی علماء نے بیان کیا ہے۔ان جانوروں کے نقصان کی ضمانت نہیں ہے جب یہ خود ہی مالک کے ہاتھ سے چھوٹ جائیں اور سیدھے ہی بھاگتے جائیں نہ ان کی کوئی پکڑنے والا ہو نہ کوئی چلانے والا ہو،سوائے کاٹنے والے کے۔"
اگر ایک شخص پر کسی آدمی یاجانور نے حملہ کیا جس سے اس کی جان کوخطرہ ہواتو اگراس شخص نے دفاع کرتے ہوئے حملہ آوروں کو قتل کردیا تو اس پر ضمان چٹی نہیں کیونکہ اس نے اسے دفاع کرتے ہوئے قتل کیا ہے جو اس کا جائز حق تھا ،لہذا وہ شخص اس حملے کے نتیجے میں مرتب ہونےوالے اثرات کا ذمے دار نہ ہوگا،نیز اس نے یہ قتل دفع شر کے لیے کیا ہے،گویا حملہ آور اپنے آپ کو خود ہی قتل کرنے والاہے۔
شیخ تقی الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"آدمی کو چاہیے کہ وہ حملہ آور کو روکے اگرچہ اس کو قتل کرنا پڑے اور یہ فقہاء کا متفقہ مسئلہ ہے۔"
اگر ایک شخص نے کسی کےلغو ولھو کے آلات،صلیب،شراب کے برتن توڑدیے یا گمراہی اور بے حیائی پھیلانے والی کتب ضائع کردیں تو اس میں ضمان(تاوان) نہیں۔سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں آپ کے پاس چھری لاؤں،(جب) میں چھری لایا۔۔۔تو آپ اپنے اصحاب کے ساتھ مدینہ کے بازاروں میں گئے وہاں علاقہ شام سے شراب کے بھرے مشکیزے لائے گئے تھے۔۔۔،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بنفس نفیس انھیں پھاڑا۔۔۔اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو بھی ایسا ہی کرنے کا حکم دیا۔"[58]
اس روایت سے ثابت ہوا کہ لغو،بے ہودہ اور حرام اشیاء کو ضائع کرنا درست ہے اور اس میں تاوان اور ضمان بھی کوئی نہیں،البتہ ضروری ہے کہ اس قسم کی اشیاء کا ضیاع حکومت کی طرف سے ہوتاکہ اس عمل کے فوائد حاصل ہوں اور اس کے نتیجے میں خرابی پیدا نہ ہو۔
[1] ۔صحیح البخاری الحرث والمزارعۃ باب المزارعۃ بالشطر ونحو ہ حدیث :2328۔وصحیح مسلم المساقاۃ باب المساقاۃ والمعاملۃ حدیث 1551واللفظلہ۔
[2] ۔صحیح مسلم المساقاۃ باب المساقاۃ والمعاملۃ حدیث 1551۔
[3] ۔مسند احمد:1/250۔
[4] ۔زاد المعاد :3/345۔
[5] ۔۔المغنی والشرح الکبیر 5/555۔
[6] ۔المغنی والشرح الکبیر 5/555۔
[7] ۔اعلام الموقعین:2/9۔
[8] ۔اعلام الموقعین:2/8۔
[9] ۔صحیح مسلم المساقاۃ باب المساقاۃ والمعا ملۃ حدیث1551۔
[10] ۔صحیح مسلم البیوع باب کراء الارض بالذھب والورق حدیث :1547۔
[11] ۔ صحیح مسلم البیوع باب کراء الارض بالذھب والورق حدیث :1547۔
[12] ۔الکھف:18۔77۔
[13] ۔الطلاق65۔6
[14] ۔الکھف:18۔77۔
[15] ۔صحیح البخاری الاجارۃ باب اذا مستاجر اجیر اًلیعمل لہ بعد ثلاثہ ایام حدیث2264۔
[16] ۔(ضعیف) سنن ابن ماجہ الرھون باب اجر الاجر اء حدیث 4324۔
[17] ۔صحیح البخاری البیوع باب اثم من باع حرا حدیث 2227۔ البتہ قوسین والے الفاظ سنن ابن ماجہ الرھون باب الاجراء حدیث 2442۔کے ہیں۔
[18] ۔الانفال:8۔60۔
[19] ۔صحیح مسلم الامارۃ باب فضل الرمی والحث علیہ حدیث1917۔
[20] ۔یوسف 17۔12۔
[21] ۔سنن ابی داؤد الجہاد باب فی السبق حدیث :2574۔
[22] ۔جدید دور کے اعتبار سے جنگی طیاروں ٹینکوں توپوں اور میزائلوں کی تربیت حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔
[23] ۔سنن ابن ماجہ النکاح باب حسن معاشرہ النساء حدیث 1979۔
[24] ۔(ضعیف) سنن ابی داؤداللباس باب فی العمائم حدیث:4078۔
[25] ۔صحیح مسلم ، الجہاد باب غزوہ ذی وغیرھاحدیث 1807
[26] ۔۔سنن ابی داؤد الجہاد فی السبق حدیث2574۔
[27] ۔سنن ابی داؤد الجہاد باب فی السبق حدیث2574۔
[28] ۔مثلاً: ایک ساتھی اپنے دوسرے ساتھی سے کہتا ہے کہ اس مقابلے میں اگر تو مجھ پر غالب آجائے تو میں تجھے سوروپے انعام دوں گا۔ یہ جائز ہے۔(صارم)
[29]۔الماعون:7/107۔
[30]۔صحیح البخاری الھبۃ وفضلھا باب من استعار من الناس الفرس،حدیث 2627۔
[31]۔سنن ابی داود البیوع باب فی تضمین العاریۃ حدیث 3562۔ومسند احمد 3/401،6/465۔
[32]۔المآئدۃ 5/2۔
[33]۔النساء:4/58۔
[34]۔ (ضعیف) سنن ابی داودالبیوع باب فی تضمین العاریۃ،حدیث 3561،وجامع الترمذی، البیوع باب ماجاء فی ان العاریۃ موادۃ،حدیث 1266۔وسنن ابن ماجہ الصدقات باب العاریۃ،حدیث 2400،واللفظ لہ۔
[35]۔ سنن ابی داود البیوع باب فی الرجل یاخذ حقہ من تحت یدہ،حدیث 3534،3535۔
[36]۔ الرحمٰن 55:60۔
[37]۔ (ضعیف) سنن ابی داودالبیوع باب فی تضمین العاریۃ،حدیث 3561،وجامع الترمذی، البیوع باب ماجاء فی ان العاریۃ موادۃ،حدیث 1266۔وسنن ابن ماجہ الصدقات باب العاریۃ،حدیث 2400،واللفظ لہ۔
[38]۔ (ضعیف) سنن ابی داودالبیوع باب فی تضمین العاریۃ،حدیث 3561،وجامع الترمذی، البیوع باب ماجاء فی ان العاریۃ موادۃ،حدیث 1266۔وسنن ابن ماجہ الصدقات باب العاریۃ،حدیث 2400،واللفظ لہ۔
[39]۔ الرحمٰن 55:60۔
[40]۔البقرۃ:2/188۔
[41]۔صحیح بخاری العلم باب لبلیغ العلم الشاھد الغائب حدیث 105۔
[42]۔(ضعیف)سنن دارقطنی :3/22،حدیث:2862۔
[43]۔صحیح البخاری المظالم باب اثم من ظلم شئيا من الارض حدیث 2452،2453،وصحیح مسلم المساقاۃ باب تحریم الظلم وغصب الارض وغیرھا حدیث 1610،ومسند احمد:2/432 واللفظ لمسلم۔
[44]۔صحیح البخاری المظالم باب من کانت لہ مظلمۃ عند الرجل۔۔۔حدیث 2449،6534۔
[45]۔صحیح مسلم البروالصلۃ باب تحریم الظلم حدیث 2581۔
[46]۔ صحیح البخاری الحرث والمزارعۃ باب من احیاء ارضا مواتا،بعد حدیث 2334،معلقاً وجامع الترمذی الاحکام باب ماذکر فی احیاء الارض الموات حدیث 1378۔
[47]۔اگرمالکِ زمین عمارت یا باغ کو بحال رکھنا چاہتا ہے تو غاصب کو اس کی معروف قیمت ادا کردے۔(صارم)
[48]۔البقرۃ:188۔2۔
[49]۔آل عمران:77۔3۔
[50]۔صحیح البخاری المظالم باب اثم من ظلم شئيا من الارض حدیث 2452،2453،وصحیح مسلم المساقاۃ باب تحریم الظلم وغصب الارض وغیرھا حدیث 1610،ومسند احمد:2/432 واللفظ لمسلم۔
[51]۔مسند احمد:6/307۔
[52]۔(ضعیف) سنن دارقطنی 3/178 حدیث 3352 والسنن الکبریٰ للبیہقی 8/344۔
[53]۔سنن ابی داود البیوع باب المواشی تفسد(زرع قوم،حدیث 3569 ،ومسند احمد 5/435،436 والموطا للامام مالک،الاقضیۃ باب ا لقضاء فی الضواری والحریسۃ 2/311حدیث 1500 واللفظہ لہ۔
[54]۔تفسیر البغوی 3/298۔299۔
[55]۔الانبیاء:21/78،79۔
[56]۔مجموع الفتاویٰ 15/485۔باختلاف یسیر۔
[57]۔(ضعیف) سنن ابی داود الدیات باب فی الدابۃ تنفع برجلھا حدیث 4592 وسنن الدارقطنی 3/152۔حدیث 3275،3280،3350۔
[58]۔مسند احمد 2/132،133۔